Topics

تصرف

سوال: کیا انسان اللہ کی کسی تخلیق میں کوئی تبدیلی لانے کا اختیار رکھتا ہے؟ مہربانی فرما کر اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات ارشاد کی ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں سب سے بہتر خالق ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ایک ایسے خالق ہیں کہ جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جس خدوخال میں موجود ہے جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس حکم کی تعمیل میں تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو علم میں لے آئے ہیں جو تخلیق اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے۔ خالقین کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق بجلی (Electricity) ہے۔ جب بندوں نے اس تخلیق سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ نے ایک لفظ ’کن‘ کہہ کر بجلی کو تخلیق کیا۔ آدم نے اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جتنی چیزیں  وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیقات ہیں مثلاًریڈیو ٹی وی اور بے شمار دوسری  چیزیں  روحانی نقطۂ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا آدم زاد کا دراصل بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ نے آدم کو سکھا دیا تھا اسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو ایک ایسا علم سکھا دیا کہ جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ 

جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔ 

کائنات دراصل ایک علم ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ نے بندوں کو وقوف عطا کر دیا ہے لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دے دیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے۔ جن لوگوں نے لوہے کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے میں تفکر کیا تو لوگوں کے سامنے لوہے کی لامحدود صلاحیتیں آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا کہ جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف ہے جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہراً وجود ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی کا بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے تو جس طرح لوہے( دھات) میں تصرف کے بعد وہ عظیم مشینیں کل پرزے جہاز، ریل گاڑیاں، خطرناک اور بڑے بڑے بم اور دوسری ترقیوں میں لوہے کو استعمال کرتا ہے۔ اس طرح روشنیوں کا علم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔

وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس (Process) سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اکٹھا کر کے خاص پروسیس سے سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں۔ اسی کو وسائل میں تصرف کا نام دیا جاتا ہے لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک نقطہ سے مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’سونا‘‘ اور سونا بن جاتا ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کا محتاج نہیں ہے، جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں اور بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق کا تصرف کرتا ہے۔ تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنائی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔

یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں میں حرکت دے کر تصرف کیا جاتا ہے اور تصرف کا یہ طریقہ انسان کے اندر موجود ان روشنیوں سے متعلق ہے‘ جن روشنیوں کو قلندر بابا اولیاءؒ نے نسمہ کہا ہے روشنیوں کے اس ذخیرے کو استعمال کرنے کا طریقہ ہی دراصل روحانیت ہے۔ روحانیت میں یہ بات دن کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتی ہے کہ زمین پر موجود یا کائنات میں موجود ہر شئے کی بنیاد اور بساط روشنی ہے اور یہ روشنی اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت معین مقداروں کے ساتھ قائم ہے اور معین مقداروں کے ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ پیدائش سے موت تک کا زمانہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بچہ اپنی ایک حیثیت پر قائم نہیں رہتا۔ جن معین مقداروں پر بچہ پیدا ہوا ہے، ان معین مقداروں میں ایک ضابطہ، ایک قانون اور ایک ترتیب کے ساتھ رد و بدل ہوتا رہتا ہے جس طرح مقداروں میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے انسان بھی بدلتا رہتا ہے۔

بچہ، جوان ہو، بوڑھا ہو، بہرصورت وہ انسان ہے یعنی اس کی شکل و صورت اور خدوخال میں تو تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن نوع انسانی کی شکل و صورت برقرار رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے کنبے کو مختلف نوعوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک معین مقدار یہ ہے کہ انسان ہر حال میں انسان رہتا ہے لیکن اس کے خدوخال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

ایک بکری کا بچہ بہرصورت بکری کا بچہ رہتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کے اندر زندگی گزارنے کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ 

اب اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ معین مقداریں دو رخ پر قائم ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ اس میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے اور دوسرا رخ یہ ہے کہ بظاہر کوئی رد و بدل واقع نہیں ہوتا۔ رد و بدل یہ ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش جوانی میں سرتا پا بدل جاتے ہیں۔ جوانی کے بعد بڑھاپا آ جاتا ہے۔ بڑھاپے میں جوانی کے نقوش ڈھل جاتے ہیں اور اس طرح ماضی میں چلے جاتے ہیں یا مٹ جاتے ہیں کہ جوانی کی تصویر اور بڑھاپے کی تصویر دو الگ الگ تصویریں نظر آتی ہیں۔ اس کو معین مقداروں میں رد و بدل کا نام دیا جاتا ہے اور وہ مقداریں جو قائم بالذات ہیں، یہ ہیں کہ آدمی ایک دن کا بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا، بھوک کا تقاضہ اس کے اندر موجود ہے۔ پانی پینے کا تقاضا اس کے اندر موجود ہے۔ عجیب رمز ہے کہ دو سال کا بچہ پانی پیتا ہے، دو سال کا بچہ غذا کھاتا ہے، سو سال کا بوڑھا آدمی بھی پانی پیتا ہے، سو سال کا بوڑھا آدمی بھی غذا کھاتا ہے لیکن سو سال کا بوڑھا، دو سال کا بچہ نہیں ہوتا اور دو سال کا بچہ، سو سال کا بوڑھا نہیں ہوتا۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ روحانی علوم ہمارے اوپر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ تقاضے، بڑھاپے اور بچپن میں یکساں ہیں، صورت و شکل اور خدوخال میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ شکل و صورت اور خدوخال میں رد و بدل اللہ تعالیٰ کے کون سے علوم کرتے ہیں، ان علوم سے روشناس ہونے کے لئے پہلی بات ضروری ہے کہ ہم ان روشنیوں کا علم حاصل کریں جن روشنیوں کو اللہ نے اپنی صفات کہا ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔