Topics
اللہ تعالیٰ اپنا پیغام
پہنچانے کے لئے چراغ سے چراغ جلاتا ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں
پہنچتی رہتی ہے۔
تمام روحانی لوگ قدرت کے
وہ ہاتھ ہیں جو یہ مشعل لے کر چلتے ہیں اس روشنی سے وہ لوگ اپنی ذات کو بھی روشن
رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ روشنی پہنچاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک روحانی ہستی، ایسا
ہی ایک روحانی ہاتھ ایسی ہی ایک روشن مشعل سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
وارث ابدالِ حق، سلسلہ عظیمیہ کے بانی مبانی رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے روح رواں حسن
اخریٰ محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ ہے۔
محمد عظیم: یہ گھریلو نام
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی پیدائش کے بعد رکھا گیا۔
سید: آپ کا خاندانی سلسلہ
حضرت امام حسن عسکری سے قائم ہے۔
برخیاء: شوقِ شعر و سخن
تھا۔ برخیاءؔ تخلص ہے۔
قلندر بابا اولیاء: عرفیت
ہے مرتبہ قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور
حاملان عرش میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اور یہی عرفیت یعنی ’’قلندر بابا اولیاء‘‘
عامتہ الناس میں زبان زد عام ہے۔
جائے پیدائش: ۱۸۹۸ ء میں قصبہ
خورجہ ضلع بلند شہر یوپی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت: آپؒ نے
ابتدائی تعلیم محلّہ کے مکتب سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میٹرک
’’بلند شہر‘‘ سے کیا۔
اور انٹرمیڈیٹ کے لئے
داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔
روحانی تربیت: اللہ
تعالیٰ جب کسی بندے کو اپنے کام کے لئے منتخب کر لیتا ہے تو اس کی تربیت کا پورا
پور اانتظام کرتا ہے۔ یہی کچھ قلندر بابا اولیاءؒ کے ساتھ ہوا۔ علی گڑھ میں قیام
کے دوران آپ کا میلان درویشی کی طرف بڑھ گیا۔ آپؒ وہاں مولانا کابلیؒ کے قبرستان
کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ صبح تشریف لے جاتے اور رات کو واپس آتے۔
تربیت کا دوسرا دور حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کے نانا بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی سرپرستی میں شروع ہوا
ناگپور میں ۹
سال تک تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔
شادی: تربیت کے دوران ہی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ گھر کا نظام چلانے اور
بہن بھائیوں کی تربیت کا پیش نظر رکھتے ہوئے نانا تاج الدین ناگپوریؒ کے ارشاد کے
مطابق ان کی شادی ہوئی۔
ہجرت: تقسیم ہند کے بعد
قلندر بابا اولیاءؒ مع اہل و عیال والد اور بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی تشریف لے
آئے۔
ذریعہ معاش: کراچی میں
’’اردو ڈان‘‘ میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ
’’نقاد‘‘ میں کام کرتے رہے۔
بیعت: سلسلہ سہروردیہ کے
بزرگ قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ (بڑے حضرت جی) جب ۱۹۵۶ ء میں کراچی
تشریف لائے تو قلندر بابا اولیاءؒ نے بیعت ہونے کی درخواست کی۔ بڑے حضرت جیؒ نے
فرمایا کہ تین بجے آؤ۔ سخت سردی کا عالم تھا۔ قلندر بابا اولیاءؒ گرانڈ ہوٹل
میکلورڈ روڈ کی سیڑھیوں پر رات دو بجے جا کر بیٹھ گئے۔ ٹھیک تین بجے بڑے حضرت جیؒ
نے دروازہ کھولا اور اندر بلا لیا۔ سامنے بٹھا کر پیشانی پر تین تین پھونکیں
ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہو گیا۔ دوسری پھونک میں عالم ملکوت و
جبروت سامنے آ گیا اور تیسری پھونک میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے عرش معلیٰ کا
مشاہدہ کیا۔
حضرت ابوالفیض قلندر علی
سہروردیؒ نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتے میں پوری کر کے خلافت عطا فرما دی۔
اس کے بعد حضرت شیخ نجم
الدین کبری رحمتہ اللہ علیہ کی روح پر فتوح نے روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ
سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہ راست علم لدنی کا
علم عطا فرمایا۔ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمت اور نسبت کے ساتھ
بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز خود اللہ تعالیٰ نے سکھائے۔
’’جن پیغمبروں اور اولیاء
اللہ کی ارواح طیبات سے اور جن سلسلوں سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کو نسبت اویسیہ
کے تحت فیض حاصل ہوا ہے۔ ان کی تفصیل کتاب’’تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ ‘‘ میں بیان
کی گئی ہے۔‘‘
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
کا وصال ۷ ۲
جنوری ۱۹۷۹
ء کو ہوا۔
تصنیفات: حضور قلندر بابا
اولیاءؒ کے فیض کو عام کرنے کے لئے سلسلہ عظیمیہ کو تین کتابیں بطور ورثہ منتقل
ہوتی ہیں۔
۱۔
علم و عرفان کا سمندر۔ رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ
۲۔
اسرار اور رموز کا خزانہ ’’لوح و قلم‘‘
۳۔
کشف و کرامات اور ماورائی علوم کی توجیہات پر مستند کتاب ’’تذکرہ بابا تاج الدین
اولیاء‘‘
حامل علم لدنی، واقف
اسرار کن فیکون، مرشد کریم، ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاءؒ صاحب کشف و کرامت
بزرگ تھے مگر آپؒ کے مزاج میں احتیاط بہت زیادہ تھی۔ آپ کرامت سے طبعاً گریز
فرماتے تھے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
’’خرق عادت یا کرامت کا
ظہور کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے جب کسی بندہ کا شعوری نظام سے خود اختیاری طور پر
مغلوب ہو جاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزدہونے لگتی ہیں جو عام طور پر نہیں
ہوتیں۔ اور لوگ انہیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں۔ جو سب بھان متی ہے۔
اعمال و حرکات میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے اور
کبھی کبھی غیر اختیاری طور پر بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ خرق عادت آدمی کے اندر ایک
ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جا سکتا ہے۔‘‘
موجودہ دور سائنسی دور
ہے۔ انسان شعوری طور پر اتنا ترقی کر چکا ہے کہ وہ ہر چیز کی حقیقت کو کھلی آنکھ
سے دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک طرف تو زمین کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کر
رہا ہے تو دوسری طرف آسمانوں کی رفعت کی پیمائش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں وہ ہر
شئے کی حقیقت کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ جس طرح انسان نے ظاہر دنیا میں کامیابیاں
حاصل کی ہیں اسی طرح وہ باطنی یا روحانی دنیا کے حقائق جاننے کا خواہاں ہے۔ سائنسی
ترقی کی وجہ سے انسان کے ذہن کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ اور وہ کسی بات کو اس
وقت قبول کرتا ہے جب اس بات کے متعلق کیوں، کیسے اور کس لئے کے جوابات اسے مل
جائیں۔
انسان نے جس قدر سائنسی
ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہو گیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہو گیا ہے۔
یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے۔ سکون کی تلاش و جستجو میں
انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیر سائنسی طور
طریقوں کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی
سلسلے کی ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی
مقصد کے تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اس سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی
گئی ہیں۔ جدید افکار و نظریات کی وجہ سے یہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام ممالک میں
پھیل رہا ہے۔
سنگ بنیاد: عارف باللہ،
ابدال حق، واقف رموز لامکانی، حامل علم لدنی، بحر تکوین کے امیر البحر سلسلہ
عظیمیہ کے امام، حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیا، حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے دست
کرم سے آپ کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد، سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں شرف قبولیت کے بعد جولائی ۱۹۶۰ ء میں رکھی گئی۔
ایک روز میں نے حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کی خدمت میں سلسلہ عالیہ عظیمیہ کی بنیاد رکھنے کی درخواست پیش
کی۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے یہ درخواست سرور کائنات فخر موجودات سیدنا حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کی۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس درخواست کو
قبول فرما کر سلسلہ عالیہ عظیمیہ قائم کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
خانوادہ سلاسل: سلسلہ
عالیہ عظیمیہ جذب و سلوک روحانی شعبوں پر محیط ہے۔ حضور قلندر باب اولیاءؒ خصوصاً
اکیس سلاسل طریقت کے مربی و مشقی ہیں اور مندرجہ ذیل گیارہ سلاسل کے خانوادہ ہیں:
۱۔
قلندریہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ
۲۔
نوریہ : امام سلسلہ حضرت موسیٰ کاظم رضاؒ
۳۔
چشتیہ: امام سلسلہ حضرت ممشاد دینوریؒ
۴۔
نقشبندیہ: امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند خواجہ باقی باللہؒ
۵۔
سہروردیہ: امام سلسلہ حضرت ابو القاہرؒ
۶۔
قادریہ: امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
۷۔
طیفوریہ: امام سلسلہ حضرت بایزید بسطامیؒ
۸۔
جنیدیہ: امام سلسلہ حضرت ابو القاسم جنید بغدادیؒ
۹۔
ملامتیہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ
۱۰۔
فردوسیہ: امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبریؒ
۱۱۔
تاجیہ: امام سلسلہ حضرت صغریٰ تاج الدینؒ
سلسلہ عظیمیہ میں روایتی
پیری مریدی کا مروجہ طریقہ نہیں ہے۔ نہ اس میں کوئی مخصوص لباس ہے نہ کوئی وضع قطع
مختص ہے۔
خلوص کے ساتھ طلب روحانیت
کا ذوق و شوق ہی طالب کو سلسلہ عظیمیہ سے منسلک رکھتا ہے۔ سلسلہ میں مریدین دوست
کے لفظ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں سخت ریاضتوں، چلوں اور
مجاہدوں کے بجائے ذکر و اشغال نہایت آسان اور مختصر ہیں۔ تعلیم کا محور وہ غار حرا
والی عبادت ہے جہاں سرکار دو عالمﷺ نے طویل عرصہ صرف کیا۔ اس عبادت سے سالک میدان
روحانیت میں بہ آسانی گامزن ہو جاتا ہے۔ جوں جوں اس کا قدم آگے بڑھتا ہے اس پر
تفکر کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔
لاشعور میں ہر سمت بیداری
اور نظر میں اسرار کے پردوں میں جھانکنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زاہد
خشک کے بجائے حق آگاہی کے ایک ہوش مند طالب علم بن جاتا ہے۔ چونکہ امام سلسلہ
ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاءؒ شعبہ تکوین کے اعلیٰ ترین عہدے اور قلندریت کے انتہاتی
بلند مقام پر فائز تھے اس لئے سلسلہ عظیمیہ میں قلندری رنگ مکمل طور پر موجود ہے۔
قلندر عارف باللہ، علم
الٰہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ حق کی عکاسی کرتا ہے۔ انوار محمدی کے طفیل وہ خالق و
مخلوق کے درمیان رابطہ بن جاتا ہے کہ ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل فیضان
حق سے سیراب ہوتا ہے۔ توحیدی سکون اور حق آگہی کے کیف میں زندگی گزارتا ہے۔ غیب کی
ہر راہ اپنی انتہا تک اس کے لئے کھلی ہوتی ہیں۔
قلندر خزائن کن کے انوار
کو پا لیتا ہے۔ اس کی روح کو ایک انبساط کی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر غیر اللہ
بشمول خود کی ’’لا‘‘ کہہ کے ’’الٰہ‘‘ کا حسن دیکھ لیتا ہے۔
مشاہدہ کرنے والوں نے
دیکھا کہ قلندر باباؒ کی محفل میں ان کے دستر خوان پر شیعہ، سُنی، دیوبندی، بریلوی
غرض کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ بصد آداب بیٹھے ہوئے نظر آتے تھے۔ قادری، چشتی، نقش
بندی، سہروردی ہر سلسلہ روحانی کے تشنہ لبوں کی حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی جوئے
کرم سے سیرابی ہوتی تھی، قلندر بابا اولیاءؒ کے دریائے فیض کی طغیانی کی یہ کیفیت
تھی کہ جس نے بھی ان کا دامن پکڑ لیا اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل کر دیا۔ جس کو
قلندر باباؒ نے محبت اور کرم کی نگاہ سے دیکھ لیا اس کی دنیاہی بدل گئی جس کو ان
کی طرز فکر منتقل ہو گئی اس کے نصیب جاگ اٹھے۔ حق آگہی کے شرف سے مشرف ہو گیا۔
مستی خود آگہی قلندر کی
ایک شان ہوتی ہے۔ اس کو ذات اور صفات دونوں کی آگہی حاصل ہوتی ہے وہ اپنے وجود سے
گم اور حق میں ضم ہو جاتا ہے۔ یہ ادائے قلندرانہ ہے کہ درویشانہ بے نیازی کے ساتھ
تحیر اور لب بندی اس کا شیوہ ہوتی ہے۔
قلندر شہید خفی ہو کر
جیتے جی مر کر۔ اپنے وجود میں سبحانیت کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ دمادم دم کے کیف دائمی
سے سرشار ہوتا ہے۔ حضور کے رشتے میں منسلک من عرف نفسہٗ فقد عرفہ ربہٗ کے بھید کا
رازدان ہوتا ہے۔ اس کے وجودی کثافتوں کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ حق کو حقانیت میں
دیکھتا ہے۔
لازوال ہستی اپنی قدرت کا
فیضان جاری و ساری رکھنے کے لئے ایسے بندے تخلیق کرتی ہے جو دنیا کی بے ثباتی کا
درس دیتے ہیں خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا اور آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا ان
کا مشن ہوتا ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے وارث ابدال حق حسن اخریٰ محمد عظیم برخیاء امام سلسلہ عظیمیہ قلندر
بابا اولیاءؒ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کو محض روٹی کپڑے کے حصول اور
آسائش و زیبائش ہی کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے
کہ وہ خود کو پہچانے اپنے رحمت للعالمین محسنﷺ کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرے
جس کے جود و کرم اور رحمت سے ہم ایک خوش نصیب قوم ہیں اور ان کی تعلیمات سے انحراف
کے نتیجے میں ہم دنیا کی بدنصیب اور بدترین قوم بن چکے ہیں۔
۱۔
صراط مستقیم پر گامزن ہو کر دین کی خدمت کرنا۔
۲۔
رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کر کے آپﷺ کے روحانی مشن کو فروغ دینا۔
۳۔
مخلوق خدا کی خدمت کرنا۔
۴۔
علم دین کے ساتھ ساتھ لوگوں کو روحانی اور سائنسی علوم حاصل کرنے کی ترغیب دینا۔
۵۔
لوگوں کے اندر ایسی طرز فکر پیدا کرنا جس کے ذریعہ وہ روح اور اپنے اندر روحانی
صلاحیتوں سے باخبر ہو جائیں۔
۶۔
تمام نوع انسانی کو اپنی برادری سمجھنا، بلاتفریق مذہب و ملت ہر شخص کے ساتھ خوش
اخلاقی سے پیش آنا اور حتی المقدور ان
کے ساتھ ہمدردی کرنا۔
سلسلہ عظیمیہ کے تمام
دوستوں کو حسب ذیل احکامات پر پابند رہنا ضروری ہے۔
۱۔
ہر حال و ہر قال میں اپنا روحانی تشخص برقرار رکھیں۔
۲۔
چھوٹے اور بڑے کا امتیاز کئے بغیر سلام میں پہل کریں۔
۳۔
اللہ کی مخلوق کو درست رکھیں۔
۴۔
سلسلہ میں رہ کر آپس میں اختلاف سے گریز کریں۔
۵۔
اپنے روحانی استاد(شیخ) کی ہر حالت میں بلا چون و چرا عمل کریں۔
۶۔
کسی بھی سلسلہ کے مقابلے میں اپنے سلسلے کو برتر ثابت نہ کریں اس لئے کہ تمام
راستے اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔
۷۔
سلسہ میں جو شخص گند پھیلانے یا منافقت کا سبب بنے اسے سلسلے سے خارج کر دینا
چاہئے۔
۸۔
ذکر و فکر کی جو تعلیم اور ہدایات دی جائیں ان پر پابندی سے عمل کریں۔ مراقبہ میں
کوتاہی نہ کریں۔
۹۔
قرآن پاک کی تلاوت کریں، معنی اور مفہوم پر غور کریں۔
۱۰۔
صلوٰۃ(نماز) میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط قائم کریں۔
۱۱۔
کسی دوسرے سلسلے کے طالب علم یا سالک کو سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں طالب کی حیثیت سے
قبول کیا جا سکتا ہے۔
۱۲۔
جو شخص پہلے سے کسی سلسلے میں بیعت ہو اسے سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں بیعت نہ کریں۔
یہ قانون ہے کہ ایک شخص دو جگہ بیعت نہیں ہو سکتا۔
۱۳۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ سے بیعت حاصل کر لینے کے بعد نہ تو بیعت توڑی جا سکتی ہے اور
نہ ہی کوئی فرد اپنی مرضی سے فرار حاصل
کر سکتا ہے۔ اس لئے بیعت کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں جو شخص سلسلہ میں
داخل ہونا چاہتا ہے اس سے کہا
جائے کہ پہلے خوب اچھی طرح دیکھ بھال کر لی جائے کہ ہم اس لائق ہیں بھی یا نہیں۔
۱۴۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ذمہ دار حضرات پر لازم ہے کہ وہ کسی کو اپنا مرید نہ
کہیں۔’’دوست‘‘ کے لقب سے یاد کریں۔
۱۵۔
سلسلے کا کوئی صاحب مجاز مجلس میں گدی نشین ہو کر نہ بیٹھے نشست و برخاست عوام کی
طرح ہو۔
۱۶۔
نوع انسان میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب آپس میں آدم کے ناطے خالق کائنات کے
تخلیقی راز و نیاز ہیں۔ آپس میں
بھائی بہن ہیں۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے
اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اللہ کی صفات
کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو جس کے اندر اللہ کے اوصاف کا عکس نمایاں ہو، جو اللہ
کی مخلوق کے کام آئے۔ کسی کو اس کی ذات
سے تکلیف نہ پہنچے۔
۱۷۔
شک کو دل میں جگہ نہ دیں۔ جس فرد کے دل میں شک جاگزیں ہو، وہ عارف کبھی نہیں ہو
سکتا۔ اس لئے کہ شک شیطان کا
سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ آدم زاد کو اپنی روح سے دور کر دیتا ہے۔
روحانی قدروں سے دوامی، آدمی
کے اوپر علم و آگاہی اور عرفان کے دروازے بند کر دیتی ہے۔
۱۸۔
مصور ایک تصویر بناتا ہے۔ پہلے وہ خود اس تصویر کے نقش و نگار سے لطف اندوز ہوتا
ہے۔ مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر سے
اگر خود مطمئن نہ ہو تو دوسرے کیوں کر متاثر ہونگے۔ نہ صرف یہ کہ دوسرے لوگ متاثر
نہیں ہوں گے بلکہ تصویر کے خدوخال
مذاق کا ہدف بن جائیں گے اور اس طرح خود مصور بے چینی، اضطراب و اضمحلال کے عالم
میں چلا جائے گا۔ ایسے کام
کریں کہ آپ خود مطمئن ہوں۔ آپ کا ضمیر مردہ نہ ہو جائے اور یہی وہ راز ہے جس کے
ذریعہ آپ کی ذات دوسروں کے
لئے راہ نمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
۱۹۔
ہر شخص کو چاہئے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں، اخلاقی اور معاشرتی قوانین کا
احترام کرتے ہوئے پوری پوری
جدوجہد اور کوشش کرے لیکن نتیجہ پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے اس
لئے کہ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا
ہے۔ حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں آدمی اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بے شک
اللہ قادر مطلق ہے اور ہر
چیز پر محیط ہے۔ حالات پر اس کی گرفت ہے وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے حالات میں
تغیر واقع ہو جاتا ہے۔ معاش
کے حصول میں معاشرتی اخلاقی اور مذہبی قدروں کا پورا پورا احترام کرنا ہر شخص کے
اوپر فرض ہے۔
۲0۔
اگر تم کسی کی دل آزار کا سبب بن جاؤ تو اس سے معافی مانگ لو، قطع نظر اس کے کہ وہ
تم سے چھوٹا ہے یا بڑا۔ اس لئے کہ
جھکنے میں عظمت پوشیدہ ہے۔
۲۱۔
تمہیں کسی کی ذات سے تکلیف پہنچ جائے تو اسے بلاتوقف معاف کر دو۔ اس لئے کہ انتقام
بجائے خود ایک صعوبت ہے
انتقام کا جذبہ اعصاب مضمحل کر دیتا ہے۔
۲۲۔
غصہ کی آگ پہلے غصہ کرنیوالے کے خون میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اور اس کے اعصاب
متاثر ہو کر اپنی
انرجی(Energy)
ضائع کر دیتے ہیں۔
یاد رکھئے۔۔۔۔۔۔شمع پہلے
خود جلتی ہے اور جب وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ آگ کی نذر کر کے خود کو فنا کر
دیتی ہے تو اس ایثار پر پروانے شمع پر جان نثار ہو جاتے ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ تما م نوع
انسانی کو ’’متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
کے پلیٹ فارم پر جمع ہعنے کی دعوت دیتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔