Topics

روشنیوں کا سیب

سوال: کیا مادے کی بنیاد رنگین روشنیاں ہیں؟ ہم مختلف رنگوں سے کس طریقہ پر غذا حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا گندمی رنگ کی روشنیاں غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں؟ روحانیت کے حوالے سے اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: اگر گندم کے اندر بھوک دور کرنے والی انرجی کی روشنیاں آپ معلوم کر لیں اور انہیں استعمال کرنا سیکھ لیں تو نتیجہ تو وہی ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ آپ تو سائیکل کی بھی نقل کرتے ہیں جو قوم خرافات میں پڑی ہوئی ہے جس کے اندر ریسرچ اور تلاش نہیں ہے وہ روشنیوں کی کس طرح تلاش کرے گی۔

کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں ان سب کی بنیاد روشنی ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ زمین اور آسمان کی روشنی ہے اللہ نے زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ روشنیوں سے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نور ہیں یعنی روشنی ہیں تو جو کچھ بھی پروگرام دنیا کا بنا ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سارا پروگرام اللہ کے ذہن میں موجود تھا تو جب کائناتی پروگرام اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارا پروگرام نورانیت اور روشنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذہن کے مطابق اس پروگرام کو ظاہر کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے کہا کن۔ نور کے اندر سے نکلے ہوئے الفاظ بھی نور ہوتے ہیں روشنی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آواز کو نور اور روشنی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ قرآن پاک کے مطابق پوری کائنات روشنی ہے۔ اس پورے رکوع میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں روشنی کا پورا فارمولا بیان کیا ہے۔ روشنی کس طرح بنی، روشنی کیا ہے، انسان کے اوپر روشنیوں کے کتنے پرت ہیں، کتنے غلاف ہیں اور پھر روشنی میں ایک طرف گرمی ہے ایک طرف ٹھنڈک ہے۔ قرآن کریم کی آیات۔۔۔۔۔۔کہ وہ نور کے اوپر نور ہے۔ غلاف در غلاف آدمی روشنی کا بنا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اس کو وہ نور دکھا بھی دیتا ہے۔ اب گندم کی روشنیاں کوئی آدمی معلوم کر لے اور ان روشنیوں کو کسی بھی صورت سے اپنے اندر داخل کر لے تو آدمی کی غذائی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ میرا اپنا تجربہ بھی ہے۔ کچھ عرصہ تک آدمی بغیر کھانا کھائے رہ سکتا ہے۔ اگر آپ کو یہ پتہ چل جائے تو کہ سیب کتنی روشنیوں سے بنا ہوا ہے اور مشاہداتی طور پر وہ بات آپ کو نظر بھی آ جائے کہ سیب اتنی روشنیوں سے بنا ہوا ہے تو آپ اس سیب کی روشنیوں کو اپنے اندر جذب کر کے اپنے اندر منتقل کر کے سیب سے غذائیت حاصل کر سکتے ہیں۔ سیب بذات خود کچھ نہیں سیب روشنی ہے۔ آدمی گندم کھاتا ہے فضلہ نکل جاتا ہے۔ اصل میں گندم جن روشنیوں سے بنا ہوا ہے، وہ روشنیاں ہمیں انرجی فراہم کرتی ہیں۔ انسان روشنیوں کا بنا ہوا ہے۔ روحانی لوگ جسے جسم مثالی کہتے ہیں۔ سائنس دان اسے اوراکاشیڈو کہتے ہیں۔

روشنی، روشنی کو کھاتی ہے۔ اگر آدمی آدھا کلو گرام گندم روزانہ کھاتا ہے تو اس نے ایک ماہ میں پندرہ کلو گندم کھایا ہے۔ تو سال بھر میں ایک سو اسی 180کلو گندم اس کی غذا بنی جبکہ سال بھر میں اس کا وزن اتنا نہیں بڑھا اگر آپ فضلہ کا وزن کریں تو ایک ماہ میں فضلہ پندرہ کلو گرام نہیں ہوتا۔ قانون یہ ہے کہ آدمی (Quantity) نہیں کھا رہا ہے بلکہ روشنی کھا رہا ہے۔

قرآن تسخیر کائنات کی دستاویز ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ہم تسخیری فارمولے معلوم کرنے کے لئے قرآن نہیں پڑھتے۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ ہر مسلمان گروہوں میں بٹ گیا، کوئی دیوبندی ہے، کوئی بریلوی ہے، کوئی اہلحدیث ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے اور ہر فرقہ کے دانشور قرآن کو اپنے تفرقہ میں استعمال کر رہے ہیں۔ تفرقہ بازی میں استعمال ہونے کی وجہ سے مسلمان قرآن پاک کے اندر سے قرآن کریم کی حکمتوں سے اور قرآنی فارمولوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے متحدہ ہو کر ایک جگہ جمع ہو کر پکڑ لو آپس میں تفرقہ نہ ڈالو لیکن اب اسلام صرف نام ہی تفرقہ کا ہے۔ دیو بندی حضرات بریلوی حضرات کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ بریلوی حضرات دیو بندی علماء کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور جتنے فرقے ہیں ہر فرقہ اپنے آپ کو جنتی اور دوسروں کو دوزخی کہتا ہے حالانکہ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی ہے۔ یہ تو اللہ میاں فیصلہ کرینگے کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی ہے۔ ابھی یوم حساب قائم نہیں ہوا ہے۔ یوم میزان نہیں ہوا تو کون کہہ سکتا ہے کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کس کو جنتی اور کس کو دوزخی قرار دیتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم فرقوں میں جنت اور دوزخ کو بانٹ رہے ہیں تو جب ہم قرآن پڑھیں گے نہیں اور قرآن کے اندر تسخیری فارمولے تلاش نہیں کریں گے تو قرآن کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنے فارمولے ہمارے اوپر ظاہر کرے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے ساری دنیا میں جو کچھ بھی ہے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ ہومیوپیتھک کی اتنی سی گولی ہوتی ہے، خشخاش کے برابر اس گولی کی طاقت ایک لاکھ ہو جاتی ہے۔ کہاں سے اس میں اتنی طاقت پیدا ہو گئی اگر Matterمیں سبھی کچھ ہے تو ہومیو پیتھک کی ایک لاکھ کی طاقت کی اتنی چھوٹی گولی آپ کے جسم میں کیسے تبدیلی کر دیتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ Quantityکی حیثیت نہیں ہے۔ آپ جب گیہوں کھاتے ہیں تو جو مقداریں اللہ تعالیٰ نے گیہوں کے اندر متعین کر دی ہیں وہ آپ کھاتے ہیں۔ روحانی آدمی کو ابتدائی تعلیمات میں یہ بتایا جاتا ہے کہ گیہوں کیسے بنا؟ روحانی استاد اپنے شاگرد کو یا مرید کو مشاہدہ کراتا ہے کہ گیہوں کا ایک دانہ ہے استاد اس کو بڑا کرتا ہے جتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ جیسے خوردبین چھوٹی چیز کو بڑا کر کے دکھاتی ہے یعنی آنکھ خوردبین بن جاتی ہے۔ جب دانہ بڑا ہو جاتا ہے تو ایک گیہوں کا دانہ امرود کے برابر ہو جاتا ہے بعض اوقات اس سے بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ استاد کے ہاتھ پر امرود کے برابر ایک گیہوں کا دانہ رکھا ہوا ہے وہ کہتا ہے اس میں دیکھو کہ مقداریں کتنی ہیں۔ اس میں مٹھاس کتنی ہے۔ اس میں نشاستہ کتنا ہے اس میں بھربھراپن کتنا ہے۔ اس کے اندر رنگ کتنے ہیں۔ اگر رنگ 4ہیں تو سات رنگوں(مقداروں) میں پھیلنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ اس کے ا ندر پانی جزب کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ استاد اس کے بعد دکھاتا ہے کہ روٹی بنانے کے لئے آگ برداشت کرنے کی اس کے اندر کتنی صلاحیت ہے۔ ساری مقداریں مشاہدہ کرا کے زمین کے اند گیہوں کا دانہ ڈال دیا جاتا ہے۔ شاگرد کو پتہ چل جاتا ہے کہ گیہوں کوئی چیز نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔اصل چیز اس کی مقدار ہے، مقدار سے مراد یہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے مٹھاس کی ایک مقدار ہے تو روحانی لوگ کہتے ہیں کہ مٹھاس میں کتنی مقداریں کام کرتی ہیں تو پھر مٹھاس کا تذکرہ کر کے اس مٹھاس کی مقدار کا تعین کرتے ہیں پھر یہ کہتے ہیں کہ گیہوں کے اندر پانی جذب کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ پانی جذب ہو رہا ہے تو کتنی مقدار میں جذب ہو رہا ہے وہ تجربہ کرتے ہیں کہ گندم کے دانہ کا فارمولا یہ بنا کہ اس میں اتنا پانی ہے، اتنی شکر ہے، اتنا نشاستہ ہے، اتنا اس کے ا ندر بھربھراپن ہے، اتنی اس کے اندر سختی ہے۔ اتنا اس کے اندر پھیلاؤ ہے۔ اتنا اس کے اندر کڑاکڑاپن ہے۔ تقریباً20مقداروں سے مل کر ایک گیہوں بنا۔ پھر اس کو زمین میں ڈالتے ہیں اور اس کی کاشت کرتے ہیں۔ استاد نے اس گیہوں کو پکڑا  اور پکڑ کر اس کو فضا میں رکھا تو وہاں شاگرد نے دیکھا کہ اس گیہوں کے اوپر فضا میں جتنی گیسیں ہیں جتنی روشنیاں ہیں ان کا اس گیہوں کے اندر جو مقداریں ہوتی ہیں اس پر کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ کس طرح ایک دوسرے سے Multiplyہوتی ہیں، کس طرح ایک دوسرے میں جذب ہو کر بڑھتی ہیں پھر اس کو نیچے پھینکتے ہیں۔ دیکھیں پکڑی ہوئی چیز الگ ہے اور اوپر سے نیچے آنے والی چیز الگ ہے۔ اب اوپر سے جب چیز آ رہی ہے تو زمین کی جو کشش ثقل ہے جس کو آپ Gravityکہتے ہیں، وہ گیہوں کو کھینچ رہی ہے۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ Gravityکی کتنی مقداریں ہیں۔ اس کے بعد زمین پر گیہوں گر گیا ہے اب زمین پر جب گیہوں گرا پھر فضا کے اندر جتنی روشنیاں ہیں جتنی گیسیں ہیں وہ اس میں شامل ہو گئیں اب زمین پر جب وہ گرا تو زمین کی ساخت زیر بحث آ جاتی ہے کہ زمین کن عناصر سے ترتیب پائی ہے۔ زمین میں کتنے عناصر کام کر رہے ہیں۔ مثلاً زمین میں تانبا ہے، پیتل ہے، ایلومینیم ہے، فاسفورس ہے، چاندی ہے، سونا ہے اور بے شمار معدنیات ہیں۔ ابرق ہے، نمک ہے، پھٹکری ہے وغیرہ وغیرہ۔ بے شمار معدنیات کا اس گیہوں پر کیا اثر ہوا اور ان معدنیات کی الگ الگ کتنی مقداریں ہیں۔ جب وہ ساری مقداریں گیہوں میں شامل ہو گئیں تو گیہوں زمین کے اندر چلا گیا اور زمین نے اس کو بند کر لیا۔ پھر گیہوں کے اندر کی تبدیلی واقع ہوئی۔ کس طرح اس کے اندر کلا پھوٹا۔ کس طرح وہ گیہوں پھول کر پھٹا۔ پھٹنے کے بعد اس میں کلا آیا۔ پھر پتی بنی پھر پودا، اس پودے کے اندر ہزاروں لاکھوں گیہوں لگ گئے پھر یہ مسئلہ زیر بحث آ جاتا ہے کہ ایک گیہوں میں ہزار گیہوں کیسے لگ گئے؟

یہ روحانی تعلیمات کا ایک طریقہ ہے اب آپ دیکھیں اس میں سوائے روشنی کی مقداروں کے کوئی چیز نہیں ہے۔ اب وہ جب گیہوں بنا اور آپ نے بہت سارے گیہوں اکٹھا کر کے اس کو پسوایا وہاں پر بھی مقداریں زیر بحث آ گئیں اگر وہ چکی کے پاٹوں میں مخصوص Heatپیدا نہ ہو تو آٹا نہیں بنتا۔ چکی چلے بغیر آٹا نہیں بنے گا۔ آپ نے دیکھا ہو گا جب آٹا پستا ہے آپ ہاتھ لگا کر دیکھیں اچھا خاصا گرم ہوتا ہے، انگلیاں جل جاتی ہیں۔ پھر وہ گرم آٹا ٹھنڈا ہوا پھر آپ نے اس آٹے کو گوندھا اس میں پانی جذب کیا اس کو توے پر ڈالا۔ یہ ساری چیزیں مقداروں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اب ہم جو کچھ بھی کھا رہے ہیں مادی اعتبار سے تو ہم Matterکھا رہے ہیں۔ لیکن روحانی نقطہ نظر سے کوئی آدمی Matterنہیں کھا رہا۔ انسان خود روشنیوں کا بنا ہوا ہے۔ روشنی روشنی کو کھا رہی ہے یا یوں کہیں کہ روشنی روشنی کو جذب کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے جتنی ہم خوراک کھاتے ہیں اس کے حساب سے ہمارا وزن نہیں بڑھتا۔

کوئی چیز مقدار کے بغیر نہیں ہوتی اور مقدار روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی تو روشنی کو کوئی نہ کوئی الگ نام ضرور دینا پڑے گا۔ اگر آپ کسی ذریعہ سے سیب کی، گیہوں کی، پپیتے کی جو مقداریں ہیں ان کو آپ دیکھ کر سمجھ کر اپنے اندر ذخیرہ کر لیں تو یہ بات صحیح ہے کہ آپ کو کھانا کھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جنت میں بھی Matterنہیں ہے، اسی لیے جنت میں بول و براز نہیں ہوتا۔ پاخانہ، پیشاب نہیں ہوتا۔ جنت میں چیزیں تو سب ہیں دودھ بھی ہے، پھل بھی ہیں، شہد بھی ہے، پانی بھی ہے۔ غذائی انتظام وہاں سارا کا سارا ہے لیکن وہاں ہر چیز روشنی سے بنی ہوئی ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔