Topics
عالم رنگ و بو میں جتنی
اشیاء موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے تانے بانے پر نقش ہیں۔ اور اس نقش کی مثال یہ ہے
جیسے کپڑے پر کوئی پرنٹ اور قالین میں کوئی تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ جس طرح کسی
کپڑے کو دیکھنے کے بعد اس کے اوپر رنگ اور نقش و نگار ہمیں نظر آتے ہیں اور تانے
بانے کے جن باریک تاروں سے کپڑا بُنا ہوا ہے وہ ہمیں نظر نہیں آتا، اسی طرح انسان
بھی مختلف رنگوں اور روشنیوں سے بُنا ہوا ہے۔ مادے سے بنا ہوا گوشت پوست ہمارے
سامنے ہے لیکن یہ گوشت پوست کس بساط پر قائم ہے یہ ہماری ظاہری اانکھ نہیں دیکھ
سکتی۔ اگر مادہ کی شکست و ریخت کو انتہائی حدوں تک پہنچا دیا جائے تو محض رنگوں کی
جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مادی زندگی ایسے ہی
کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ فی الحقیقت لہروں کی مخصوص مقداروں کے ایک جگہ جمع ہو
جانے سے مختلف مراحل میں مختلف نوعیں بنتی ہیں۔ اس فارمولے کو بیان کرنے سے منشاء
یہ ہے کہ آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے بلکہ آدمی کی اصل لہروں کے تانے سے بُنی ہوئی
ایک بساط ہے۔ ایک طرف یہ لہریں انسانی جسم کو مادی جسم میں پیش کرتی ہیں اور دوسری
طرف یہ لہریں انسان کو روشنیوں کے جسم سے متعارف کراتی ہیں ۔ جب تک کوئی آدمی مادے
کے اندر قید رہتا ہے اس وقت تک وہ قید و بند اور صعوبت کی زندگی گزارتا ہے اور جب
وہ اپنی اصل یعنی روشنی کے جسم سے واقف ہو جاتا ہے تو قید و بند، آلام و مصائب،
پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ اصلی آدمی یعنی روشنی کے
آدمی سے واقفیت، زمان و مکان(Time and Space) سے آزاد ہونے کی علامت ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جہاں غیبی علوم منکشف
ہوتے ہیں اور قدم قدم اللہ کے عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت
اور اپنا عرفان حاصل کرنے کے لئے قوانین اور ضابطے بنائے ہیں۔ جو لوگ ان قوانین
اور ضابطوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلاشبہ وہ لوگ اللہ کے دوست ہیں۔
اللہ کی دوستی حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں
دو باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔ ’’قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ‘‘قرآنی
پروگرام کے یہ دونوں اجزاء، نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے
مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے لازم ہے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’جب تم نماز میں مشغول
ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرو کہ اللہ
تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس ارشاد کی تفصیل پر غور
کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نماز میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ اللہ
تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔
ذہن کا اللہ تعالیٰ کی
طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے۔ اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔ قیام
صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر زندگی کے ہر
شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہنے کا عمل جاری و ساری ہے۔
اس کتابچہ میں سوال و جواب کے آسان طریقے پر بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم اللہ
تعالیٰ کا عرفان کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔
سوال: ایسی نماز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور
خواہشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جائے؟
جواب: نماز کی فرضیت ہمیں
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور پاکﷺ پر نماز
کب فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت سے پہلے ہی ایسا
ذہن عطا فرمایا تھا جس کا رخ نورانی دنیا کی طرف تھا اور نورانی دنیا کی طرف متوجہ
رہنے کے لئے حضورﷺ نے وہ تمام اعمال و اشغال ترک فرما دیئے تھے جن سے ذہن کثیف دنیا
کی طرف زیادہ مائل رہتا تھا۔ حضورﷺ کی مقدس زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپﷺ نے کبھی
جھوٹ نہیں بولا، کبھی خیانت نہیں کی۔ آپﷺ سے کبھی ایسا کوئی عمل سرزد نہیں ہوا جو
بے حیائی کے زمرے میں آتا ہو۔ آپﷺ نے ہمیشہ بے کسوں کی دستگیری کی اور اس کے ساتھ
ہی ساتھ گوشہ نشیں ہو کر اور ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔
اور آپﷺ نے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی زیادہ مرکوز فرمائی کہ قربت سے
سرفراز ہوئے اور معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم نے بندے سے جو دل
چاہا باتیں کیں اور جو کچھ دل نے دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔‘‘
(القرآن)
نماز میں حضور قلب کے لئے
ضروری ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ جس حد
تک حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہو گا اسی مناسبت سے نماز میں حضوری
نصیب ہو جائے گی۔ قلب میں جلا پیدا کرنے کے لئے ان چیزوں سے دوری پیدا کرنی ہو گی
جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ ہمیں اس دماغ کو رد کرنا ہو
گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا دماغ ہے۔ اس دماغ سے آشنائی حاصل کرنا ہو گی جو جنت
کا دماغ ہے اور جس میں تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ یہی دماغ روح کا دماغ ہے۔ آسان
الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کر لیتا
اس وقت تک نماز میں حضور قلب نصیب نہیں ہو گا۔
سوال: روح کا عرفان کیسے
حاصل کیا جائے؟
جواب: حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے نبوت کے اعلان سے پہلے دنیاوی دلچسپیوں سے عارضی طور پر تعلق خاطر ختم
کر کے بستی سے باہر بہت دور ویرانے میں گوشہ نشینی اختیار کر کے غار حرا میں اپنی
تمام ذہنی صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر مرکوز فرمایا جس کے نتیجے میں حضورﷺ روح سے
واقف ہو گئے۔
روح سے واقفیت حاصل کرنے
کے لئے ضروری ہے کہ دنیاوی دلچسپیاں کم کر کے زیادہ سے زیادہ وقت ذہن کو اللہ کی
طرف متوجہ رکھا جائے۔ روحانیت میں ایک نقطے پر توجہ کو مرکوز کرنے کا نام مراقبہ
ہے۔ یعنی خود آگاہی اور روح سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کرنا ضروری ہے۔
مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرف سے توجہ ہٹا کر ایک ذات اقدس و اکبر سے ذہنی رابطہ
قائم کر لیا جائے۔
جب کسی بندے کا رابطہ
اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی
ہے تو وہ مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ ایسے عمل کا نام ہے جس میں
کوئی بندہ بیداری کی حالت میں رہ کر بھی اس عالم میں سفر کرتا ہے جس کو ہم روحانی
دنیا کہتے ہیں۔ روحانی دنیا میں داخل ہونے کے بعد بندہ اس خصوصی تعلق سے واقف ہو
جاتا ہے۔ جو اللہ اور بندے کے درمیان بحیثیت خالق و مخلوق ہر لمحہ اور ہر آن موجود
ہے۔
سوال: مخلوق کو کیوں پیدا
کیا گیا؟
جواب: اللہ تعالیٰ ایک
چھپا ہوا خزانہ تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے اپنی محبت خاص سے
تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
(حدیث قدسی)
سوال: اللہ تعالیٰ کو
پہچاننے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: پہلے یہ ضروری ہے
کہ ہم خود کو پہچانیں اور ہمیں یہ بات معلوم ہو کہ ہم مخلوق ہیں۔ اور ہمارا پیدا
کرنے والا اللہ ہے اور جو آدمی پیدا ہوتا ہے بالآخر مر جاتا ہے۔ جب مر جاتا ہے تو
گوشت پوست کے جسم کی حیثیت کچھ نہیں رہتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود کو پہچاننا اس وقت
ممکن ہے جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ گوشت پوست کا جسم (Fiction) اور مفروضہ ہے۔ گوشت پوست کے آدمی کا دماغ دو حصوں سے مرکب ہے۔
ایک دماغ سیدھی طرف اور دوسرا الٹی طرف ہے۔ سیدھی طرف کے دماغ کا نام لاشعور اور
الٹی طرف کے دماغ کا نام شعور ہے۔ سیدھی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو
اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھائے اور الٹی طرف کے دماغ میں وہ علوم محفوظ ہیں جو
نافرمانی کے ارتکاب سے وجود میں آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور جب تیرے رب نے
فرشتوں سے کہا کہ میں زمین ایک نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کیا تو زمین
میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم
تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا میں جو کچھ
جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب
چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا، پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔
انہوں نے کہا تو پاک ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایا ہے۔ بے شک
تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم! ان چیزوں کے نام بتا دو، پھر جب
آدم نے ان کے نام انہیں بتائے تو فرمایا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں
آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے اور جو چھپاتے
ہو اسے بھی جانتا ہوں۔‘‘
(آیت ۳۰۔۳۳، سورہ البقرہ)
آیت مبارکہ سے پتہ چلتا
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو وہ علوم سکھا دیئے جو فرشتے نہیں جانتے۔ اس علم کی
اگر درجہ بندی کی جائے تو چھ عنوان بنتے ہیں اور ہر عنوان ایک دائرہ ہے۔ اس طرح یہ
علم چھ دائروں پر محیط ہے۔
سوال: چھ دائرے کیا ہیں؟
جواب: جس طرح کسی مکان کے
لئے بنیاد، کرسی کے لئے چار ٹانگوں اور گاڑی کے لئے پہیوں کا ہونا ضروری ہے اسی
طرح روح کے اندر تین رخ یا ترین پرت کام کر رہے ہیں۔
سوال: تین پرت سے کیا
مراد ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے:
’’ہم نے آدم کو علم
الاسماء سکھا دیئے۔‘‘
جس وقت اللہ تعالیٰ نے
آدم کو علم الاسماء سکھائے اس وقت آدم کے سامنے تین چیزیں تھیں۔ ایک خود آگاہی،
دوسرے فرشتہ اور تیسری وہ ذات حق جس نے علم سکھایا۔ مفہوم یہ ہے کہ جب آدم کو علم الاسماء
سکھایا گیا تو اسے تین علوم منتقل ہوئے۔ اور ہر علم دو رخ سے مرکب ہے۔ اس طرح یہ
علم چھ رخ یا چھ دائروں پر محیط ہے۔ ان چھ رخوں یا چھ نقطوں یا چھ دائروں کو
روحانیت میں لطائف ستہ(Six Generators) کہا جاتا ہے۔ ان چھ جنریٹرز کے نام یہ ہیں:
پہلا۔۔۔۔۔۔جنریٹر نفس
دوسرا۔۔۔۔۔۔جنریٹر قلب
تیسرا۔۔۔۔۔۔جنریٹر روح
چوتھا۔۔۔۔۔۔جنریٹر سر
پانچواں۔۔۔۔۔۔جنریٹر خفی
چھٹا۔۔۔۔۔۔جنریٹر اخفی
پہلے دو دائروں(Generators) نفس اور قلب کو روح حیوانی کہتے ہیں۔ دوسرے دو دائروں روح اور سر
کا نام روح انسانی ہے۔ تیسرے دو دائرے خفی اور اخفی روح اعظم ہے۔
روح حیوانی ان خیالات و
احساسات کا مجموعہ ہے جس کو بیداری کہا جاتا ہے۔ آدمی اس آب و گل کی دنیا میں خود
کو ہر قدم پر کشش ثقل(Force of Gravitation) میں پابند محسوس کرتا ہے۔ کشش ثقل کی زندگی میں کھانا، پینا،
سونا، جاگنا، شادی بیاہ اور دنیاوی سارے کام روح حیوانی کرتی ہے۔
روح انسانی ان احساسات و
کیفیات کا مجموعہ ہے جو زندگی گزارنے کے تقاضے فراہم کرتی ہے۔ اور ہمیں اس بات کی
اطلاع فراہم کرتی ہے کہ اب ہمیں غذا کی ضرورت ہے۔ اور اب ہمیں پانی کی ضرورت ہے۔
ہم ان تقاضوں کا نام بھوک پیاس وغیرہ وغیرہ رکھتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش کا تعلق روح
حیوانی سے ہے لیکن ماں کے دل میں بچوں کی محبت بچوں کی پرورش اچھی سے اچھی تربیت
کا رجحان روح انسانی کے تقاضے ہیں۔ روح انسانی کے تحت احساسات و کیفیات کو ہم خواب
کے نام سے بھی جانتے اور پہچانتے ہیں۔ جب ہم سوتے ہیں تو روح حیوانی کے اوپر نیند
طاری ہو جاتی ہے یعنی جب ہم روح انسانی میں زندگی گزارتے ہیں تو ہمارے لئے ہزاروں
میل کا سفر کرنا اور دیوار میں سے پار ہو جانا یا ہزاروں میل کے فاصلے پر کوئی چیز
دیکھ لینا، دوسروں تک اپنے خیالات پہنچا دینا، مخاطب کے خیالات پڑھ لینا، جنات اور
فرشتوں سے ملاقات کرنا اور مرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات کرنا ممکن ہو جاتا
ہے۔
روح حٰوانی کے اندر رہتے
ہوئے ہم ہر قدم پر مجبور ہیں، پابند ہیں۔
لیکن روح انسانی ہمارے
اوپر آزادی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ ایسا دروازہ جس میں ہمارے اوپر سے کشش ثقل ختم
ہو جاتی ہے۔ روح حیوانی کے حواس میں ہم دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے بلکہ حواس
اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ا گر ہماری آنکھوں کے سامنے کوئی باریک کاغذ بھی رکھ دیا
جائے تو ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کاغذ کی دوسری طرف کیا ہے۔
اس کے برعکس روح انسانی
میں ہمارے حواس اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ ہم زمین کی حدود سے باہر دیکھ لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمٰن میں فرمایا ہے:
’’اے گروہ جنات اور گروہ
انسان! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان
سے۔‘‘
تصوف میں سلطان کا ترجمہ
روح انسانی ہے یعنی انسان کے نادر جب روح انسانی کے حواس کام کرنے لگتے ہیں تو وہ
زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جاتا ہے۔
سوال: روح انسانی سے آشنا
ہونے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: ہمارا روزمرہ کا
مشاہدہ ہے کہ جب پوری توجہ کے ساتھ کسی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں تو باقی دوسری باتیں
عالم بے خیالی میں چلی جاتی ہیں۔ کسی ایک بات پر ہماری توجہ مستقل مرکوز رہے تو وہ
بات پوری ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہم کسی دوست یا رشتہ دار کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس
طرح سوچتے ہیں کہ ہمارا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر اس کی شخصیت میں جذب ہو جائے تو وہ
ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے۔
روح اعظم میں وہ علوم
مخفی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تجلی، مشیت اور حکمت سے متعلق ہیں۔ اس دائرے سے متعارف
بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا عارف ہوتا ہے۔ یہی برگزیدہ بندے ہیں جن کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
’’میرا بندہ اپنی طاعتوں
سے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ یہاں تک کہ میں
وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور
وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے قربت غیب
کی دنیا میں داخل ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ غیب کے عالم میں داخل ہونا یا زمان و مکان
سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی زمان و مکان سے آزاد ہونے کے
طریقے سے واقف ہو۔
آیئے تلاش کریں کہ آدمی
کے حواس زمان ومکان کی گرفت سے کیسے آزاد ہوتے ہیں۔
ہم کسی ایسی کتاب کا
مطالعہ کرتے ہیں جو اتنی دل چسپ ہے کہ ہم ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ کتاب ختم
کرنے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں اور ہمیں وقت گزرنے کا
احساس نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنا طویل وقت کیسے گزر گیا اسی طرح جب ہم
نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں تو وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک کے مطابق
نیند رات ہے اور بیداری دن ہے۔
’’ہم داخل کرتے ہیں رات
کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
(القرآن)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم نکالتے ہیں رات کو
دن میں سے اور دن کو رات میں سے۔‘‘
(القرآن)
تیسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات
پر سے دن کو اور دن پر سے رات کو۔‘‘
(القرآن)
اللہ تعالیٰ کے ان
ارشادات میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رات اور دن میں دو حواس ہیں۔
یعنی ہماری زندگی دو حواسوں میں منقسم ہے یا ہماری زندگی دو حواسوں میں سفر کرتی
ہے۔ ایک حواس کا نام دن ہے، دوسرے حواس کا نام رات ہے۔
دن کے حواس میں ہمارے
اوپر زمان ومکان کی جکڑ بندیاں مسلط ہیں۔ اور رات کے حواس میں ہم زمان و مکان کی
قید سے آزاد ہیں۔
قانون یہ بنا کہ اگر کوئی
انسان اپنے اوپر رات اور دن کے وقفے میں رات کے حواس غالب کرے تو وہ زمان و مکان
کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور زمان و مکان سے آزادی دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ
ہے۔
قرآن پاک نے اس پروگرام
اور اس عمل کا نام ’’قیام صلوٰۃ‘‘ رکھا ہے جس کے ذریعے دن کے حواس سے آزادی حاصل
کر کے رات کے حواس میں سفر کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے کہ
نماز قائم کرنے کا لازمی نتیجہ دن کے حواس کی نفی اور رات کے حواس میں مرکزیت حاصل
ہونا ہے۔ نماز کے ساتھ لفظ ’’قائم کرنا‘‘ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نماز
اپنی اس بنیادی شرط کو پورا نہیں کرتی تو وہ کسی شخص کو رات کے حواس سے متعارف کرا
دے تو وہ حقیقی نماز نہیں ہے۔
آدمی جب مراقبہ کرتا ہے
تو اس کے اوپر سے دن کے حواس کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ بیدار رہتے ہوئے بھی
ٹائم اسپیس سے آزاد حواس (رات کے حواس) میں چلا جاتا ہے۔ جو دراصل غیبی انکشافات
کا ذریعہ ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور واقعہ سامنے لانا بھی
نماز کی تشریح اور وضاحت میں معاون ثابت ہو گا۔ کسی جنگ میں دشمن کا ایک تیر حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کی پنڈلی میں پیوست ہو گیا۔ جب اس تیر کو نکالنے کی کوشش کی گئی
تو حضرت علیؓ نے تکلیف محسوس کی اور فرمایا:
’’میں نماز قائم کرتا
ہوں۔‘‘
حضرت علیؓ نے نیت باندھی
اور لوگوں نے تیر کھینچ کر مرہم پٹی کر دی۔ حضرت علیؓ کو اس بات کا احساس تک نہ
ہوا کہ تیر نکال کر مرہم پٹی کر دی گئی ہے۔
اس واقعہ سے یہ بات پوری
طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قیام نماز میں ان حواس کی نفی ہو جاتی ہے جن میں تکلیف،
جراحت اور پابندی موجود ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب نماز کی نیت باندھی تو
وہ دن کے حواس سے نکل کر رات کے ان حواس میں پہنچ گئے جو انسان کو غیب کی دنیا میں
لے جاتے ہیں۔
روحانیت کی بنیاد اس
حقیقت پر قائم ہے کہ انسان کے اندر دو حواس، دو دماغ اور دو زندگیاں سرگرم عمل ہیں۔
جیسے ایک ورق کے دو صفحات ہوتے ہیں دو صفحے الگ الگ ہونے کے باوجود ورق کی اپنی
حیثیت ایک ہی رہتی ہے۔ دو حواس یا دو زندگیوں میں سے ایک کا نام پابندی ہے اور
دوسری کا نام آزادی ہے۔ پابند زندگی دن، بیداری اور شعور ہے اور آزاد زندگی رات،
سکون، اطمینان قلب اور لاشعور ہے۔
راحت و سکون اور غیب کی
دنیا میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر اس دنیا کی موجودگی کا یقین ہو۔
یقین ہونا اس لئے ضروری ہے کہ بغیر یقین کے ہم کسی چیز سے استفادہ نہیں کر سکتے۔
پانی پینے سے پیاس اس لئے بجھ جاتی ہے کہ ہمارے یقین کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ
پانی پیاس بجھا دیتا ہے ہم زندہ اس لئے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہے کہ ہم
زندہ ہیں۔ جس وقت، جس لمحے اور جس آن زندگی سے متعلق یقین ٹوٹ جاتا ہے، آدمی مر
جاتا ہے۔ کسی آدمی کے ذہن میں یہ بات آ جائے اور یقین کا درجہ حاصل کر لے کہ اگر
میں گھر سے باہر نکلوں گا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا تو وہ گھر سے باہر نہیں
نکلے گا۔ اسی طرح اگر کسی آدمی کے اندر یہ بات یقین کا درجہ حاصل کرلے کہ کھانا
کھانے کے بعد وہ بیمار ہو جائے گا تو وہ کھانا نہیں کھائے گا۔
زندگی کا محاسبہ کیا جائے
تو زندگی کے کسی بھی عمل میں ہم اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور ربوبیت کا انکار نہیں
کر سکتے۔ اس یقین کا مشاہدہ بنانے کے لئے قرآن نے قیام صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔ مقام
تفکر ہے کہ غار حرا میں یکسوئی کے ساتھ عبادت و ریاضت(مراقبہ) میں مشغول رہنے کے
بعد جب رسول اللہﷺ پر غیب منکشف ہوا، اس وقت نماز فرض ہوئی ہے۔ اس سے پہلے امت
محمدیہﷺ پر نماز فرض نہیں تھی۔ حضورﷺ کے وارث اولیاء اللہ غار حرا کی زندگی سامنے
رکھ کر مراقبہ کی تلقین کرتے ہیں۔ مراقبہ اس عمل اور کوشش کا نام ہے جس سے انسان
کے اندر یقین کی وہ دنیا روشن ہوتی ہے جس پر غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کا
دارومدار ہے۔ مراقبہ وہ پہلی سنت ہے جس کے نتیجے میں قرآن نازل ہوا۔ اور اللہ
تعالیٰ نے حضور خاتم النبیینﷺ پر اپنی نعمتیں پوری فرمائیں۔ اللہ کو یکتا اور اللہ
کے حبیب محمدﷺ کو اللہ کا سچا رسول ماننے والا جب کوئی بندہ مراقبہ کی کیفیات میں
صلوٰۃ قائم کرتا ہے تو اس کے اوپر غیب منکشف ہو جاتا ہے۔
سوال: مراقبہ کیا ہے؟
جواب: ہم یہ بات بتا چکے
ہیں کہ انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ جنت کا دماغ ہے یعنی اس کے
ذریعے کوئی بندہ جنت سے آشنا ہوتا ہے۔ اور جنت کی زندگی گزارتا ہے۔ دوسرا دماغ وہ
دماغ ہے جو آدم کی نافرمانی کے بعد وجود میں آیا۔ اور آدم نے نافرمانی کے بعد
محسوس کیا کہ میں ننگا ہوں۔ ان محسوسات یا نافرمانی کے نتیجے میں جنت نے آدم کو رد
کر دیا اور آدم زمین پر پھینک دیا گیا۔ تصوف میں جتنے اسباق اور اوراد و وظائف اور
اعمال و اشغال اور مشقیں رائج ہیں ان سب کا منشاء یہ ہے کہ آدم زاد اپنا کھویا ہوا
وطن واپس حاصل کرے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تمام اوراد و وظائف اور
اعمال و اشغال اور مشقوں کو نماز میں سمو دیا ہے۔ ہم جب نماز کی حقیقت اور نماز کے
ارکان پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز میں زندگی
کے ہر عمل کو سمو دیا گیا ہے۔ چونکہ قیام صلوٰۃ کا ترجمہ ربط قائم کرنا ہے اس لئے
ضروری ہوا کہ کوئی ایسا عمل تجویز کیا جائے جس عمل میں زندگی کی تمام حرکات و
سکنات موجود ہوں اور ہر عمل اور ہر حرکت کے ساتھ آدمی کا رابطہ اللہ کے ساتھ قائم
ہو۔
مراقبہ کے معنی ہیں کہ
تمام طرف سے ذہن ہٹا کر ایک نقطہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنا اور یہ مرکزیت اللہ
تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ جب تک کوئی بندہ ذہنی مرکزیت کے قانون سے واقف نہیں ہوتا
وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم نہیں کر سکتا۔ ربط اور تعلق قائم کرنے کے لئے
مراقبہ ضروری ہے۔ مراقبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پہلی سنت ہے جس کے نتیجے
میں حضرت جبرئیلؑ سے رسول اللہﷺ کی گفتگو ہوئی اور ہادی برحق سرور کائنات سرکار دو
عالم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قرآن نازل ہوا۔
سوال: مراقبہ کیسے کیا
جائے؟
جواب: حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا ہر امتی یہ بات جانتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے غار حرا میں طویل عرصے
تک عبادت و ریاضت کی ہے۔ دنیاوی معاملات، بیوی بچوں کے مسائل، دوست احباب کے
تعلقات سے عارضی طور پر رشتہ منقطع کر کے یکسوئی کے ساتھ کسی گوشے میں بیٹھ کر
اللہ کی طرف متوجہ ہونا مراقبہ ہے۔
صاحب مراقبہ کے لئے ضروری
ہے کہ جس جگہ مراقبہ کیا جائے وہاں شور و شغب نہ ہو، اس جگہ اندھیرا ہو۔ جتنی دیر
اس جگہ گوشے میں بیٹھا جائے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ذہن کو اللہ تعالیٰ کی
طرف متوجہ رکھے۔ بند آنکھوں سے یہ تصور کرے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔
۱۔
مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے۔
۲۔
کوشش کی جائے کہ کسی قسم کا نشہ استعمال نہ کیا جائے اور اگر عادت ہے تو کم سے کم
استعمال میں آئے۔
۳۔
کھانا آدھا پیٹ کھایا جائے۔
۴۔
ضرورت کے مطابق نیند پوری کی جائے اور زیادہ دیر بیدار رہے۔
۵۔
بولنے میں احتیاط اختیار کی جائے، صرف ضرورت کے مطابق بولا جائے۔
۶۔
عیب جوئی اور غیبت کو اپنے قریب نہ آنے دے۔
۷۔
جھوٹ کو اپنی زندگی سے یکسر خارج کر دے۔
۸۔
مراقبہ کے وقت کانوں میں روئی رکھے۔
۹۔
مراقبہ ایسی نشست سے کرے جس میں آرام ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ کمر سیدھی رہے اس
طرح سیدھی رہے کہ ریڑھ کی ہڈی میں تناؤ واقع نہ ہو۔
۱۰۔
مراقبہ کرنے سے پہلے ناک کے دونوں نتھنوں سے آہستہ آہستہ سانس لیا جائے اور سینہ
میں روکے بغیر خارج کر دیا جائے۔
سانس کا یہ عمل سکت اور
طاقت کے مطابق پانچ سے اکیس بار تک کرے۔
۱۱۔
سانس کی مشق شمال رخ بیٹھ کر کی جائے۔
۱۲۔
پانچ وقت نماز ادا کرنے سے پہلے مراقبہ میں بیٹھ کر یہ تصور قائم کیا جائے کہ مجھے
اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی اپنی
زندگی کے ہر عمل اور ہر حرکت میں یہ دیکھنے لگتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا
ہے۔
مراقبہ کی یہ کیفیت مرتبہ
احسان کا ایک درجہ ہے۔ جب کوئی بندہ اس کیفیت کے ساتھ مراقبہ کرتا ہے تو اس کے
اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔ فرشتے
اس سے ہم کلام ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ رکوع و سجود میں شریک ہوتے ہیں۔ یہی وہ
صلوٰۃ(مراقبہ) ہے جو حضور علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق مومن کی معراج ہے۔۔۔۔۔۔!
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔