Topics

سلسلۂ عظیمیہ کا تعارف اور اغراض و مقاصد

کفر و الحاد کی آندھیاں جب اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور ہر طرف گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمت سے اپنی مخلوق کا اضطراب اور بے چینی دور کرنے کے لئے پیغمبر مبعوث فرماتے ہیں۔ پیغمبر بتاتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت ربانی ہے۔ وہ توفیق ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ اس کی تخلیق میں کون سے فارمولے کام کررہے ہیں۔ آدم کو خالق کائنات نے کس لئے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھا اور دنیا کی چند روزہ زندگی گزار کر کہاں چلا جاتا ہے۔ چاند، سورج اور کائنات کی تخلیق کس طرح ظہور پذیر ہوئی اور کہکشانی نظاروں کی سیر کے کیا طریقے ہیں۔ 

حضرت آدم ؑ سے حضرت عیسیٰ ؑ تک شعور انسانی نے ارتقاء کا وہ مرحلہ طے کرلیا تھا جس میں وہ اخلاق، تمدن، معیشت اور سیاست کی گتھیوں کو سلجھانے کی اہمیت کو محسوس کرچکا تھا۔ مخلوق کی ذہنی افتاد جب ارتقائی مراحل سے ذرا آگے قدم بڑھانے کی طرف مائل ہوئی تواللہ تعالیٰ نے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کو اپنی حیات طیبہ کی روشن مثال کیساتھ معاشرتی، اخلاقی، تاریخی اور تسخیری فارمولوں کی مستند کتاب قرآن سے استفادہ کرنے کی واضح ہدایات دیں اور بتایا کہ یہ کتاب بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کرتی ہے اور عزت و شرف کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:

‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مشن پر بھیجا ہے کہ میں انسانوں کے درمیان عدل و احسان سے باہمی تعلقات قائم کردوں، تمام بتوں کو توڑ دوں اور صرف ایک اللہ کی اطاعت و بندگی کا مرکز و محور بنادوں ، یہاں تک کہ کسی حیثیت سے کسی معاملہ میں کوئی اللہ کا شریک نہ رہے گا۔’‘

ہر انسان دوسرے انسان سے ہم رشتہ ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان سے اس لئے متعارف ہے کہ اس کے اندر زندگی بننے والی لہریں ایک دوسرے میں ردو بدل ہورہی ہیں۔ پرمسرت محفل میں جہاں سینکڑوں ہزاروں افراد آلام سے بے نیاز، خوشیوں کے لطیف جذبات سے سرشار ہیں وہاں ایک فرد کی المناکی ساری محفل کو مغموم کردیتی ہے۔۔۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ 

اس لئے کہ پوری نوع کے افراد زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ایک کڑی کمزور ہوجائے تو ساری زنجیر کمزور ہوجاتی ہے۔ ایک کڑی ٹوٹ جائے تو رنجیر میں جب تک دوسری کڑی ہم رشتہ نہ ہوجائے زنجیر نہ کہلائے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَاعتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمَیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا

‘‘سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔’‘(آلِ عمران۔آیت103)


اتحاد و یگانگت ماضی کو پر وقار، حال کو مسرور اور مستقبل کو روشن و تابناک بناتی ہے۔

اللہ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ اس قانون کے مطابق جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ظاہری آنکھ سے پردہ فرمالیا تو سنت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا کا ایک سلسلہ قائم کردیا۔ سلسلہ کیا ہے؟ ان اولیاء اللہ کا گروہ ہے جن کے بارے میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد ربانی ہے:


الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون

‘‘اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔ ‘‘(یونس ۔آیت62)


علم حضوری سے مالا مال اولیاء اللہ نے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی پیش رفت کے لئے ہدایت و رہنمائی کی ذمہ داری اپنے توانا کاندھوں پر اُٹھالی آج یہ جو توحید کا غلغلہ اور علم حضوری کی جھلک نظر آتی ہے یہ سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ہی ورثا کی کوشش کا ثمر ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے ایسے محبوب بندے ہیں کہ جتنی قربت اللہ نے انہیں عطا کی ہے کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ جس قوم یا جس فرد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اوصاف اور روحانی اقدار کی چھاپ نہ ہو، اس کا یہ کہنا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی ہے۔’‘جو خود عارف نہیں وہ کسی کو عارف کیسے بنا سکتا ہے! جو خود قلاش اور مفلوک الحال ہے وہ کسی کو کیا خیرات دے گا!

اس پاکیزہ کردار عارف حق نے ہمیں بتایا ہے کہ آج ہم کفر و شرک کے طوفان سے اگر بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ وہ آواز ہے جو پیدا ہوتے ہی ہم اپنے بچوں کی حق آشنا سماعت میں منتقل کردیتے ہیں۔ اذان کے معنی اور مفہوم پر تفکر کرنے سے یہ بات مشاہدہ میں آجاتی ہے کہ پیدا ہونے والے ہر بچے کے دماغ کی اسکرین (Screen) پر پہلا نقش یہ مرتسم ہوتا ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ وہ اللہ جو ہمیں زندہ رکھتا ہے اور ہمارے لئے زندگی کے وسائل فراہم کرتا ہے۔ 

اللہ والوں کے اوپر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، تجلیات کی بارش ہوتی ہے، ان کے فیوض و برکات کی روشن اور منور چادر ایک عالم پر سایہ فگن رہتی ہے۔ ہر زمانے میں طالب حق کسی عارف بزرگ سے بیعت ہونے کے بعد جب وہ سلوک کی منزلیں طے کرتا ہے تو ہ بزرگ کسی نہ کسی راستے سے قدم بہ قدم چلا کر منزلِ مقصود یعنی عرفانِ خداوندی تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ اصول و قوانین اور روحانی راستے سلسلے کاتعین کرتے ہیں۔ گروہ اولیاء اللہ میں سے منتخب اور اکابر لوگوں نے ہر زمانے میں طالبان حق کی عمومی حالت کو پیش نظر رکھ کر ایسے اذکار و اسباق مرتب کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عرفان خداوندی حاصل کرسکیں۔ ہر زمانے میں نوع انسانی کی شعوری اور جسمانی صلاحیتوں میں فرق بھی واقع رہا ہے۔ ایک زمانے میں لوگوں کے پاس جسمانی قوت کی فراوانی تھی لیکن ان کے شعور کی قوتیں اتنی مضبوط نہیں تھیں جتنی کہ آج دیکھنے میں آرہی ہیں۔ فی زمانہ ماحول کے اثرات سے لوگوں کے اعصاب کمزور ہوگئے ہیں۔ ان کی مصروفیات میں حد درجہ اضافہ ہوگیاہے۔ چنانچہ آج لوگوں کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ پرانے طریقہ ہائے ریاضت پر عمل کرسکیں۔

آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت قابل قبول ہے جب اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے۔ سلسلہ عظیمیہ کا مشن بھی یہی ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دئیے جائیں۔ چنانچہ حالات حاضرہ کے پیش نظر سلسلہ عظیمیہ کے اسباق و افکار بہت ہی مختصر مرتب کیے گئے ہیں جن کے ذریعے رہروان سلوک کو عرفان خداوندی نصیب ہوتا ہے۔ 

سنگِ بنیاد

ابدالِ حق حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیاؔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے دست کرم سے آپ کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت کے بعد جولائی 1960ء میں رکھی گئی۔ 

ایک روز خواجہ صاحب نے سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھنے کیلئے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت میں درخواست پیش کی۔ حضور بابا صاحبؒ نے خواجہ صاحب کی یہ درخواست بارگاہ سرورِ کائنات ،فخرِ موجودات ، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میں پیش کی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست قبول فرمانے کے بعد سلسلہ عظیمیہ قائم کرنے کی اجازت عطا فرمادی۔ 

خانوادۂ سلاسل

سلسلہ عظیمیہ جذب و سلوک دونوں روحانی شعبوں پر محیط ہے امام سلسلۂ عظیمیہ، ابدال حق، سیدنا و مرشدنا حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا المعروف حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ خصوصاً اکیس سلاسل طریقت کے مربی و مشفی ہیں اور حسب ذیل گیارہ سلاسل عالیہ کے خانووادہ  ۱؂   ہیں۔

قلندریہ : امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ 

نوریہ : امام سلسلہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضاؒ 

چشتیہ : امام سلسلہ حضرت ممشاد دینوریؒ 

نقشبندیہ : امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند خواجہ باقی باللہؒ 

سہروردیہ : امام سلسلہ حضرت ابوالقاہرؒ 

قادریہ : امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ 

طیفوریہ : امام سلسلہ حضرت بایزید بسطامیؒ 

جنیدیہ : امام سلسلہ حضرت ابو القاسم جنید بغدادیؒ 


_____________________________________________________________________________________________________________________________

۱ؔ؂ وہ شیخ یا صاحب ولایت جسے امام سلسلہ نے اپنا ذہن منتقل کردیا ہواسے خانوادہ کہتے ہیں۔


ملامتیہ : امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ 

فردوسیہ : امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبریٰ ؒ 

تاجیہ : امام سلسلہ حضرت محمد صغریٰ تاج الدینؒ 

سلسلہ عظیمیہ میں طالب کو اسی روحانی رنگ میں رنگا جاتا ہے جس رنگ میں اس کی افتاد طبع ہے۔سلسلۂ عظیمیہ میں روایتی پیری مریدی نہیں ہے۔ نہ جبہ و دستارہے نہ منبر و محراب۔ اگر کسی طالب کو درعظیم سے کچھ لینا ہے تو اس کیلئے خلوص اور طلب علم کیلئے ذوق و شوق کا ہونا کافی ہے۔ 

رنگ

حضور قلندر بابا اولیاءؒ مرتبۂ قلندریت کے مقام اعلیٰ پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ کی ذات بابرکات کا رنگ قلندریہ ہے۔ اس لئے سلسلۂ عظیمیہ کارنگ بھی قلندریہ ہے۔



رنگ

خدا نما جہاں نما ہے سلسلۂ عظیمیہ

قبولِ شاہِ دو جہاںؐ ہے سلسلۂ عظیمیہ

حسیِن رہنما ملے حَسن عظیم برخیاؔ

قلندروں کا رنگ ہے سلسلۂ عظیمیہ


Topics


Tazkira Qalandar Baba Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا