Topics

راسخ العلم

سوال: راسخ العلم کسے کہتے ہیں۔ آدمی علم میں کس طرح راسخ ہو سکتا ہے؟وضاحت فرمائیں۔

جواب: وہ لوگ جو علمی اعتبار سے مستحکم ذہن رکھتے ہیں یعنی ایسا ذہن جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، ایسا ذہن جو شیطانی وسوسوں سے پاک ہے، ایسا ذہن جس کے اندر کثافت اور علمی آلودگیاں نہیں ہیں۔ علمی کثافت اور علمی آلودگی سے مراد یہ ہے کہ اس علم سے بندوں کو تکلیف پہنچے۔ جس کو عرف عام میں تخریب کا علم کہا جاتا ہے اور وہ لوگ جو علمی اعتبار سے ایسی مسند پر قیام فرما ہیں۔ جس پر شکوک و شبہات کی چھاپ نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ ہر چیز جس کی دنیا میں خواہ کوئی بھی حیثیت ہو، چھوٹی ہو، بڑی ہو، راحت ہو، تکلیف ہو ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ اس آیت مبارکہ میں مختصراً دو روحوں کا تذکرہ اس طرح ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو راسخ فی العلم ہیں اور ان لوگوں کاکہنا یہ ہے یا ان لوگوں کی پہچان یہ ہے یا ان لوگوں کی طرز فکر یہ ہے کہ یہ بات ان کے مشاہدے میں ہوتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے اس کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے اسی طرح اس چیز کا اس عمل کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ فلسفیانہ طرز فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے عامیانہ سطح پر ہم اس بات کو چند مثالوں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

طرز فکر کے بارے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آ چکی ہے کہ زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے۔ اس حیثیت میں معانی پہنانا دراصل طرز فکر میں تبدیلی ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہر چیز جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہے یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ پہلے سے لوح محفوظ پر موجود نہ ہو۔ کوئی آدمی اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے لوح محفوظ پر موجود ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے اس لئے گزرتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز دن اور ماہ و سال کے وقفے لوح محفوظ پر موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان وقفوں میں ٹائم کی حیثیت کیا ہے؟ ایک آدمی جب عاقل بالغ اور باشعور ہوتا ہے تو اس کی زندگی گزارنے کے لئے وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے اور وسائل کو حاصل کرنے کے لئے روپیہ پیسہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ روپے متعین کئے اور وہ ایک لاکھ روپے لوح محفوظ پر لکھے گئے۔ جس طرح ایک لاکھ روپیہ کسی بینک میں جمع کر دیا جاتا ہے اسی طرح ایک لاکھ روپیہ پہلے سے لوح محفوظ پر جمع ہے۔ وسائل کو استعمال کرنے کے لئے آدمی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے جیسے جیسے کوشش اور جدوجہد کامیابی کے مراحل طے کرتی ہے۔ اس کو روپیہ ملتا رہتا ہے اور ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر لوح محفوظ پر اس کے حصہ کا زرمبادلہ متعین نہ ہو تو اسے اس دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا۔ ایک طرز فکر یہ ہے کہ آدمی باوجود اس کے کہ ضمیر ملامت کرتا ہے اپنی روزی کو حرام طریقے سے حاصل کرتا ہے۔ دوسرا آدمی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ روزی حلال ہو۔ رزق حلال میں بھی وہ دو روٹی کھاتا ہے اور رزق حرام سے بھی وہ شکم سیری کرتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ لوح محفوظ سے مل رہا ہے اور لوح محفوظ میں وسائل اس کے لئے پہلے سے متعین ہیں۔ ایک آدمی محنت مزدوری کر کے، ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔دوسرا آدمی ضمیر کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے اتنا ہی روپیہ مل رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اس کے لئے جمع کر دیا ہے۔ اس لئے کہ جب تک لوح محفوظ پر کوئی چیز نقش نہیں ہوتی دنیا میں اس کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور انتہائی درجہ نادانی اور بے وقوفی ہے کہ آدمی اپنی ہی چیز کو حرام کر دیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ جو چیز لوح محفوظ پر نقش ہو گئی اس کا مظاہرہ لازم بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔راسخ العلم لوگ اس بات کا مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ مظہر کا تعلق، ہر وجود کا تعلق، ہر عمل کا تعلق، ہر حرکت کا تعلق لوح محفوظ سے ہے۔ اس لئے وہ برملا اس کا اعلان کرتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اس اعلان کے ساتھ ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے لئے جو کچھ متعین کر دیا ہے وہ ضرور ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظروں کے سامنے یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ ہمارے لئے لوح محفوظ پر اتنا سرمایہ یا اتنے وسائل مخصوص کر دیئے گئے ہیں بالکل اس طرح جیسے کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ بینک میں میرے نام ایک کروڑ روپیہ جمع ہے چونکہ مظاہراتی طور پر یہ بات اس کے یقین میں ہے کہ میرے نام سے ایک کروڑ روپیہ جمع ہے وہ اس بات سے مطمئن رہتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگ چونکہ لوح محفوظ کے نقوش کا مشاہدہ کر لیتے ہیں اس لئے وہ کسی تکلیف کو یا کسی بے آرامی کو عارضی تکلیف یا عارضی کمی سمجھتے ہیں اور اس مشاہدے کے بعد ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغناء پیدا کر دیتا ہے۔ استغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین بغیر مشاہدے کے تکمیل نہیں پاتا اور جس آدمی کے اندر استغناء نہیں ہے اس آدمی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کم اور مادیت سے زیادہ رہتا ہے۔ تصوف یا روحانیت دراصل ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغناء ہو۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوپر توکل ہو۔ توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندرایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو نظر غیب میں دیکھتی ہے بصورت دیگر کسی بندے کو کبھی سکون میسر نہیں آ سکتا۔ آج کی دنیا میں عجیب صورتحال ہے کہ ہر آدمی دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے، ہر آدمی دولت کے ا نبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون نہیں ہے۔ سکون ہرگز کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ سکون ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو چیزیں عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن کے اوپر ہماری ظاہرہ آنکھوں کے سامنے بھی موت وارد ہوتی رہتی ہے ان سے ہرگز سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔ مراقبہ اس سلسلے میں ایک ایسی کوشش ہے جس کوشش کے اوپر یہ طرزیں متعین ہیں کہ آدمی فانی اور مادی چیزوں سے اپنے ذہن کو ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر غیب کی دنیا میں کسی بندے کو پہنچاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اندر یقین پیدا ہوتا ہے۔ جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے وہ نظر کام کرنے لگتی ہے۔ جو نظر غیب کا مشاہدہ کرتی ہے غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ دوڑ ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پر مرکوز ہو جاتا ہے اور اس مرکزیت کے بعد استغناء کا درخت آدمی کے اندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔