Topics

اللہ کا نور


سوال: سرور کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ حضورﷺ کی اس حدیث شریف کا کیا مطلب ہے؟

جواب: دیکھنے کی ایک طرز یہ ہے کہ اس میں نور شامل ہو جاتا ہے اور آدمی کی آنکھ پر نور کا لینز فٹ ہو جاتا ہے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب عینک میں سرخ شیشہ لگاتے ہیں تو ہمیں ہر چیز سرخ نظر آتی ہے۔ عینک کا شیشہ نیلا ہو تو ہر چیز نیلی، ہرا ہو تو ہر چیز ہری نظر آتی ہے لیکن اگر شیشہ بے رنگ، سفید اور شفاف ہو تو اس طرح نظر آتا ہے جس طرح بغیر عینک کے نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ آنکھ وہی کچھ دیکھتی ہے جو اسے دکھایا جائے۔ باالفاظ دیگر آنکھ پر جس قسم کا لینز لگا دیا جائے اسی مناسبت سے رنگین، صاف، دور یا قریب دکھائی دیتا ہے۔

عام حالات میں آنکھ جس طرح دیکھتی ہے وہ اپنے اور دوسری چیز کے درمیان ایک خلا رکھ کر دیکھتی ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ مومن کی آنکھ پر اللہ کے نور کا لینز فٹ ہو جاتا ہے یعنی مومن کی نظر کو اللہ کی نظر حاصل ہوجاتی ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’اللہ کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی مگر اللہ اس آنکھ کا ادراک بن جاتا ہے۔‘‘

ایک جگہ یوں بھی ارشاد ہوا ہے:

’’تم ہماری سماعت سے سنتے ہو،ہماری بصارت سے دیکھتے ہو اور سوچنا دماغ کا کام ہے۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہے:

اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔ یعنی اللہ ایک دائرہ ہے اور ہر چیز اس میں بند ہے۔

جب کوئی سالک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس قابل ہو جاتا ہے کہ اللہ کا یہ ارشاد کہ میں تمہاری رگ جاں سے قریب ہوں،اس کے مشاہدہ میں آ جاتا ہے تو اس کو وہ نظر حاصل ہو جاتی ہے جس کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد کیا گیا ہے۔’’اے رسولﷺ! آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘ قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شے تھا۔ پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی یہ بولتا، سنتا، سوچتا، محسوس کرتا اور حرکت کرتا ہوا بن گیا۔۔۔۔۔۔بات سیدھی اور صاف ہے کہ انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ تھا اور ہے۔ اس کے اندر اللہ کی روح، اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی میں تمام اعمال و حرکات کی بنیاد ہے۔ ہم روزمرہ دیکھتے ہیں کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو قائم رہتا ہے لیکن حرکت ختم ہو جاتی ہے یعنی حرکت تابع ہے روح کے۔ کہنا یہ ہے کہ روح ہی زندگی ہے اور زندگی کے تمام اعمال اور حرکات کا دارومدار ہی روح پر ہے۔

روح کی ہر حرکت میں مقداریں کام کرتی ہیں اور یہ معین مقداریں استعمال کر کے روح مختلف حیثیتوں اور مختلف رنگ و روپ میں اپنا تعارف پیش کرتی ہے۔ روح جب ان معین مقداروں کے تانے بانے کے ساتھ وہ لباس تیار کرتی ہے جس کو ہم درخت کہتے ہیں تو روح ہمیں درخت کی شکل میں نظر آتی ہے اور روح جب وہ مقداریں پیش کرتی ہے جو بکری میں کام کرتی ہیں تو وہ ہمیں بکری نظر آتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جتنی نوعیں اور نوعوں کے اندر مختلف شکل و صورت ہم دیکھتے ہیں یا ایسی نوعیں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں وہ روح کی ہر آن اور ہر لمحہ بدلتی ہوئی تصویریں ہیں۔ روح ملاء اعلیٰ کے لباس میں خود کو پیش کرتی ہے۔ تو ملاء اعلیٰ ہے۔ ملاء اعلیٰ میں جبرائیلؑ ، میکائیلؑ ، اسرافیلؑ اور عزرائیلؑ شامل ہیں۔ جب روح حاملان ملائکہ سماوی یا ملائکہ ارضی کے لباس میں خود کو پیش کرتی ہے تو اسی نام سے پکاری جاتی ہے۔





Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔