Topics

ذات مطلق

سوال: اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

جواب: رواں دواں پانی کو دیکھ کر آدمی اس لئے متاثر ہوتا ہے کہ اس کے لاشعور میں یہ بات موجود ہے کہ پانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ایک اہم عنصر ہے۔ خنک لطیف ہوا کے جھونکوں سے آدمی اس لئے پر کیف ہو جاتا ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ لطیف اور خنک ہوا آدمی کی بنیادی ضرورت آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ خوشنما لباس پہن کر آدمی اس لئے اپنے اندر فرحت محسوس کرتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ خوشنما چیزیں دوسروں کو متاثر کرتی ہیں اور خوشنمائی خود انسان کے لئے ایک بہترین خوشی کا ذریعہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھ کر، اس میں حیوانات یا انسان کی کوئی تخصیص نہیں۔ آدمی کے اوپر ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں اس کا اپنا بچپن محفوظ ہے۔ باالفاظ دیگر ہم اس بات کو اس طرح کہیں گے کہ ایک بڑا بوڑھا آدمی بچے کو دیکھ کر اپنے ماضی کے بچپن میں لوٹ جاتا ہے کیونکہ بچے فطری اور جبلی طور پر خوش رہتے ہیں اس لئے جب ایک 60سالہ، بیس سالہ یا 25سالہ آدمی اپنے بچپن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اوپر وہی تاثرات غالب آ جاتے ہیں جو بچوں کی زندگی کا خاصہ ہیں۔ اس کے برعکس جب آدمی خزاں رسیدہ درخت کو دیکھتا ہے جب کہ اس کے اوپر پتے نہیں ہوتے، شگوفے نہیں ہوتے، پھل نہیں ہوتے، شادابی نہیں ہوتی تو اس درخت سے وہ ان حالات کی طرح متاثر نہیں ہوتا۔ جس طرح وہ بہار کے موسم میں درخت سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ کوئی آدمی خود کو خزاں رسیدہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ کوئی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی نسل زمین پر نہ پھیلے۔ کوئی آدمی نہیں چاہتا کہ ۔۔۔۔۔۔اس کے گھر میں شگوفے نہ کھلیں۔ کوئی آدمی خود کو بیمار دیکھنا نہیں چاہتا جب کہ خزاں رسیدہ درخت ایک طرح سے بیماری کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ ہم ایسے پانی کو دیکھتے ہیں جو پانی انتہائی درجہ تلخ ہے یا انتہائی درجہ گرم ہے تو ہمارے اوپر یقیناً وہ تاثرات قائم نہیں ہوتے جو شیریں، سفید اور ٹھنڈے پانی کو دیکھنے کے بعد طاری ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے یہی ہے کہ کوئی آدمی کڑوا پانی پینا نہیں چاہتا۔ کوئی آدمی انتہائی تیز گرم پانی سے غسل کرنا نہیں چاہتا اور اس سے آگے بڑھیں تو ہمارے اوپر قدرت کا ایک عجیب انکشاف ہوتا ہے وہ یہ کہ پانی ایک ایسا Matterہے جو جس ڈائی میں ڈال دیا جاتا ہے اسی کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ اس بات سے ایک قانون کا انکشاف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ڈائیاں مختلف ہیں (Matter) ایک ہے پانی جب کیلے کے درخت کی شریانوں، رگوں اور پٹھوں سے گزر کر کیلے کی ڈائی میں جم جاتا ہے تو کیلا بن جاتا ہے اس Matterکو جب انار کی ڈائی میں ڈال دیا جاتا ہے تو انار بن جاتا ہے۔ آم کی ڈائی میں جا کر آم بن جاتا ہے۔ آدمی کے اندر فٹ ڈائی میں جا کر جب یہ پانی جمتا ہے تو آدمی بن جاتا ہے۔ بکری، گائے، بھینس کے اندر فٹ سانچوں میں جب یہ پانی جم جاتا ہے تو اس پانی کی شکل کہیں بکری بن جاتی ہے، کہیں گائے بن جاتی ہے اور کہیں بھینس بن جاتی ہے۔ قدرت کی کتنی بڑی صناعی ہے کہ Matterایک ڈائیاں کھرب ہا کھرب ہیں۔ ساتھ ساتھ ڈائی کے اندر شکل و صورت کی موجودگی میں رنگ بھی تبدیل ہوتے ہیں کہیں ایک رنگ ہوتا ہے۔ کہیں دس رنگ ہوتے ہیں، کہیں مکمل رنگ ہوتے ہیں حالانکہ درخت جڑوں کو جو پانی سیراب کرتا ہے اس کا رنگ ایک ہے۔ انار کے درخت میں جو پانی ڈالا جاتا ہے وہ سفید ہے لیکن جب ہم انار کو کھولتے ہیں تو ہمیں وہاں اللہ تعالیٰ کی عجیب صفت نظر آتی ہے ایسی خوبصورتی سے دانے جڑے ہوتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ وہ رنگین ہوتے ہیں، کالے ہوتے ہیں، سفید ہوتے ہیں، زرد ہوتے ہیں۔ یہاں سے ایک نئے قانون کا انکشاف ہوتا ہے وہ یہ کہ ڈائی کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ علم ودیعت کیا ہے کہ اس ڈائی نے سفید پانی کو کیا معنی پہنانے ہیں، کیا رنگ دینا ہے، کیا ذائقہ دینا ہے۔ مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ جس طرح ایک آدمی شعور رکھتا ہے انار کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ شعور دیا ہے کہ اس کے اندر دوڑنے والے پانی کو اسے کیا رنگ دینا ہے، کیا ذائقہ دینا ہے، کیا شکل دینی ہے۔ بات پھر وہیں اسی آیت پر آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہم نے اپنی امانت سماوات پہاڑوں اور زمین پر پیش کی۔ ان سب نے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سماوات زمین اور پہاڑ بھی عقل و شعور رکھتے ہیں۔ عقل و شعور کا یہ عالم ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر جو ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں ہمارے اندر اتنی استطاعت اور سکت نہیں ہے۔ ہم نے اگر آپ کے ارشاد کے مطابق اس امانت کو اپنے اوپر اٹھا بھی لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ہمارا وجود ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ یہ بات کہنا کہ ہم اس علم کے متحمل نہیں ہیں اور اگر ہم نے علم کو اٹھا لیا تو ہم نیست و نابود ہو جائیں گے۔ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سماوات و ارض اور جبال کو پورا پورا شعور حاصل ہے۔ ارض دراصل ایک طرح ماں کا پیٹ ہے جس طرح کوئی بچہ شکم مادر سے پیدا ہو کر شعور حاصل کرتا ہے شعور اس وقت حاصل کرتا ہے جب اس کے اندر شعور بنانے کی مشین یا شعور بنانے کا پیٹرن موجود ہو۔ اسی طرح جب زمین کی کوکھ سے کوئی درخت تولد ہوتا ہے اس کے اندر بھی شعور ہوتا ہے اور یہ کہاں سے آیا؟ کس نے بنایا، کس طرح وجود میں آیا؟ یہ سب باتیں ہمارے سامنے ہیں جس نے زمین بنائی، جس نے پانی بنایا۔ جس نے ڈائی بنائی، جس نے ڈائی کو یہ شعور بخشا ہے کہ مجھے اس تصویر کے اندر جو میرے اندر پرورش پا رہی ہے کیا شکل و صورت دینی ہے، کیا رنگ دینا ہے۔ اسی ذات مطلق نے شعور عطا کیا۔ اب اگر ہم اس ذات مطلق سے متعارف ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات پر یقین کرنا پڑے گا کہ ایک ہی ذات مطلق ہے جس نے ہمیں اور ساری کائنات کو سنبھالا ہوا ہے اور اسی ذات مطلق کے ذہن کی عکاسی نئی نئی شکل و صورت میں نمودار ہو رہی ہے اب جب ہم اس یقین پر پہنچ جاتے ہیں کہ ذات مطلق ایک ہے۔ تو ہمارے اندر از خود یہ جستجو پیدا ہو جاتی ہے کہ اس ذات یا ہستی کو دیکھنا چاہئے، اس ذات مطلق کو خود سے قریب کرنا چاہئے اور ایسے اعمال کرنے چاہئیں جن سے ذات مطلق ہم سے خود قریب ہو جائے۔ قربت کے لئے ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ کام کریں وہ عادات و اطوار اختیار کریں جو اس ہستی کے اندر موجود ہیں جس ہستی سے ہم قریب ہونا چاہتے ہیں۔ ایک آدمی اگر کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتا ہے اور اس سے انتہائی درجہ قربت کا خواہاں ہے تو وہ جب اس کے ساتھ نماز ادا کرنے لگتا ہے تو از خود اس کی دوستی نمازی سے ہو جاتی ہے۔ ایک شرابی کے ساتھ اگر دوستی کرنا مقصود ہے تو اس کے ساتھ شراب پینے سے انتہائی درجہ قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ ایک آدمی شطرنج کا شوقین ہے اور اس کی زندگی کا اہم مقصد شطرنج بن گیا ہے تو اس کے ساتھ شطرنج کھیلنے سے یا شطرنج میں دلچسپی لینے سے اس سے دوستی اور قربت پیدا ہونے لگتی ہے۔ کسی سینما کے شوقین سے دوستی کرنے کے لئے یہ بہت آسان طریقہ ہے کہ اس کے ساتھ فلم دیکھنا شروع کر دیا جائے۔ علیٰ ہذالقیاس جس آدمی سے آپ قریب ہونا چاہتے ہیں تو اگر اس کے عادات و اطوار اختیار کر لیں تو دوستی زیادہ ہو گی اور اس کی عادتیں اس طرح اختیار کر لی جائیں کہ اس دوست میں اور خود میں کوئی فرق نہیں رہے تو وہ دونوں دوست ایک جان دو قالب ہو جائیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ ذات مطلق جس نے یہ ساری کائنات بنائی ہے کیا کام کرتی ہے؟ تدبر اور مفکر سے کام لیا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مخلوق آرام و آسائش کی زندگی اور خوش رہے جب کوئی بندہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا اہم مقصد قرار دے لیتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت اس طرح کرتا ہے کہ اس خدمت کے پس پردہ کوئی خدمت، کوئی صلہ یا کوئی غرض نہیں ہوتی دراصل بندے نے وہی کام شروع کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کر رہے ہیں۔ اس خدمت اس عمل یا اس کام میں جتنا زیادہ انہماک ہو جاتا ہے جتنا زیادہ آدمی آگے بڑھتا ہے اسی مناسبت سے وہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہو جاتا ہے اس لئے کہ بندے نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بندے نے ایسی زندگی اختیار کر لی ہے جو زندگی ہمارے لئے انتہائی درجہ پسندیدہ ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتے ہیں اور اس پسندیدگی کے نتیجے میں بندے کو اپنی گود میں بٹھا لیتے ہیں، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہو کر انہیں اچک لیتے ہیں۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔