Topics

اپنا عرفان

عرفان نفس، معرفت الٰہیہ کا دروازہ انسان پر کھول دیتا ہے اور عرفانِ نفس کے حصول کے سلسلے میں اہل روحانیت کو جن مدارج سے گزرنا پڑتا ہے ان میں سب سے پہلا درجہ "لا"ہے۔ یعنی سب سے پہلے انسان کو اپنی روایتی معلومات اور شعوری علم کی نفی کرنی پڑتی ہے اور پھر اس کے بعد روحانیت کے اسی راستے پر چلتے ہوئے انسان ایسے درجے پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر اپنی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ یعنی نفس کا عرفان حاصل ہوجاتاہے۔ اس کے لئے سالک کو ایک معینہ اور مقررہ راستے پر سفر کرنے کے لئے شیخ یا مرشد کی رہنمائی لازمی ہے۔ذیل میں اسی مضمون سے متعلق شیخ طریقت، مخزن علم و آگاہی حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد  رقم کیا جارہا ہے۔ 

صحیح بات سمجھنے کے لئے جو کچھ ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہے اس کو آئندہ کے لئے بالکل بھلادیا جائے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ انسان کیا ہے؟ انسان صرف خیالات کی لہریں ایک ترتیب میں جمع ہوجانے کا نام ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اس کا پانی جب تک دونوں کناروں کے بیچ میں بہتا رہتا ہے، اس وقت تک انسانی احساس کویہ نہیں معلوم ہوتا کہ پانی کی لہروں میں کیا کیا چیزیں بہتی چلی جارہی ہیں۔ ایک حالت میں دریا کے اندر طوفان آجاتا ہے پانی کناروں سے باہر اچھلنے لگتا ہے۔ اب انسانی احساس کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کچھ خیالات پراگندہ قسم کے ابتر، بے ترتیب اور تقریباً بے معنی ادھر سے یورش کرتے چلے آرہے ہیں۔ انسان ان تمام خیالات کے معنی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ گزرتا رہتا ہے۔ گزرنے کی وجہ خاص طور سے یہ ہوتی ہے کہ وہ ان خیالات میں ترتیب قائم نہیں کرسکتا۔ 

خیالات کی دوسری قسم ایک اور بھی ہے۔ وہ قسم یہ ہے کہ انسانی احساس دریا کے پانی میں بہتی ہوئی چند چیزیں اٹھاتا رہتا ہے اور ان کوایک خاص پیرائے میں مرتب کرلیتا ہے۔ اس ترتیب سے جو مفہوم نکلتا ہے اس کو وہ اپنی تصنیف قرار دے دیتا ہے یہی و ہ کام ہے جس کو دنیا کے ذہین اور ذی ہوش انسان کسی خاص علم یا اختراع کا نام دیتے ہیں۔ 

خیالات کی اور قسموں سے یہاں بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس لئے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انسان کے اندر دو قسم کے خیالات کام کررہے ہیں۔ 

۱۔ وہ خیالات جو دریاکے طوفانی ہونے سے کناروں سے باہر اچھل جاتے ہیں۔

۲۔ وہ خیالات جن کو انسانی شعور اپنی مطلب برآری کے لئے انتخاب کرتا ہے۔

دریا کا ما خذ کیا ہے؟ دریا میں طوفان کیوں آتا ہے؟ انسانی شعور بہتی ہوئی چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ چیزیں جو اس کے ہاتھ آتی رہتی ہیں کیوں اٹھاتا رہتا ہے؟ انسانی سائنس کے علوم اب تک اس بات سے واقف نہیں ہوسکے ہیں حالاں کہ وہ کئی صدیوں سے نفسیات کے میدان میں اس قسم کی تلاش کررہے ہیں۔ جو سوالات اوپر کیے گئے ہیں ان کے جوابات آسمانی صحائف میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جب انسان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تو اس کو دو یونٹ کی حیثیت دی جائے گی۔ ایک یونٹ وسیع تر یونٹ ہے اور اسی یونٹ کی رسائی دریا کے مخرج تک ہے۔ دوسرا یونٹ محدود تر ہے۔ اس یونٹ کا تمام کارنامہ ماضی کے متعلق جاننا اور ماضی کو حافظے میں رکھنا ہے۔ 

یہی یونٹ انسانی شعور کی ساری حدود کا احاطہ کرتا ہے۔ 

مندرجہ بالا سطور میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے لاشعور کو وسیع تر یونٹ اور شعور کو محدود تر یونٹ کا نام دیا ہے اور یہ بتا یا ہے کہ لاشعور کی رسائی دریا کے ماخذ تک ہے۔ یہی وہ منبع اور ماخذ ہے جہاں سے ہر لمحہ اور ہر آن پوری کائنات کو زندگی کی تحریکات ملتی ہیں۔ اسی منبع کی بنیاد (Base) امرِ ربانی ہے۔ 


Topics


Tazkira Qalandar Baba Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا