Topics

نیگیٹیو بینی

سوال: آپ اکثر لوگوں کو مختلف تکالیف کے ازالے کے لئے نیگیٹیو بینی کا مشورہ دیتے ہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ نیگیٹیو دیکھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟

جواب: دنیا میں کوئی بھی طریقہ علاج ہو ایلوپیتھی ، یونانی، ہومیوپیتھی یا ایکو پنکچر وغیرہ ہر طریقہ علاج کے پیچھے ایک تھیوری ہوتی ہے اور اس تھیوری کے پس منظر میں لوگوں کا تجربہ ہوتا ہے۔

کوئی آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ بخار کونین کی ایک گولی کھا لینے سے کس طرح اتر جاتا ہے۔ تو ظاہر ہے اس کا جواب یہی ہو گا کہ اس دوا میں بخار کو کم کرنے کی تاثیر موجود ہے۔ اسی صورت سے ایکو پنکچر ایک طریقہ علاج ہے اور چائنا میں ہزاروں سال سے رائج ہے انہوں نے جسم پر کچھ پوائنٹ (Points) مقرر کئے ہوئے ہیں۔ سوئی سے ان پوائنٹس کو چھیڑا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک پوائنٹ سے دوسرا پوائنٹ چونکہ جڑا ہوا ہے تو سوئی کی نوک جب ایک سرے پر لگتی ہے تو جسم کے اندر ایک خاص قسم کا کرنٹ Flowہوتا ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ پیر میں سوئی لگتی ہے تو پورے دماغ میں جھنجھناہٹ سی ہوتی ہے۔ کبھی آپ کو چیونٹی کاٹ لے تو دماغ میں جھنجھناہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ جس سسٹم کے اوپر یہ جسم قائم ہے اس سسٹم کو چھیڑ دینے سے Chemical Changesپیدا ہوتی ہیں اور ان کیمیاوی تبدیلیوں کی بنیاد پر انسانی جسم میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔

اسی صورت سے یونانی علاج ہے انکا طریقہ علاج یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ صاحب جسم کی اندر اگر کچھ ایسی رطوبتیں جمع ہو جائیں جن کا خارج ہونا ضروری ہو تو اس سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جن سے یعنی اس طریقہ علاج میں جو اخلاط زائد ہو جائیں ان کا تدارک کیا جاتا ہے۔ اب یہ بھی سوال ہے کہ جڑی بوٹی جسم میں جا کے کیسے خلط کو صاف کر دیتی ہے۔ اس کا بھی جواب یہی ہے کہ ہر جڑی بوٹی کے اندر اپنی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ اس خاصیت کی بنیاد پر جسم کے اندر جو زائد رطوبتیں ہوتی ہیں وہ نکال دیتی ہیں اور جن چیزوں کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے ان کو محفوظ کر لیتی ہے۔

تو اب بات یہ سامنے آئی کہ اس زمین پر جو بھی کچھ ہے نباتات ہوں، جمادات ہوں یا حیوانی اجزاء ہوں ہر اک کی اپنی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ ایک طریقہ علاج تو یہ ہوا کہ مرض کی کیفیت دیکھ کر ایسی کوئی دوا تجویز کی جائے کہ جس میں یہ خاصیت اللہ نے رکھ دی ہو کہ اس مخصوص مرض کا اس سے ازالہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مادی علاج ہے۔ 

اس کے برعکس ایک اور علاج ہے جس کو آپ روحانی علاج کہتے ہیں مادی علاج میں اور روحانی علاج میں کچھ فرق ہے گو کہ روحانی علاج والے بھی مادی چیز کا سہارا لیتے ہیں چیز کی خاصیت کو بدلنے میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ مثلاً جیسا کہ ابھی وجاہت صاحب نے سوال کیا نیگیٹیو بنوا کر دیکھنے سے کس طرح کا فائدہ ہو جاتا ہے، کس قسم کے مرض ختم ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی امراض میں مثلاً ڈپریشن، ٹینشن، نیند نہ آنے کی شکایت، خوف وغیرہ بطور روحانی علاج ہم نے کئی مرتبہ نیگیٹیو بینی کا مشورہ دیا ہے جیسا کہ میں نے تمہید میں آپ سے بیان کیا کہ ہر چیز میں خاصیت ہوتی ہے اس کلیہ کے تحت نیگیٹیو میں بھی کچھ خاصیت موجود ہے۔ اس میں دو باتیں زیر بحث آتی ہیں ایک تو یہ کہ یہ علاج زیادہ تر دماغی امراض میں استعمال ہوتا ہے مثلاً ڈپریشن میں کہ ایک شخص کو مختلف منفی خیالات آتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو خیال آتا ہے کہ میرے اوپر جادو ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مریض کا ذہن ایک منفی خیال پر ٹھہر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو اس کیفیت سے نکلنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ نکلنا نہیں بھی چاہتا۔

اب اس کا روحانیت میں طریقہ علاج یہ ہے کہ جس آدمی کا ذہن ایک خیال پر مرکوز ہو گیا اور قائم ہو گیا اس بندے کو اس خیال سے ہٹا کر یہ دوسرے خیال میں ڈال دیا جائے۔ منفی خیال سے ہٹانے کیلئے روحانیت میں یہ طریقہ ہے کہ اس بندے کو جس خیال میں وہ گرفتار ہے اس کو یہ نہ کہو کہ یہ غلط ہے یہ بھی نہ کہو کہ اس کو چھوڑ دو اس لئے کہ وہ خود ہی چھوڑنا چاہتا ہے جب وہ چھوڑنے میں ناکام ہوتا ہے تب ہی وہ آپ کے پاس آتا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ اس خیال کو ہٹا کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاؤ۔ خیال کو کسی ایک نقطے سے ہٹا کر دوسرے پرمرکوز کرنا ایک مشق ہوئی۔ اب نیگیٹیو بینی کے عمل کی علمی توجیہہ یہ ہے کہ تخلیق کے دو رخ ہیں ایک مثبت رخ ہے ایک منفی رخ ہے، ایک نیگیٹیو ہے ایک پوزیٹیو ساری کائنات بھی نیگیٹیو اور پوزیٹیو پر بنی ہوئی ہے۔ کیمرے سے تصویر کشی کے ذریعے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ جب کیمرے سے ہماری تصویر اتاری جاتی ہے تو پہلے نیگیٹیو بنتا ہے یہ نیگیٹیو الٹا ہوتا ہے اور جب اس نیگیٹیو کو دوسرے کاغذ پر پلٹا جاتا ہے تو وہ تصویر سیدھی ہوتی ہے یہ الٹا ہونا اور سیدھا ہونا ایک مسلسل عمل ہے اور ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اس بات کو اب ہم اس طرح بیان کریں گے ہمارا جسم جو ہمیں سیدھا نظر آ رہا ہے۔ یہ پوزیٹیو اور جس نیگیٹیو کی یہ تصویر ہے وہ نیگیٹیو روح ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کے ایک سسٹم کے تحت اپنی تصویر بناتی ہے اسے جسم کہتے ہیں۔ گوشت پوست اور ہڈیوں کے اس جسم کا جب ہم نے کیمرہ کے ذریعے نیگیٹیو بنوایا تو ہوا یہ کہ ہماری جو سیدھی تصویر ہے یہ تصویر الٹ گئی الٹ کے یہ نیگیٹیو ہو گئی۔ نیگیٹیو ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تصویر نیگیٹیو ہونے کے باعث کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصویر روح سے قریب ہو گئی کیونکہ روح نیگیٹیو ہے اور جسم پوزیٹیو ہے جب پوزیٹیو کا نیگیٹیو بنا تو جسم جو ہے روح سے قریب ہو گیا۔ روح میں بیماری نہیں ہوتی روح میں کوئی پریشانی بھی نہیں ہوتی روح میں Time and Spaceبھی نہیں ہوتا روح کو نزلہ کھانسی بھی نہیں ہوتی اور روح کو دماغی مرض بھی نہیں ہوتا۔ تو جب ایک مریض پوزیٹیو کی حیثیت سے نیگیٹیو کو بار بار دیکھے گا اور اس کی طرف متوجہ رہے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس بات آپ اس بات کو جان نہیں رہے ہیں لیکن آپ جسمانی و ذہنی طور پر اپنی روح کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اب جتنی توجہ آپ کی روح کی جانب منتقل ہو گی جتنے زیادہ روح کے ساتھ آپ یکسو ہو جائیں گے اتنا ہی زیادہ منتشر خیالات ٹوٹ کر روح کے ایک نقطے پرمرکوز ہو جائیں گے اور اسی حساب سے روح کی تحریکات روح کی روشنیاں پوزیٹیو کو منتقل ہو جائیں گی۔ اب آپ یوں سمجھیں کہ ایک آدمی کا نیگیٹیو ہے اس نیگیٹیو کے اوپر دھبے ڈال دیں اب آپ اس نیگیٹیو سے ایک لاکھ تصویریں بنوائیں گے تو اس ایک لاکھ تصویروں میں دھبے ضرور آئیں گے۔ لیکن اگر نیگیٹیو صاف ہے تو جتنا نیگیٹیو صاف ہو گا اتنی ہی تصویر صاف آئے گی خوبصورت آئے گی۔ روح میں داغ دھبے نہیں ہیں روح میں بیماری بھی نہیں ہے۔ جب ہم بار بار روح کی طرف متوجہ ہونگے تو ظاہر ہے روح کی تحریکات بھی ہمیں منتقل ہونگی اور جب روح کی تحریکات ہمیں منتقل ہو جائیں گی تو جو آپ کو خیالات ستا رہے ہیں بیماری سے متعلق وہ خیالات آپ بھول جائیں گے اور جب وہ خیالات آپ بھول جائیں گے تو صحت کی جانب قدم اٹھا لیں گے۔ تو پوزیٹیو کی حیثیت سے ایک نقطہ سے ہٹ جائیں گے جیسے جیسے ایک مخصوص خیال سے ہٹ جائیں گے اسی مناسبت سے بیماری سے متعلق ذہن میں خیالات کمزور پڑتے جائیں گے اور صحت کی طرف قدم بڑھائیں گے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔