Topics

صاحب صلاحیت

سوال : مخلو ق ایک دوسرے کو کیسے پہچانتی ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں ۔

جواب: کائنات کا  یکجا ئی پروگرام لو  ح محفوظ پر ثبت ہے اور پروگرام اللہ تعا لٰی کے ذہن کے مطابق مسلسل اور پیہم جاری و ساری ہے۔ لوح محفوظ پر جو کچھ ہے اس کی نشریا ت کا قانون یہ ہے کہ  لوح محفو ظ سے پورا پروگرام یکجا  اور پیہم نزول کر کے لو ح دوئم  پر آجا تا ہے ۔لوح دوئم کو تصوف میں عالم برزخ یا "عالم جو" کہتے ہیں ۔لوح دوئم سے یہی پروگرام انفرادی طور پر نشر  ہوتا ہے اور لوح دوئم کی نشریات  کا قانون یہ ہے کہ اس میں انسانی ارادے شامل ہوتے ہیں۔یعنی لوح محفوظ سے یہ پروگرام نشر ہوا کسی آدمی کو ایک کام

 کرنا ہے،کام ذہن انسانی پر بالکل اسی طرح وارد ہوتا ہے۔ اب اس اطلاع پر انسان اپنا ذاتی ارادہ استعمال کرتا ہے یہ ارادہ صعود کر کے لوح دوئم میں لوح محفوظ کے اس پروگرام کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔ لوح دوئم سے یہ مخلوط نشریہ دوبارہ نزول کر کے انسانی ذہن پر وارد ہوتا ہے اور وہ اس کام کو سر کر لیتا ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ لوح محفوظ سے نازل ہونے والے کسی پروگرام کے پورا ہونے کا دارومدار اگر انسانی ارادوں پر ہے تو انسان لوح محفوظ کا تابع نہیں ہوا بلکہ لوح محفوظ کا پروگرام انسان کا تابع ہوا۔ بات دراصل یہ ہے کہ لوح محفوظ کی نشریات میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انسان کو نیت اور ارادہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ لوح محفوظ پوری کائنات بشمول فرشتے،جنات،سیارے،کہکشانی نظام،ہماری حرکات و سکنات اور ہماری پوری زندگی ریکارڈ ہے۔ یہ پوری کائنات نشر ہو کر جب لوح دوئم کی سکرین پر آتی ہے تو یہاں ایک اور فلم بن جاتی ہے اور جب یہ فلم نشر ہوتی ہے تو کائنات میں موجود ہر تخلیق الگ الگ ہو جاتی ہے۔ یعنی کہکشانی نظام الگ،نوع جنات الگ،نوع ملائکہ الگ،نوع انسان الگ،نوع نباتات الگ اور نوع حیوانات الگ خدوخال میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ کائنات کی ہر تخلیق ایک دوسرے سے مخفی رشتہ کے ساتھ منسلک ہے یعنی جس طرح انسان کے اندر پوری کائنات موجود ہے اسی طرح فرشتہ کے اندر پوری کائنات موجود ہے اور بکری اور کبوتر کے اندر بھی پوری کائنات موجود ہے۔ اگر کائنات کی موجودگی اس طرح نہ ہو تو کوئی فرد دوسرے فرد کو پہچان نہیں سکتا۔ ہم ستاروں کو اس لئے پہچانتے ہیں کہ ستاروں سے ہمارا ایک مخفی رشتہ ہے۔ ان دیکھی مخلوق،ملائکہ اور جنات کا یقین کرنے پر ہم اس لئے مجبور ہیں کہ ان کا تشخص اور تمثیل ہمارے اندر موجود ہے۔ کوئی صاحب اگر یہ اعتراض کرے کہ ایک مکتبہ فکر جنات کو مانتا ہی نہیں ہے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ انکار بجائے خود اس بات کا اقرار ہے کہ کوئی چیز موجود ہے۔ اگر کسی چیز کا وجود ہی نہیں تو انکار یا اقرار دونوں ہی زیر بحث نہیں آتے۔

واضح یہ کرنا ہے کہ انسان کے اندر پوری کائنات تو موجود ہے لیکن چونکہ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ وہ کائنات کا ایک حصہ ہے یا پوری کائنات کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک جزو ہے اس لئے وہ اس بات کا مشاہدہ نہیں کر پاتا۔

شیخ یا مراد اس بات کو جانتا ہے کہ مرید کائنات کا ایک جزو ہے اور کائنات میں موجود ہر تخلیق کے ساتھ اس کا قریبی رشتہ قائم ہے۔ مراد،مرید کی شعوری صلاحیت کے پیش نظر ایسا پروگرام ترتیب دیتا ہے جس پر قدم بہ قدم مرید کو چلا کر اس بات سے واقف کر دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کنبے کا ایک فرد ہے اور اس کا اس کے ساتھ ربط و ضبط،اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا،محسوس کرنا،دیکھنا،سننا اور سمجھنا سب مشترک ہے۔ یعنی تخلیقی اجزاء میں سے وہ ایک جزو ہے اور ظاہر ہے کہ اجزاء میں سے ایک جزو کو الگ کر دیا جائے تو تخلیق نامکمل رہ جاتی ہے۔

کہنا یہ ہے کہ کائنات میں موجو د ہر مخلوق ایک دوسرے سے رشتہ رکھتی ہے اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔ جاننا اور پہچاننا اس وقت ممکن ہے جب جاننے اور پہچاننے کی صلاحیت موجود ہو اور صلاحیت کا پیدا ہونا اس وقت ممکن ہے جب صاحب صلاحیت کی طرف سے جاننے اور پہچاننے کی صلاحیت منتقل ہو۔ صاحب صلاحیت دراصل اللہ تعالیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات ہی سننے، دیکھنے، سمجھنے اور پہچاننے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کا ایک کنبہ بنایا اور اس کنبے میں کھربوں کہکشانی نظام اور ان نظاموں میں سنکھوں نوعیں اور ان نوعوں میں انسانی شماریات سے باہر مخلوقات پیدا کیں اور ان کے اندر سوچنے سمجھنے اور زندہ رہنے کی تحریکات عطا کیں۔ اصل میں پہچان کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہ اس لئے کہ تمام مخلوقات جدا جدا ہیں اور ان کا پیدا کرنے والا یکتا و واحد خدا ہے۔


 


Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔