Topics

بیعت کا قانون

سوال: ایک بندے کو بیعت کتنی عمر میں کرنی چاہئے۔ کیا بیعت ہونا ضروری ہے؟ کیا ایک شخص دو جگہ بیعت ہو سکتا ہے؟ تصوف کے حوالے سے روشنی ڈالیں۔

جواب: سوچنے کی بات یہ ہے کہ بیعت ہونا ضروری بھی ہے کہ نہیں؟ کس عمر میں بیعت کرنی چاہئے‘ یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن پہلی بات یہ کہ ایک آدمی ضرور کسی سے بیعت ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ فی الواقع بیعت کیا چیز ہے۔ یہ دو باتیں زیادہ غور طلب ہیں عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی ایسا آدمی جو کسی صورت سے ماورائی علوم جانتا ہو یا اسے بزرگوں سے کوئی علم منتقل ہوا ہو یا وہ گدی نشین ہو تو اس کی اگر سرپرستی حاصل کر لی جائے تو دنیاوی کام بہت سے آسان ہو جاتے ہیں اور آدمی بلاؤں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ بغیر بیعت آدمی ایسا ہے جس کے سر پر سائبان نہ ہو۔ اگر بیعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کے دنیاوی کام ہوتے رہیں اور بلاؤں سے نجات ملتی رہے یا اللہ تعالیٰ بیعت کے ذریعہ سے اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھتے ہیں تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بیعت ہونا کوئی ضروری بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت کرتے ہیں۔

بیعت دراصل ایک اصطلاح ہے۔ ’’خود کو بیچ دینا، فروخت کر دینا۔‘‘ بیع معنی ہے خرید و فروخت کے۔ قرآن کے لفظ بیعہ سے یہ بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ جب آدمی کسی کا مرید ہو جاتا ہے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا ہے تو آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ بھئی یہ تو میرا زرخرید ہو گیا ہے۔ اس نے خود اپنی مرضی سے اپنے آپ کو میرے ہاتھ میں بیچ دیا ہے جو بیعت کی اصطلاح کے تحت آتی ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے یہ لفظ نکلا بہرحال اس لفظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جیسا کہ اس کو کہا جاتا ہے۔ ہمارے حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اس اصطلاح کو یعنی بیعہ کی اصطلاح کو ایک آدمی دوسرے کسی آدمی کے ہاتھ بیچ دے اس کو ختم کر دیا ہے۔ ہمارے سلسلہ کے جو قواعد و ضوابط ہیں ان قواعد و ضوابط میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا آدمی جو سلسلہ عظیمیہ میں کسی لائق ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو فیض پہنچائیں گے اس کے اوپر لازم ہے کہ وہ کسی آدمی کو اپنا مرید نہ کہے بلکہ دوست کہے۔ ایک آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا وہ کیوں کسی دوسرے آدمی کے ہاتھوں خود کو فروخت کرے۔ اس کے جولفظی معنی ہیں وہ صحیح نہیں ہیں۔ بیعت دراصل ایک روحانی شاگردی ہے، کسی علم کو سیکھنے کے لئے جب کسی روحانی استاد کا آپ انتخاب کرتے ہیں پھر استاد کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنے کا عہد کیا جاتا ہے تو یہ بیعت کہلاتی ہے کیونکہ کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو استاد کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا ہو گا ورنہ آپ علم نہیں سیکھ سکتے اور اگر آپ روحانی علوم سیکھنا نہیں چاہتے تو بیعت ہونا کوئی ضروری نہیں۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے پاس جب لوگ آیا کرتے تھے تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو بھئی کوئی کام ہو تو بتا دو۔ ہمارے سے استاد شاگردی کا رشتہ نہ استوار کرو ورنہ پریشانی ہو گی دوست بناؤ ہمیں، جو تمہارا کام ہے کہو ہم دعا کریں گے اللہ تعالیٰ پوری کریں گے۔ بیعت تو ہمارے یہاں سلسلہ عظیمیہ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کو ہم اس طرح سے سمجھتے ہیں کہ انسان کی جو عظمت ہے آزادی کی وہ ایک طرح سے اس کو مجروح کرنے والی بات ہے اب یہ کہ کس عمر میں آپ شاگردی اختیار کریں تو روحانی علوم سیکھنے کے لئے عمر کی کوئی خاص قید نہیں ہے۔ جس طرح اور علوم حاصل کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اسی طرح روحانی علوم سیکھنے کے لئے بھی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ عام طور سے پانچ چھ سال کی عمر کے بچے کو آپ سکول میں داخل کراتے ہیں اس کے بعد وہ پڑھتا ہے، لکھتا ہے اس کا ایک شعور بن جاتا ہے۔ جب بھی وہ شعور کے دائرہ میں داخل ہو اور وہ یہ جاننا چاہتا ہو کہ روحانیت کیا ہے تو کسی بھی عمر میں وہ اپنا روحانی استاد بنا سکتا ہے اور روحانی شاگرد بن سکتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ صورت ہے ہم نے عظیمیہ سلسلہ کا جو فارم بنایا ہے اس میں ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو سلسلے میں داخل کریں کہ جن کے شعور میں پختگی آ گئی ہو ایسا نہ ہو کہ ہم نے ان کو اسکول میں داخل کر لیا ، تھوڑے دنوں کے بعد وہ چھوڑ کر چلے گئے تو اس کی اپنی محنت بھی ضائع ہو گئی تو عام طور سے لڑکیوں میں سولہ سال کے بعد اور لڑکوں میں اٹھارہ سال کے بعد شعور میں پختگی آ جاتی ہے۔ ہم اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آدمی کا شعور بالغ ہو جائے تا کہ جب وہ ایک دفعہ فیصلہ کر لے تو اس پر قائم رہے تا کہ اس کے ذہن میں کوئی اختلافی بات آئے تو وہ متزلزل نہ ہو جائے۔ کسی بھی علم کو سیکھنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے صرف اس بات کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اس کا شعور فیصلہ کرنے کے قابل ہو تو وہ استاد اور شاگرد کا رشتہ قائم کر سکتا ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔