Topics

اللہ کی مہر


سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور یہ کہ ایسے لوگوں کے لئے عذاب الیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی تو پھر اس بندے کے غلط کاموں پر عذاب کیوں ہوا؟ دینی نقطہ نگاہ سے اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: اگر کوئی بندہ باوجود اس کے کہ روشن راستہ اس کے سامنے ہے باوجود اس کے کہ اس کو روشن راستے پر چلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور باوجود اس کے کہ روشن راستے پر انعامات و اکرامات کی جو بارش برس رہی ہے اس کی بھی اطلاع اس کو دی جا رہی ہے وہ پھر بھی اس روشن راستے کو قبول نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کا تاریک راستے پر چلنا قبول کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ کسی بندے کا تاریک راستے پر چلنا اس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ وہ شیطان کی طرح نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ ہے تو اس کے اوپر روشن راستے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں یعنی دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی نے از خود وہ راستہ اختیار کر لیا جس راستے پر چل کر آدمی عقل سلیم سے بے بہرہ ہو جاتا ہے، سماعت سے محروم ہو جاتا ہے اور بینائی پس پردہ چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اس بات سے منع نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا یہ عمل قبول کر لیتے ہیں چنانچہ وہ اب کبھی روشن راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ یہ اس آیت مبارکہ کی علمی توجیہہ بیان ہوئی۔ اب ہم اسی آیت کی تفسیر روحانی نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں روحانیت سے تعلق رکھنے والے حضرات کم و بیش اس بات سے واقف ہیں کہ مخلوق کے اندر ایسے نقطے موجود ہیں جن نقطوں میں زندگی میں کام آنے والی روشنی ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔ یہ نقطے فرشتوں میں بھی ہوتے ہیں، جنات میں بھی ہوتے ہیں، سیاروں میں بھی ہوتے ہیں، درختوں میں بھی ہوتے ہیں۔ یوں کہیئے کہ نباتات، جمادات، حیوانات سب میں ہوتے ہیں۔ یہ نقطے ایک ہاتھی کی زندگی کو بھی فیڈ کرتے ہیں اور ایک چیونٹی کے اندر بھی رہ کر اس کی زندگی کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ یہ بات طویل ہو جائے گی کہ چیونٹی کے اندر کتنے نقطے کام کرتے ہیں، جنات کتنے نقطوں سے مرکب ہیں، فرشتے کتنے نقطوں کی مخلوق ہیں، پہاڑ کے اندر یہ نقطے کس فارمولے کے تحت کام کرتے ہیں اور گھاس کے اندر یہ نقطے کس فارمولے پر متحرک ہیں۔۔۔۔۔۔انشاء اللہ آئندہ ہم اس کی واضح طور پر تشریح بیان کرینگے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر آدم زاد ہے اس لئے کہ یہ آیت مبارکہ ختم اللّٰہ علی قلوبھم و علی سمعھم و علی ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم ۔ نوع انسانی کے لئے نازل ہوئی ہے۔تصوف اور روحانیت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان نقطوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور ان نقطوں کو چھ لطیفوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ روحانیت میں ان کا اصطلاحی نام لطائف ستہ ہے یعنی ایک آدم زاد انفرادی طور پر یا اجتماعی اعتبار سے چھ نقطوں کے اندر سفر کرتا ہے ان چھ نقطوں کو قرآن پاک کے قانون کے مطابق تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دائرہ جس کے اندر دو نقطے موجود ہیں آدمی کے اوپر دو راہیں کھولتا ہے ایک وہ راستہ جو شیطنت ہے اور دوسرا وہ راستہ جو رحمت ہے۔ دوسرا دائرہ رحمت کی طرف سفر کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور تیسرا دائرہ منزل ہے یعنی اس دائرے میں بندے کو اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہوتا ہے یہ تینوں دائرے ہمہ وقت چار نورانی نہروں سے فیڈ ہوتے رہتے ہیں۔ دائرے تین ہیں نہریں چار ہیں۔ ان نہروں کا سورس کیا ہے؟ یہ نہریں کہاں سے نکلتی ہیں اور کیوں نکلتی ہیں؟ ان نہروں میں کس قسم کے انوار کا نزول یا صعود ہوتا ہے؟ نہروں کے اندر نازل ہونے والے انوار یا روشنیاں کس طرح وہم، خیال، تصور، ادراک اور احساس میں تبدیل ہوتی ہیں۔ یہ ایک لمبا بیان ہے مختصر یہ کہ ان چار نہروں میں سے ایک نہر تیسرے دائرے کو جس میں شیطنت اور رحمت کے راستے متعین ہیں، سیراب کرتی ہے۔ اگر آدمی باوجود ترغیب کے باوجود تلقین کے، باوجود سمجھانے بجھانے کے ضد بحث اور نافرمانی کا مرتکب ہو کر صراط مستقیم سے ہٹ کر تاریکی کا راستہ اخیتار کر لیتا ہے تو تیسرے دائرے کا پہلا نقطہ زہریلا ہو جاتا ہے اور یہ زہر اس کو ایک متعفن پھوڑا بنا دیتا ہے۔ اس نقطے کے اندر ایسی سڑاند اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ اوپر کے دو دائرے اسے زندہ رکھنے کے لئے فیڈ تو کرتے ہیں لیکن ان کا ذہنی رابطہ یا ہمدردی تیسرے نقطے کے ساتھ نہیں رہتی۔ دوسری طرف کیونکہ اوپر کے دو دائرے سراپا نور اور روشنی ہیں، لطافت اور خوشبو ہیں اس لئے یہ متعفن پھوڑا یا نقطہ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ جب متوجہ ہی نہیں ہوتا تو وہ راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ جس راستے پر چل کر آدمی آسمانوں کی سیر کرتا ہے، فرشتوں سے ملاقات کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ختم اللّٰہ علی قلوبھم و علی سمعھم و علی ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم۔کہہ کر نوع انسانی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔

یہ بات ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں ہے کہ اگر آنکھ کی پتلی میں چھوٹے سے باریک تل کے نیچے کوئی رطوبت جمع ہو جائے تو دیکھی ہوئی چیز کا عکس دماغ کی سکرین پر نہیں پڑتا اور نتیجہ میں وہ چیز نظر نہیں آتی جو بظاہر آنکھوں کے سامنے ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آنکھ اپنی صورت و شکل اور خدوخال کے لحاظ سے موجود ہے۔ آنکھ کے پپوٹوں اور آنکھ کے اندر عضلات میں دوران خون بھی ہے دوسرے دیکھنے والے آدمی کو یہ بھی نظر آرہا ہے کہ آنکھ پوری طرح صحت مند ہے لیکن اگر آنکھ کے باریک ترین ریشوں میں رطوبت، جسم کو ہم گندگی یا سڑاند بھی کہہ سکتے ہیں، جمع ہو جائے تو آنکھ کے دیکھنے کا عمل ساکت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک فالج زدہ ہاتھ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے فالج زدہ ہاتھ بظاہر بالکل ٹھیک اور صحیح نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر حرکت نہیں ہوتی۔ حرکت نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دماغ کے وہ خلیے جو ہاتھ کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہاتھ کو متحرک رکھتے ہیں ان خلیوں اور ہاتھ کے درمیان ایک ایسی رطوبت آ جاتی ہے جس کی بناء پر ہاتھ دماغ کی دی ہوئی اطلاع کو قبول نہیں کرتا۔ نتیجے میں ہاتھ کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔ مزید یہ ہے کہ اگر دماغی خلیوں سے ہاتھ کا تعلق منقطع ہو جائے تو ہاتھ مڑ جاتا ہے، ٹیڑھا ہو جاتا ہے اور سوکھ جاتا ہے۔ یہی حال انسانی زندگی میں کام آنے والے تمام تقاضوں کے ساتھ ہے۔ دماغ اگر ہمیں اطلاع نہ دے کہ اس وقت ہمیں کھانا کھانے کی ضرورت ہے تو ہمیں بھوک نہیں لگتی۔ دماغ کے اندر وہ خلیے جو انسانی جسم کو سکون پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ اگر ان کا اور انسانی جسم کا رابطہ ٹوٹ جائے یا کم ہو جائے تو انسان کو نیند نہیں آتی۔ ان چند مثالوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو اطلاعات پر مبنی ہے۔ جیسی جیسی اطلاعات انسان یا آدم کو ملتی ہیں اسی مناسبت سے اس کی زندگی بنتی یا بگڑتی چلی جاتی ہے وہ نقطہ جس کو ہم نے متعفن پھوڑے کا نام دیا ہے جسم انسانی میں ناف کے مقام پر ہوتا ہے اور عرف عام میں اس کو نفس کہا جاتا ہے۔ ہم یہ پوری طرح واضح کر چکے ہیں کہ زندگی کی ہر حرکت کا ہر عمل، زندگی کا ہر تصور، ہر خیال، ہر ادراک اور احساس دو رخوں پر کام کرتا ہے ایک وہ رخ ہے جس کا تعلق شیطنت سے ہے اور ایک وہ رخ ہے جس کا تعلق رحمانیت سے ہے۔ اسی طرح نفس کا تعلق بھی دو طرزوں میں ہمہ وقت قائم رہتا ہے ایک طرز شیطنت ہے اور دوسری طرز وہ حکمت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن پاک کی صورت میں نوع انسان کو عطا کی ہے۔ جب کوئی آدمی اپنے اوپر ان خیالات کو مسلط کر لیتا ہے اور خود کو دروبست اس راہ کا مسافر بنا لیتا ہے جو راستہ شیطان تک لے جاتا ہے تو نفس میں اسی راستے کی تمام خوبیاں یا برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو راستہ بندہ اپنے ارادے سے متعین کرتا ہے۔ ایک آدمی اگر اپنے ارادے اور اختیار سے مسلسل شیطانی راستے پر چل رہا ہے تو ظاہر ہے اس کے اوپر ا س راستے میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات، احساسات اور تاثرات قائم ہوں گے۔ ایک آدمی ایسے راستے کا انتخاب کرتا ہے جس راستے میں درخت ہیں، پھول ہیں، راستے میں سبزہ زار ہے، آبشاریں ہیں تو وہ آدمی اس راستے کے تمام مناظر سے لطف اندوز ہو گا۔ اس کو درختوں کا سایہ بھی ملے گا اس کا دماغ راستے میں موجود پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر بھی ہو گا، سبزہ زار سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک بھی ملے گی ، آبشار کا صاف، شفاف اور موتی جیسا پانی بھی اسے پینے کو ملے گا اور اس کے اوپر ایک سرور اور وجدان کی کیفیت طاری رہے گی۔ اس کے برعکس دوسرا بندہ ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس راستے پر ایسے درخت ہیں جو خشک ہیں، کانٹے دار ہیں، ایسے مناظر ہیں جن میں خشکی ہے، راستے میں ایسی جھیلیں ہیں جن میں تعفن ہے، بدبو ہے تو وہ آدمی ان تمام چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا اور اگر وہ اس راستے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوگا اور دوسرا راستہ جس پر سرشاری، شادابی، شگفتگی اور آسائش و آرام ہے، اختیار نہیں کرے گا تو کبھی وہ تعفن کی دنیا سے آزاد نہیں ہو گا اور اس کے اوپر خوشبو اور سائے کی ٹھنڈک کبھی ظاہر نہیں ہو گی۔ یہی صورت حال نفس یا اس نقطے کی ہے جس نقطے کو ہم نے تعفن پھوڑا کہا ہے یہ نقطہ دو رخوں پر قائم ہے۔

ایک رخ شیطنت ہے اور دوسرا رخ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر انعام ہے وہ رخ جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے انسان کے اندر دوسرا نقطہ ہے اس نقطہ کو عرف عام میں قلب کہا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب آدمی زندگی کو صرف اور صرف دنیاوی عیش و نشاط کی زندگی قرار دے لیتا ہے اور زندگی کا سارے کا سارا مقصد دنیا بن جاتی ہے تو اس کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور جیسے جیسے یہ رشتہ کمزور ہوتا ہے نفس کا رابطہ قلب سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کو ہم آسان الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ بندہ جس کے نزدیک زندگی دنیا اور صرف دنیا ہے یا دنیا کا عیش و نشاط ہے وہ اپنے خالق سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ قلب یا ضمیر اسے برابر اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ راستہ جو اختیار کر لیا گیا ہے وہ راستہ ہے جو ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو انعام یافتہ ہیں لیکن بندہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے دنیاوی لذت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قلب اور ضمیر اس کو اللہ کے راستے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ترک کر دیتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو نفس صرف ایک رخ کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتا ہے یعنی وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اس زندگی کو قبول کر لیتا ہے جو زندگی شیطان کی زندگی ہے۔

چونکہ اللہ تعالیٰ دین کے معاملے میں جبر نہیں فرماتے اور ہر بندے کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ دین اور دنیا دونوں راستوں میں سے وہ کسی ایک راستے کا انتخاب کرے۔ چنانچہ مسلسل ترغیب(Inspiration) اور بندے کو خیر کی آواز کو نظر انداز کرنے کے بعد جب یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بندہ کسی صورت بھی صراط مستقیم پر چلنے پر آمادہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ارادے اور اختیار کو قبول کر لیتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ ارادہ اور اختیار یعنی شیطنت قبول کرنے کا ارادہ قبول کر لیا ہے اس لئے اب صراط مستقیم پر چلنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اب اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں مہر لگ گئی ہے اس بات کو ہم اس طرح کہتے ہیں کہ دلوں پہ مہر اللہ نے نعوذباللہ کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں لگائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے بندے کا ارادہ اور اختیار قبول کر لیا ہے کہ وہ اس راستے پر چلنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کا یہ ارادہ اور اختیار قبول نہ کریں تو اختیار زیر بحث آ جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ آدم اور جنات بااختیار ہیں اور انہیں نیکی یا بدی اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے، صحیح نہیں ہو گا قانون قدرت میں سقم پڑ جائے گا۔ بااختیار ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندہ خود اپنے لئے کوئی ایک راستہ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اگر چاہیں تو دنیا میں چوری نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ اگر چاہیں تو دنیا میں کوئی قتل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اگر چاہیں تو دنیا میں کوئی آدمی بے نمازی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہیں تو شیطان کا وجود ختم ہو سکتا ہے لیکن بااختیار ہونے کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ ایک آدمی جب اپنی مرضی سے برائی نہیں کر سکتا۔ تو اپنی مرضی سے بھلائی بھی اختیار نہیں کر سکتا تو اپنی مرضی سے بھلائی کے راستے پر چلتا رہے اس لئے قلب اور ضمیر برابر اسے اس طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں کہ راستہ جو اختیار کیا جا رہا ہے غلط ہے۔ لیکن ایک آدمی جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے کہ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ راستہ صحیح نہیں ہے پھر بھی چلتاہے یہ تو اللہ تعالیٰ اس کا اس راستے پر چلنا قبول کر لیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کا شیطنت پر چلنے کا عمل قبول کر لیتے ہیں تو پھر وہ بندہ شیطان سے انسان نہیں بن سکتا۔ قرآن پاک میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اس میں جہاں تخلیق کا ذکر ہے وہاں ملائکہ کا ذکر ہے، جنات کا ذکر ہے، آدم زاد کا ذکر ہے، زمین کا ذکر ہے، سماوات کا ذکر ہے، پہاڑوں کا ذکر ہے، ہر اس مخلوق کا ذکر ہے جس مخلوق کے تخلیقی فارمولے بیان ہوئے ہیں۔ انسان اور جنات کے بیان میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ان کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ فرشتوں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ بااختیار ہیں یہی وجہ ہے کہ فرشتوں سے غلطی سرزد نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے اوپر محاسبہ ہے ان کے سپرد جو کام کر دیا گیا ہے وہ کر رہے ہیں۔ متذکرہ بالا آیات کی تشریح اور تفسیر جو کچھ بیان کی گئی اس سے یہ بات ہمارے سامنے آگئی کہ دلوں پہ مہر لگ جانا یا آنکھوں پر پردہ پڑ جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حد تک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کے اس اختیار کو قبول کر لیا ہے کہ وہ بھلائی کا راستہ اختیار نہیں کرے گا بلکہ برائی کے راستے پر چلنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ یہی حال قوموں کے عروج و زوال کا بھی ہے جب قومیں اپنے لئے ایسے راستے متعین کرتی ہیں جن راستوں پر چل کر عزت و سرفرازی حاصل ہوتی ہے تو قومیں سرفراز ہو جاتی ہیں اور جو قومیں اپنے لئے ایسے راستے منتخب کرتی ہیں جن راستوں پر چل کر ذلت، خواری اور مسکنت نصیب ہوتی ہے تو وہ قومیں ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں ان سے بادشاہتیں چھین کر انہیں غلام بنایا جاتا ہے ایسی قومیں بھکاری بن جاتی ہیں، ایسی قومیں در در کی ٹھوکریں کھاتی ہیں اور زمین ان کے وجود کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔

ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ قومیں جو سرفراز ہیں ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ لیکن جب عزت، توقیر اقتدار اور حاکمیت زیر بحث آتی ہے تو یہ قومیں نہایت ابتر اور خستہ حال اور پریشان نظر آتی ہیں۔ آج کے دور میں اسرائیل اور مسلمانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیلی تیس لاکھ ہیں، مسلمان 90کروڑ ہیں، 90کروڑ اور 30لاکھ کا حساب کچھ بلی چوہے کا سا نظر آتا ہے لیکن مسلمان کی حیثیت ایک زخم خوردہ چوہے سے زیادہ نہیں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا نفس متعفن پھوڑا بن گیا ہے اور یہی صورت ہے جس کو قرآن پاک نے قیامت کا نام دیا ہے۔

 



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔