Topics

خانقاہِ عظیمیہ

علم و فضل کے اداروں کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں صوفیاء کے مراکز کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ ان مراکز کو زاویہ یا خانقاہ کہا جاتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں یہ مراکز توقع کے مطابق صوفیوں کے اجتماعات کے مقام تھے جہاں وہ جمع ہوکر مراقبہ اور دیگر روحانی ریاضتیں کرتے تھے۔ اور طالبوں کو باطنی اسرار و رموز سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ یہاں وہ لوگ جنہیں رسمی علم سے اطمینان نہیں ہوتا تھا، آکر ایقان کی روشنی اور حقیقت کے براہ راست کشف کے طالب ہوتے تھے۔ 

وہ مکتبی علمی بحث و تمحیص یعنی قیل و قال کو خیر باد کہہ دیتے تھے اور اپنے روحانی رہنماؤں کی ہدایت کے مطابق غور و فکر (حال) سے انبساط حاصل کرتے تھے۔ اسی لئے عارفوں اور استدلال پسندوں یعنی باطنی علم رکھنے والوں اور ظاہری علم رکھنے والوں کو بالترتیب صاحبان حال اور صاحبان قال کہا جاتا تھا۔ چنانچہ صوفیوں کے مرکز درحقیقت علمی مراکز ہوتے تھے۔ لیکن وہاں جو علم سکھایا جاتا تھا وہ کتابوں میں نہیں ملتا تھااور اس کے انکشاف کیلئے ذہنی صلاحیتیوں کی تربیت ہی کافی نہیں ہوتی تھی۔ ان مراکز میں شائقینِ روحانیت مراقبہ کے ذریعے علم کی بلند ترین صورت یعنی باطنی اور روحانی علم کا ادراک کرتے تھے۔ جس کی تحصیل کیلئے روح اور ذہن کی پاکیزگی ضروری ہوتی ہے۔ 

منگولوں کے حملے کے بعد صوفیاء کے مراکز بہر حال ہمیشہ کیلئے علمی اداروں کی شکل اختیار کرگئے۔ عالم اسلام کے مشرقی علاقوں میں منگولوں کے حملے کے نتیجے میں معاشرے کے خارجی اداروں کی تباہی کے بعد کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی جو تعمیر نو کا کام شروع کرنے کے قابل ہوتی ماسوائے صوفیوں کے سلسلے کے جنہیں معاشرے کا نڈر طبقہ کہا جاسکتا ہے۔ 

کراچی ملک کا سب سے بڑا اور سب سے پُر شکوہ شہر ہے۔ بیشمار خوبیاں ہیں جو اس شہر کو دیگر شہروں سے ممتاز کرتی ہیں اور اہل وطن کی زبان میں اسے ‘‘عروس البلاد’‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس شہر نگاراں کیلئے فضیلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم و اسرار کے وارث، اللہ کے دوست، بانی طریقۂ عظیمیہ، ابدالِ حق، حامل علم لدنی، حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اسی شہر کو اپنے قیام اور پھر اپنے خاکی جسم کی آخری آرام گاہ کیلئے منتخب کیا۔ جیسے لاہور کا طرۂ افتخار داتاؒ کی نگری ہونا ہے ، اسی طرح کراچی کا سرمایہ ناز حضور قلندر اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا شہر ہونا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا آستانۂ مبارک جو شادمان ٹاؤن میں خانقاہِ عظیمیہ کے نام سے موسوم ہے، عوام کیلئے موجبِ برکت و سعادت ہے اور کیوں نہ ہوکہ یہی وہ مقدس بارگاہ ہے جہاں مظلوم کی داد رسی اور ظالم کی پُرسش ہوتی ہے۔ یہاں دوستی کو اخلاص کا گوہر ملتا ہے اور دشمنی کا لبادہ چاک ہوجاتا ہے۔ خستہ حال غنی بنتے ہیں اور دولت کے بوجھ تلے دبے ہوئے دل سکون کی وسعتوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اپنے بندے کی دوستی کے طفیل اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتے ہیں، دعائیں مقبول اور ہر حاضری دینے والا پیکر مہر و محبت اور مجسمۂ خلوص و ایثار بن کر لوٹتا ہے۔ یہ وہ پاکیزہ دربار ہے جہاں پہنچ کر تمام منفی جذبات دم توڑ دیتے ہیں اور اذہان رحم و کرم کی بارش میں دُھل کر شفاف ہوجاتے ہیں۔ 

عرس مبارک

27 جنوری اس مقدس ہستی کا یوم وصال ہے جو بارگاہ خداوندی میں مقبول اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا محبوب ہے۔ اس وجود مسعود نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق، روحانی اور علوم حضوری کے مشن کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے اور اولیاء اللہ کی محبت میں دیوانے، پاک باطن لوگ 27 جنوری کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے عرس مبارک میں دور دراز مقامات سے تشریف لاتے ہیں اور روحانی فیض سے مالا مال اور سرخرو ہوکر اپنے اپنے مقامات پر بابا صاحب ؒ کے فیض کو عام کرتے ہیں۔

مندرجہ ذیل پروگرام کے تحت عظیمیہ ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام عرس کا انتظام و انصرام تکمیل پاتا ہے۔ 



پروگرام

27؍جنوری

بعد نماز ظہر : ختم درود شریف اور آیت کریمہ

بعد نماز عصر : قرآن خوانی

بعد نماز مغرب: فاتحہ اور تقسیم لنگر

بمقام : خانقاہ عظیمیہ

ایس۔ ٹی۔ سیکٹر 14-B،

بس اسٹاپ شادمان ٹاؤن نمبر 1، کراچی

(بس اسٹاپ سخی حسن سے اگلا بس اسٹاپ ہے)۔


Topics


Tazkira Qalandar Baba Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔


ا نتساب

اُس نوجوان نسل کے نام 

جو

ابدالِ حق، قلندر بابا  اَولیَاء ؒ  کی 

‘‘ نسبت فیضان ‘‘

سے نوعِ ا نسانی  کو سکون و راحت سے آشنا کرکے

 اس کے اوپر سے خوف اور غم کے دبیز سائے

 ختم کردے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر

انسان  اپنا  ازلی  شرف حاصل کر کے جنت 

میں داخل ہوجائے گا۔



دنیائے طلسمات ہے ساری دنیا

کیا کہیے کہ ہے کیا یہ  ہماری   دنیا

مٹی  کا  کھلونا ہے   ہماری تخلیق

مٹی  کا کھلونا  ہے یہ ساری   دنیا


اک لفظ تھا اک لفظ سے  افسانہ ہوا

اک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا

گردوں نے ہزار عکس  ڈالے ہیں عظیمٓ

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا