Topics

نیابتِ الٰہیہ


سوال: انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب اور خلیفہ مقرر فرمایا اور اسی سے انسان دوسری مخلوقات سے اشرف ٹھہرا۔ روحانی علوم کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: شعور کا تجزیہ اگر کیا جائے تو ہم اس طرح بیان کرینگے کہ ہر وہ چیز جو متحرک ہے گردش کر رہی ہے اور ارتقائی منازل سے گزر رہی ہے، شعور رکھتی ہے۔ باالفاظ دیگر کسی چیز کا متحرک رہنا، بڑھنا گھٹنا، سرسبز و شاداب ہونا یا خشک ہونا، پیدا ہونا یا مر جانا۔ 

موسم کے گرم و سرد سے متاثر ہونا اور اس چیز کے اوپر آوازوں کا اثر انداز ہونا شعوری کیفیت ہے۔ جیسے جیسے کیفیات میں تیزی آتی رہتی ہے اسی مناسبت سے شعور بڑھتا رہتا ہے۔ شعور بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یعنی علم میں اضافہ دراصل شعوری ارتقاء ہے۔ آدمؑ کی پیدائش سے اب تک نوع انسانی نے جس قدر عقلی، علمی یا شعوری ترقی کی ہے ہم اس کو ارتقائی منازل اس لئے کہتے ہیں کہ نوع ا نسانی کے علوم میں اضافہ ہوا ہے۔ بات بہت سیدھی ہے یعنی آدمؑ کو جو علم حاصل تھا وہ آج آدمؑ کی اولاد کو علم حاصل ہے اور اس علم میں بے ا ندازہ اضافہ ہوا ہے۔ باالفاظ دیگر آدمؑ کی اولاد نے جب وہ علوم حاصل کر لئے جن علوم سے آدمؑ یا آدمؑ کی اولاد واقف نہیں تھی تو نوع انسانی ترقی یافتہ صورت میں ظاہر ہوئی۔ سائنس کیا ہے؟ یہ بھی علوم کی ایک ارتقائی شکل و صورت ہے۔ نوع انسانی میں سے کوئی بندہ یا کوئی سائنس دان پیدا ہوا، اس نے کسی علم کی بنیاد رکھی۔ ابھی علم کے خدوخال پوری طرح واضح بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ مر گیا۔ اس سائنس دان کی تھیوری کو آنے والی نسلوں نے علمی اور عقلی اعتبار سے آگے بڑھایا اور نتیجے میں علم کی ایک ایسی ٹھوس اور مثبت شکل سامنے آ گئی جس کو ہم نے کوئی نام دے دیا ہے۔ مثلاً ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ ارتقائی منازل سے گزر کر ہی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کوئی چیز جو متحرک ہے اور عقل و شعور رکھتی ہے اگر عقل و شعور کے دائرے میں رہ کر جدوجہد اور تجسس کرتی ہے تو اس سے نئی نئی ایجادات سامنے آتی ہیں۔ نوع انسانی اور دوسری نوعوں میں شعوری اعتبار سے جو حد فاصل قائم ہے۔ وہ یہ ہے کہ دوسری نوعیں ایک مخصوص شعور اور مخصوص جبلت میں رہ کر زندگی گزارتی ہیں اور انسان چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم کا امین ہے اس لئے وہ نئی نئی اختراعات کے لئے جدوجہد اور کوشش کرتا رہتا ہے اور یہ کوششیں بارآور ہوتی رہتی ہیں۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں جو چیزیں وجود میں آتی ہیں وہ ہمیں اس تفکر کی دعوت دیتی ہیں کہ کوشش اور جدوجہد سے ا نسان بہت کچھ سیکھتا ہے، بہت کچھ بناتا ہے اور دوسری نوعوں سے ممتاز ہو جاتا ہے لیکن اگر نوع انسانی میں کوئی ایک قوم یا زیادہ اقوام تفکر سے کام نہیں لیتیں تو ان کی حیثیت حیوانوں کی سی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بکری ایک مخصوص طرز میں زندگی گزارتی ہے۔ اسی طرح نوع انسانی کے افراد یا نوع انسانی کی قوم ایک دو مخصوص طرزوں میں زندگی گزار کر مر جاتی ہے اور اس نوع میں سے جو افراد اور جو قومیں جستجو اور جدوجہد کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اور نشانیاں تلاش کرتی ہیں تو ان سے نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ صورت حال جو اس وقت ہمارے سامنے ہے یہ ہے کہ اقوام عالم میں واحد قوم مسلمان ہے جو علمی اعتبار سے انتہائی درجہ پست اور انتہائی درجہ پیچھے ہے۔

ہم نے زمین اور آسمان کو اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کو انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے اور تسخیری فارمولے کی کتاب قرآن میں ان سب باتوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور قرآن سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے۔

’’اور ہم نے لوگوں کے اوپر قرآن کا سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ ہے کوئی سجھنے والا؟‘‘

ہے کوئی سمجھنے والے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ قرآن پاک کے مفہوم میں تدبر اور تفکر کرے گا تو بات سمجھ میں آئے گی اور قرآن پاک کی آیات میں تفکر اور تدبر نہیں کیا جائے گا تو قرآن سمجھ میں نہیں آئے گا۔ جب قرآن پاک سمجھ میں آ جائے گا تو قرآن میں کائنات کی تسخیر کے متعلق جو فارمولے بیان کئے گئے ہیں وہ بھی سمجھ میں آ جائیں گے۔ موجودہ سائنس کی ترقی کے اوپر اگر نظر ڈالی جائے تو سائنس کی ہر ترقی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اشیاء کا عمل دخل ہے۔ سائنس کی کوئی ترقی ایسی نہیں ہوئی ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گی کہ جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اشیاء سے مثنی ہو۔ مثلاً بجلی، بجلی کا بڑا سورس پانی ہے۔ پانی اللہ کی ایک تخلیق ہے بجلی کو محفوظ رکھنے کے لئے اور بجلی کو رواں رکھنے کے لئے تاروں کی ضرورت پیش آتی ہے تار جس دھات سے بنتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق ہے۔ بڑی بڑی مشینری، چھوٹی چھوٹی مشینری، چھوٹے سے چھوٹا پرزہ یا بڑے سے بڑا پرزہ دھات سے بنتا ہے یہ دھات بھی اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس، دنیا کی ترقی ایسے ممکن نہیں ہے جس میں پہلے سے موجود اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کا عمل دخل نہ ہو۔ انسان جس اللہ کی بنائی ہوئی کسی تخلیق میں تفکر کرتا ہے اور تفکر کے ساتھ اس چیز کو آگے بڑھاتا ہے تو اسی ایک چیز سے ہزاروں لاکھوں چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں لیکن لوہے کے اندر باوجود اس کے ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہزاروں، لاکھوں اشیاء میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ صلاحیت اس میں موجود نہیں ہے کہ وہ از خود اشیاء میں تبدیل ہو جائے۔ لوہے کو نئی نئی چیزوں میں ڈھالنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی سب سے اچھی تخلیق انسان ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی صلاحیتوں پر تخلیق کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات سے دوسری بے شمار مصنوعات تیار کرتا رہتا ہے تصوف یا روحانیت میں انسان کو اپنی صلاحیتوں کی پہچان کا نام آدمی کا اپنا عرفان ہے۔ روحانیت ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کا سب سے پہلا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی مخفی طاقتوں کا سراغ لگائے اور ان صلاحیتوں کو اپنے اندر متحرک کر دے جن صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ خالق ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ احسن الخالقین۔ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔ مطلب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بندے بھی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں اور جب وہ تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں تو نئی نئی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں لیکن اگر انسان اپنی ان صلاحیتوں سے متعارف ہوئے بغیر ان صلاحیتوں کو کسی طرح متعارف کر دے تو اس سے جتنی بھی تخلیقات عمل میں آتی ہیں وہ نوع انسانی کے لئے فلاح و بہبود کا ذریعہ بننے کی بجائے ہلاکت اور پریشانیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں۔ اس لئے کہ آدمی اپنی صلاحیتوں سے واقف ہونے کے بعد یہ راز معلوم کر لیتا ہے کہ اصل خالق اللہ ہے اور بندہ جن صلاحیتوں سے دوسری چیزیں تخلیق کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتیں ہیں یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آگ کی صلاحیت جلانا ہے، آگ کو جس جگہ بھی ڈالا جائے گا وہ چیز جل جائے گی لیکن ایک آدمی آگ کی تپش، آگ کے اندر شدت گرمی اور اس گرمی سے دوسری چیزوں کو پگھلانے کی صلاحیت سے واقف ہے تو آگ سے بے شمار ایسی چیزیں بنا لے گا جو اس کے لئے مفید اور کارآمد ہونگی اسی صورت سے جب کوئی بندہ اپنی ذات کا عرفان حاصل کر لیتا ہے تو اس کے اوپر یہ راز کھل جاتا ہے کہ آدمی گوشت پوست کا آدمی نہیں ہے۔ آدمی دراصل اللہ تعالیٰ کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے اسی بات کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہہ کر بیان فرمایا ہے یعنی جب کوئی بندہ خود کو پہچان لیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھی پہچان لیتا ہے۔ خالق کائنات کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آدمی خود سے متعارف ہو۔ اگر کوئی بندہ اپنے آپ کو نہیں پہچانتا، نہیں جانتا یا اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ان صلاحیتوں سے وقوف نہیں رکھتا۔ جن صلاحیتوں کی بنا پر وہ کائنات میں عام نوعوں سے ممتاز ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل نہیں کر سکتا۔ روحانیت ہمیں سکھاتی ہے کہ جو لوگ اس سبق کو یاد کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں انہیں آنکھوں سے دکھا دیتا ہے کہ آدمؑ کا پتلا صرف گوشت پوست کا نہیں ہے۔ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے مرکب ہے اللہ تعالیٰ چونکہ خالق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی ہر صفت تخلیق ہے چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ادراک عطا کر دیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کی حیثیت سے بے شمار تخلیقات کر سکتا ہے اور انسان کے علاوہ دوسری کوئی نوع ان تخلیقی حدود میں اپنے ارادے سے داخل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے انسان دوسری نوعوں کے اوپر اشرف ہے لیکن اگر انسان ان تخلیقی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہے یا واقف ہونے کے لئے جدوجہد اور کوشش نہیں کرتا تو اس کی حیثیت اشرف المخلوقات کی نہیں ہے، زمین اور آسمان پر اس کی حکمرانی زیر بحث نہیں آتی۔ وہ چیونٹی اور مچھر سے بھی کمتر ہے۔ تصور شیخ اور مراقبہ ریاضت و مجاہدہ اشغال و اذکار اور تفکر یہ سب سیڑھیاں ہیں اس منزل تک پہنچے کے لئے جس منزل پر ہمیں یہ سراغ ملتا ہے کہ انسان کی حیثیت کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نائب یا قائم مقام کی ہے۔ نائب یا قائم مقام کی حیثیت سے اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کو استعمال کر سکتا ہے اور اگر کوئی بندہ ان اختیارات کو استعمال نہیں کر سکتا یا اختیارات کے استعمال سے واقف نہیں ہے تو اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب یا قائم مقام کی نہیں ہے۔

عرف عام میں نائب اور قائم مقام کے معانی یہ ہیں کہ کوئی آدمی جب کسی کا نائب ہوتا ہے یا کسی کی جگہ بحیثیت قائم مقام کے بیٹھتا ہے تو اسے وہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں جس کی وہ نیابت کر رہا ہے یعنی کسی ملک کے صدر کا کوئی نائب یا قائم مقام مستقل نہ سہی عارضی طور پر وہی اختیارات رکھتا ہے جو صدر کے ہوتے ہیں اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی با اختیار ہستی نے اپنے اختیارات دوسرے کے سپرد کر دیئے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ پھر اس نائب یا خلیفہ کو فرشتوں سے سجدہکرانا، فرشتوں کے اعتراض پر نائب اور خلیفہ کو وہ خصوصی علم عطا کرنا، جو فرشتوں کو حاصل نہیں تھا اور نہیں ہے اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب کو عارضی طور پر اپنے اختیارات منتقل کئے ہیں اللہ تعالیٰ چونکہ خالق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے بحیثیت خالق کے اختیارات، تخلیقی اختیارات میں شمار ہونگے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے تخلیقی اختیارات اپنے نائب کو منتقل کر دیئے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ’’احسن الخالقین‘‘ کہہ کر ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت وہ لوگ بھی تخلیقی اختیارات استعمال کر سکتے ہیں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت نائب یا خلیفہ کے اپنے اختیارات استعمال کر سکتے ہیں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت نائب یا خلیفہ کے اپنے اختیارات تفویض کر دیئے ہیں اختیارات دو طرح استعمال ہوتے ہیں۔ اختیارات استعمال کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی از خود بلا کسی دوسرے کے مشورے کے ان اختیارات کو استعمال کرے۔ اختیارات استعمال کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اختیارات استعمال کرنے میں بااختیار ہو لیکن وہ اختیار کسی کا تفویض کردہ ہو۔ جہاں تک اختیارات استعمال کرنے کا تعلق ہے دونوں صورتوں میں اس کا طریقہ کار ایک ہی ہو گا۔ فرق صرف اتنا رہے گا کہ ایک آدمی جو کسی کے دیئے ہوئے اختیارات استعمال کر رہا ہے اور اس ہستی کی رضا اور منشاء کو ملحوظ نظر رکھے گا۔

قرآن پاک میں جہاں تخلیقی فارمولوں کا تذکرہ ملتا ہے اس میں بنیادی بات جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے وہ سورہ یٰسین شریف کی آخری آیتوں میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا، تو کہتا ہے کن اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا امر پہلے اس چیز کو وجود میں لانے کے لئے ارادہ کرتا ہے پھر یہ ارادہ متحرک ہو کر اس چیز کو حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ چیز خدوخال اور جود کے ساتھ مظہر بن جاتی ہے فارمولا یہ بنا کہ جب کسی چیز کو تخلیق کیا جائے گا تو پہلے اس چیز کا خاکہ اس چیز کے نقوش، اس چیز سے متعلق ضروریات ذہن میں موجود ہونگی۔ ذہن ان چیزوں کو وجود میں لانے کا ارادہ کرے گا پھر ارادے میں گہرائی پیدا ہو گی اور ارادے میں جب حرکت پیدا ہو گی تو وہ چیز جو پہلے سے ذہن میں موجود ہے خدوخال کے ساتھ وجود میں آ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کا امر یہ ہے۔ امر سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذہن جس کو تصوف کی اصطلاح میں واجب الوجود میں کہا گیا ہے۔ کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذہن(امر) میں یہ بات آئی کہ کائنات بنانی ہے، ذہن یا امر نے اس کائنات کو وجود بخشنا چاہا یعنی کائنات کے خدوخال جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھے ان کو اللہ تعالیٰ کے ذہن سے باہر مظہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس ارادہ نے کن کہا یعنی حکم دیا کہ اس کائنات کو جو کائنات اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھی اور اس حکم کے ساتھ وہی کائنات تشکیل پا گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ذہن ہے یا اللہ تعالیٰ کا تخلیق کرنے کا اپنا ذاتی طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ موجود تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کرنے کا ارادہ کیا۔ ارادے میں حرکت پیدا ہوئی اور یہ سب جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا شکل و صورت کے ساتھ موجود ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی وہ تخلیق جس کو اللہ تعالیٰ نے ذیلی تخلیقات کا اختیار دیا ہے اس کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذیلی تخلیق بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو اختیاری یا غیر اختیاری طور پر استعمال کر رہی ہے۔ بندے کو پیاس لگتی ہے پیاس کا تقاضا اس کے اوپر وارد ہوتا ہے یہ تقاضا جب گہرا ہوتا ہے تو آدمی پانی پینے کا ارادہ کرتا ہے۔ ارادے میں جب حرکت ہوتی ہے تو آدمی پانی پی لیتا ہے۔ پیاس کے تقاضے کے ساتھ اگر آدمی کا ارادہ شامل نہ ہو تو آدمی کبھی پانی نہیں پی سکتا۔ اسی طرح آدمی کو بھوک لگتی ہے یعنی آدمی کے ذہن کے اوپر بھوک کا تقاضا مرتب ہوا۔ بھوک کا تقاضا مرتب ہونے سے مراد یہ ہے کہ جن اشیاء سے بھوک رفع ہو سکتی ہے ان تمام اشیاء کے نقوش اور خدوخال ذہن کے اوپر مرتب ہو گئے اس کو براہ راست طرز میں اس طرح کہا جائے گا کہ آدمی کے ذہن نے یہ چاہا کہ کچھ کھایا جائے تا کہ بھوک رفع ہو۔ یہ اللہ کا امر ہے اس امر نے یہ چاہا کہ بھوک رفع کرنے کے لئے اشیاء کا استعمال کیا جائے۔ چاہنا ارادہ ہے۔ جب ذہن نے بھوک رفع کرنے کے لئے ارادہ کیا تو وہ چیزیں موجود ہو گئیں جن چیزوں سے بھوک رفع ہوتی ہے۔ بھوک کن چیزوں سے رفع ہوتی ہے یہ ایک علم ہے یا زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کن چیزوں سے ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک علم ہے اسی علم کو علم الاسماء کہا گیا ہے۔ اب یہاں دو صورتیں زیر غور ہیں۔ بھوک کا علم اور بھوک کو کن چیزوں سے رفع کیا جائے۔ اس کا علم حیوانات کو بھی ہے۔ بکری یہ بات جانتی ہے کہ میری بھوک پتوں سے رفع ہوتی ہے، گوشت کھانے سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا بکری پتے کھاتی ہے گوشت نہیں کھاتی۔ شیر کو اس بات کا علم ہے کہ اس کی بھوک گوشت کھانے سے رفع ہوتی ہے، اس لئے وہ بھوک رفع کرنے کے لئے گوشت کھاتا ہے، پتے نہیں کھاتا۔ علم کی ایک شکل یہ ہے کہ پتے کھانے سے بھوک رفع ہوتی ہے، گوشت کھانے سے بھوک رفع ہوتی ہے اور پتے اور گوشت کو اپنے اختیارات کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک آدمی جو اختیارات کے استعمال سے واقفیت رکھتا ہے وہ پتوں سے بھی بھوک رفع کر لیتا ہے اور گوشت سے بھی بھوک مٹا لیتا ہے۔ اس لئے کہ اسے بھوک پیاس رفع کرنے کے علم کے ساتھ ساتھ یہ علم بھی حاصل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات بھی استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک تخلیقی فارمولے یا Equationsکا تعلق ہے اس کا طریقہ ایک ہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فارمولے ہر چیز سے بے نیاز ہو کر بحیثیت قادر مطلق کے استعمال کرتے ہیں اور یہ بندہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی فارمولوں کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کر کے عملدرآمد کرتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ اور نائب قرار دیا ہے اور تخلیقی فارمولوں پر اسے اختیار دیا گیا ہے انہی تخلیقی فارمولوں پر اختیار کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ارض و سماوات اور اس کے ا ندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا گیا ہے، چاند کو مسخر کر دیا، سورج کو مسخر کر دیا گیا، نجوم کو مسخر کر دیا گیا۔ انسان بحیثیت خالق کے جن فارمولوں سے مرکب ہے وہ بھی قرآن پاک سے ثابت ہیں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ’’انسان ناقابل تذکرہ شے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور وہ بولتا، ہنستا، چکھتا، محسوس کرتا، انسان بن گیا۔‘‘ یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کی روح انسان کے اندر نہیں پھونکی گئی اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی جیسے ہی اس کے ا ندر اللہ تعالیٰ کی روح آئی انسان متحرک ہو گیا اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ ’’تم میری سماعت سے سنتے ہو‘ تم میری بصارت سے دیکھتے ہو۔ تم میرے دماغ سے سوچتے ہو اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے‘ اللہ ہی ابتدا ہے‘ اللہ ہی انتہا ہے‘ اللہ ہی ظاہر ہے‘ اللہ ہی باطن ہے۔ مقصد واضح ہے کہ انسان کی حیثیت اس وقت ہے جب اس کے اندر اللہ کی روح کام کرتی ہے۔ روح کے بغیر انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ مٹی کے ڈھیلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ روح کے بارے میں قرآن کہتا ہے۔ ’’اے پیغمبرﷺ! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ ان سے فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘ قرآن پاک امر کی تعریف یہ کرتا ہے کہ اس کا امر جب ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کن اور جس چیز کا ارادہ کیا گیا وہ چیز موجود ہو جاتی ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔