Topics
شاہانہ مسعود،اسلام آباد: مجھے خود سے
باتیں کرنے کی عادت ہے۔ بے خیالی میں آواز بلند ہوجاتی ہے اورمحسوس کرتی ہوں کہ جس
سے میں بات کر رہی ہوں، وہ سامنے ہے۔ جہاں
ملازمت کرتی ہوں، وہاں میری قدر ہے اور رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ مجھے بہت
قابل سمجھتے ہیں۔ کسی کے گمان میں نہیں کہ مجھے کوئی نفسیاتی عارضہ ہوسکتا ہے۔
ماہر ِنفسیات کو دکھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہیں تصوراتی دنیا میں رہنے کا شوق
ہے، ذہن میں ایک دنیا تصور کرلی ہے، اس
میں رہتی ہو اور وہاں موجود لوگوں سے باتیں کرتی ہو۔ علاج انہوں نے یہ بتایا کہ
اللہ نے تمہیں ذہین بنایا ہے، اونچی آواز
میں بولنے کے بجائےلکھنا شروع کرو ۔ عظیمی صاحب ، مجھ سے لکھنے کی مشق نہیں ہوسکی
کیوں کہ جس رفتار سے بول سکتی ہوں، اس
رفتار سے لکھ نہیں سکتی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ میرا کام زیادہ ہے اور لکھنے کی مشق کے لئے وقت کم ہے۔ کیا اس عادت سے نجات کا کوئی اور طریقہ
نہیں ؟
جواب:
اور طریقہ کیوں&؟ ایک بیمار آدمی معالج کو مشورہ نہیں دیتا، معالج کے مشورے پر عمل
کرتا ہے۔ آپ کے لئے جو علاج تجویز کیا گیا ہے، انشاءاللہ اس سے فائدہ ہوگا۔ چلتے
پھرتے وضو بے وضو یا حی یاقیوم پڑھئے اور معالج نے جو بتایا ہے اس پرعمل کیجئے ۔
علاج کرنا سنت ہے۔
’’ماہنامہ قلندر شعور‘‘ (اپریل 2021ء)
Parapsychology se masil ka hal
خواجہ شمس الدین عظیمی
معاشرے میں افراتفری کی وجہ یہ ہے کہ فرد اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ سبب خود فرد کی نفسیات ہے اور نفسیات ماحول سے منسلک ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام تخلیق ہے، تخلیق کا محرک خیال ہے اور خیال کا خالق رحمٰن و رحیم اللہ احسن الخالقین ہے۔