Topics

وصال

وصال سے پیشترحضور قلندر بابا اولیاءؒ نے آٹھ ماہ تک چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک پیالی دودھ پر گزر کیا۔ اور تین روز پہلے کھانا اور پینا دونوں چھوڑ دیا۔ جب بھی درخواست کی گئی کہ آپ اور نہیں کچھ تو پانی ہی پی لیں تو حضورؒ نے ہاتھ کے اشارے سے منع فرما دیا۔ ایک ہفتہ پہلے اس بات کا اعلان فرمادیا کہ اب میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کا مہمان ہوں ۔ جس روز وصال ہوا اس روز صبح سویرے اپنے داماد، محمد جمیل صاحب سے فرمایا، ‘‘آج تم کہیں نہیں جانا۔ میرا کچھ پتہ نہیں۔’‘ دوپہر کے بعد فرمایا، ‘‘تم گھر میں ہی رہنا۔ اس وقت میرے پیروں کی جان نکل چکی ہے۔’‘ وصال سے تین گھنٹہ پیش تر حضرت خواجہ صاحب قبلہ کی طلبی ہوئی۔ ارشاد عالی ہوا۔ ‘‘مجھ سے مصافحہ کرو۔’‘ اس سے پہلے کبھی کسی سے یہ بات نہیں فرمائی تھی۔ وصال سے ایک گھنٹہ قبل بھائی سراج صاحب نے جانے کی اجازت چاہی ۔ فرمایا ۔ ‘‘ اچھا جاؤ، خدا حافظ، صبح جلد آجانا۔’‘ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بھائی سراج صاحب نے پیر ومرشد کا حق خدمت ادا کردیا۔ قبلہ خواجہ صاحب اور چند دوسرے متوسلین حضرات کی موجودگی میں ایک بار جنت کا تذکرہ ہورہا تھا۔ قبلہ حضور نے فرمایا۔ ‘‘میں نے ایک دھوبی کی پیشانی پر جنت کی مہر دیکھی ہے۔ یہ دھوبی سراج صاحب ہیں۔’‘

28 جنوری 1979ء بروز اتوار قبلہ حضورؒ کے وصال کی خبر روزنامہ جنگ، روزنامہ جسارت اور روزنامہ ملت گجراتی نے نمایاں طور پر شائع کی۔

27 جنوری:جنوری 1979ء کا روحانی ڈائجسٹ چھپ کر تیار ہوچکا تھا۔ ٹائٹل کی چھپائی ہنگامی حالت میں رکوا کر پہلے صفحہ پر قلندر بابا اولیاءؒ کے وصال کی خبر اس طرح شائع کی گئی۔ 


آہ قلندر بابا اولیاءؒ


واحسر تا کہ آج دنیا اس وجود سرمدی سے خالی ہوگئی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

‘‘میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور میں ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔’‘

روحانی ڈائجسٹ چھپ کر تیار ہی ہوا تھا کہ روحانی ڈائجسٹ کے سرپرست اعلیٰ حضور حسن اخریٰ محمد عظیم برخیاؔ ،قلندر بابا اولیاءؒ نے سفر آخرت کی تیاری کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے واصل بحق ہوگئے۔ 

جگر خون ہوگیا، آنکھیں پانی ہوگئیں، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، دماغ ماؤف ہوگئے۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی ہو۔ کوئی دل ایسا نہ تھا جو بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب نہ گیا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کے جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا ہے۔

ایسی برگذیدہ ہستی نے پردہ فرمالیا جس کی نماز جنازہ میں انسانوں کے علاوہ لاکھوں فرشتے صف بستہ تھے، حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم عاشق رسول حضرت اویس قرنیؓ، اولیاء کے سرتاج حضرت غوث الاعظمؒ گرامی قدر اپنے معزز فرزند سعید کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ حد نظر تک اولیاء اللہ کی ارواح کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ 

مشیت ایزدی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں بجز صبر و شکر کوئی چارہ نہیں ۔ ‘‘ اللہ کی سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں یہ ارشاد ہے:۔ 


کل نفس ذائقہ الموت 

پیش نظر شمارہ میں عقیدت مند حضرات حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی یہ رباعی پڑھیں گے۔

ایک جرعہ مئے ناب ہے کیا پائے گا

اتنی سی کمی سے کیا فرق آئے گا

ساقی مجھے اب مفت پلا، کیا معلوم

یہ سانس جو آگیا ہے پھر آئے گا

27 جنوری 1979ء کی شب ایک بجے جب کہ شب بیدار، خدا رسیدہ بندے اپنے اللہ کے حضور حاضری دیتے ہیں، حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ مستقل حضوری پر تشریف لے گئے۔ 

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

حضور قلندر بابا اولیاؒ کی وصیت کے مطابق آپ کا جسد مبارک عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے شمالی حصہ میں محو استراحت ہے۔ جس وقت مٹی دی جارہی تھی اس وقت مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ 





فقیہ دہر، فخر اہل ایماں

رموز حکمت و عرفاں کے محرم

رفیق و مونس حرماں نصیباں

وہ اپنوں اور بیگانوں کے ہمدم

ہوئے جب عازم فردوس اعلیٰ

بپا ہر سو ہوا اک شور ماتم

بجز اللہ کے ہر شے ہے فانی

صدائے غیب یہ آتی ہے پیہم

سن رحلت کی مجھ کو جستجو تھی

بہت ہی مضطرب تھی جانِ پُر غم

کہا آہ کھینچ کر ہاتف نے فوراً

قمر! کہہ دو ‘‘قلندر فخرِ عالم’‘

۱۴۰۵-۶ = ۱۳۹۹ ہجری

(قمر یزدانی)


Topics


Tazkira Qalandar Baba Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا