Topics

زمین ناراض ہے

زمین ایک ہے۔ آسمان سات اور دن چھ ہیں جب کہ شعوری حواس بتاتے ہیں کہ دن چھ نہیں سات ہیں۔ جمعرات بدھ ، منگل، پیر، اتوار، سینچر اور جمعہ۔

دن چھ ہیں یا آسمان سات ان کا تذکرہ اسی وقت ہوتا ہے جب بندہ بشر زمین پر زندہ ہو۔ بشر کی زندگی اس وقت قابل بیان ہے جب وہ زمین پر پیدا ہو۔ زمین پر پیدائش اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ماں نہ ہو۔۔۔

اور ماں کا وجود اپنی ماں کے وجود کے تابع ہے۔ ماں کی ماں یعنی نانی دادی کا وجود ماں کے پیٹ پر منحصر ہے کوئی بھی ہو ہر فرد ماں کا پیٹ ہے۔ نشوونما دینے نسل چلانے نسل کے لئے وسائل فراہم کرنے اور بطن مادر کو تخلیقی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے والی ایجنسی زمین ہے۔

زمین مٹی ہے۔۔۔۔۔۔

زمین مٹی ہے تو زمین میں سے پیدا ہونے والی ہر شئے مٹی ہے۔ مٹی نہ ہوتی تو زمین پر لہلہاتے کھیت ہرگز نہ ہوتے۔ مٹی نہ ہوتی تو پھول نہ ہوتے۔ پھولوں میں رنگ نہ ہوتے۔ رنگوں میں اگر شوخی نہ ہوتی تو کشش نہ ہوتی۔ کشش نہ ہوتی، خزاں اور بہار کا تصور ختم ہو جاتا۔ خزاں اور بہار کا عمل نہ ہوتا، عاشق و معشوق کی وارفتگی عدم کا فسانہ بن جاتی۔ کہکشانی چمک زمین پر نہ اترتی تو اندھیری رات میں لاکھوں جگنو چراغ نہ جلتے بجھتے۔ چڑیوں کی چہک نہ ہوتی تو فضا میں سناٹے کے علاوہ کچھ نہ ملتا۔ پپیہے کی آواز کانوں میں رس نہ گھولتی تو دل کی دنیا بے قراری کے عمیق سمندر میں ڈوب جاتی۔ بانسری فراق کے گیت نہ گاتی تو آنسو خشک ہو جاتے۔ ہریالی نہ ہوتی تو دنیا ویرانہ بن جاتی۔ القصہ مختصر۔

شجر حجر آبشاریں، ندی ، نالے، دریا، سمندر، چرند پرند، حشرات الارض سب زمین کی وجہ سے ہیں۔ جمادات میں لوہا سیسہ تانبا پیتل سونا چاندی کیا ہیں۔

زمین کی طبقاتی تقسیم میں جس طرح زمین میں سے نکلے ہوئے لوہے کے ڈھیلوں کو بھٹی میں پگھلا کر لوہا اور فولاد بنا لیا جاتا ہے اسی طرح تانبا، پیتل اور المونیم کو پگھلا کر برتن بنا لئے جاتے ہیں۔ چاندی اور سونا بھی جمادات سے متعلق ہیں۔ سونے کی ریت کو یا سونے کے ذرات کو بھٹی میں پگھلا کر سونے میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ اس دھات کی انسانی معاشرے میں زیادہ قدر و قیمت ہے حالانکہ سونا نہ کھلایا جا سکتا ہے اور نہ سونے سے پیاس بجھتی ہے۔

اے انسان!

ذرا سوچ تو، کہاں جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے؟ کبھی تم نے سوچا ہے کہ زمین کے ذرات ہر قدم پر تیرے محکوم ہیں۔ تیرے پیدا ہونے سے پہلے ہر چیز اس میں سونا چاندی سبھی شامل ہے پہلے سے موجود تھی۔ تو جو یہاں ایک محدود وقت کے لئے مسافر ہے۔۔۔۔۔۔

تو نے اپنی ذات سے زیادہ مٹی کے ذرات کو اہمیت دی۔

اے انسان!

زمین تجھ سے ناراض ہے کہ تو زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ زمین میں سے کھاتا پیتا ہے۔ زمین پر سوتا جاگتا ہے اور تو نے صرف زمین کے سنہرے ذرات کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ تو ان ذرات کے پیچھے اس طرح دیوانہ بن گیا ہے کہ تجھے اپنا ہوش بھی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔

اور جب تجھے اپنا ہوش بھی نہیں رہا تو تیرے اندر اربوں کھربوں ذرات کو فیڈ کرنے والی انرجی چند سنہری ذارت میں خرچ ہو گئی ہے۔ جب کہ تیری زندگی چند مخصوص ذرات پر قائم نہیں۔ زمین کے اوپر زمین کے اندر اور فضا  میں بکھرے ہوئے تیرتے ہوئے سنکھوں ذرات پر قائم ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام عازم سفر ہوئے تو ایک یہودی بھی ساتھ لگ گیا۔ درخواست کی کہ میں سفر میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ چلتے چلتے جب سورج کی تپش اور دھوپ کی تمازت بڑھی تو دونوں نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا۔ کھانے کے لئے دونوں نے اپنے اپنے دسترخوان کھولے۔ یہودی نے یہ دیکھ کر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس دو روٹیاں ہیں اور یہودی کے پاس تین روٹیاں ہیں۔ اس نے دسترخوان سمیٹ لیا اور کہا کہ میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں۔ زیادہ تھک گیا ہوں، کھانا کھانے کے لئے ساتھ پانی نہیں ہے اس لئے مہربانی فرما کر آپ پانی لے آئیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانی لینے کے لئے چلے گئے۔ یہودی نے جلدی سے ایک روٹی کھا لی۔ دوبارہ جب کھانے کے لئے بیٹھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تیرے دسترخوان میں تین روٹیاں تھیں۔ یہودی نے کہا آپ کو شک گزرا ہے، روٹیاں دو تھیں۔ حضرت عیسیٰ خاموش ہو گئے۔ یہودی کھانا کھانے کے بعد لیٹا تو اس کی آنکھ لگ گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مٹی کی تین ڈھیریاں بنائیں اور پھونک مار دی۔ وہ تینوں ڈھیریاں سونے کے ذرات میں تبدیل ہو گئیں۔ یہودی اٹھا تو سونے کی تین ڈھیریاں دیکھ کر حیران رہ گیا، پوچھا یہ سونا کس کا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ایک ڈھیری تیری ہے، ایک میری ہے اور تیسری اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ہے۔ یہودی فوراً بول پڑا وہ روٹی میں نے کھائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ روٹی تو نے کھائی ہے تو یہ تیسری ڈھیری تیری ہے۔

یہودی سونے کی دو ڈھیریوں کا مالک بن کر بہت خوش ہوا اور اس نے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ کہا، آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ آپ کو سونے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تیسری ڈھیری بھی مجھے دے دیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ سفر شروع کرتے وقت ساتھ رہنے کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کو تو منسوخ کر دے۔ یہودی نے کہا کہ میں اکیلا ہی سفر کر لوں گا آپ جا سکتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا کمبل اٹھایا اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔

یہودی ابھی ڈھیریوں کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ تین آدمی نمودار ہوئے انہوں نے جب سونے کو دیکھا تو قریب آ کر کہا یہ سونا کس کا ہے؟ یہودی نے کہا میرا ہے۔ اب تین میں سے ایک نے کہا کہ یہ سونا تیرا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم تین آدمی ہیں، تین ڈھیریاں ہیں ہم سونے کے حق دار ہیں۔ یہودی نے بڑا واویلا مچایا، غصہ کیا اور پھر خوشامد پر اتر آیا کہ ایسا ظلم نہ کرو، تمہارا اس سونے پر کوئی حق نہیں ہے۔
طے یہ پایا کہ ایک ڈھیری یہودی کو دے دی چائے اور دو ڈھیریاں یہ تینوں تقسیم کر لیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ یہودی بازار میں جائے اور ان تینوں کے لئے کھانا لائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈاکو ہیں شہر میں نہیں جا سکتے۔ یہ پیسے لو اور ہمارے لئے کھانا لے آؤ اور ایک ڈھیری لے کر چلتے بنو۔ یہودی پیچ و تاب کھاتے ہوئے غصے کے عالم میں بازار پہنچا، وہاں سے کھانا خریدا اور کھانے میں زہر ملا دیا تا کہ وہ تینوں ڈاکو کھانا کھا کر مر جائیں اور پورا سونا یہودی کے ہاتھ لگ جائے۔

جیسے ہی وہ کھانا لے کر آیا تینوں میں سے ایک اٹھا اور اس نے تلوار کھینچ کر سر قلم کر دیا۔ تینوں بڑے خوش ہوئے کہ حصہ برابر تقسیم ہو جائے گا۔ کھانا کھا کر یہ تینوں بھی مر گئے اور سنہری ذرات ہوا میں اڑ کر منتشر ہو گئے۔ مٹی مٹی میں مل گئی۔
یا الٰہی!

کیا گھاٹے کا سودا ہے۔

خسر الدنيا والآخرة

وذالک ھوالخسران المبین

’’اے آدم کے فرزند!

حوا کی دختر!

یہ دنیا اس لئے جہنم بن گئی ہے کہ آدم کو اولاد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم کو دنیا کے لئے بنایا گیا ہے۔ دنیا ہمارے لئے نہیں بنائی گئی۔ُُ

تجربات و مشاہدات ماضی حال بتاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی بچہ جب آتا ہے تو اس کے لئے وسائل پہلے سے مہیا ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بچہ زمین پر آئے تو اس کے بعد اس کی ضرورت کے مطابق وسائل پیدا ہوتے ہوں۔

یہ کیسا ظلم ہے۔

ہائے!
یہ کیسی جہالت ہے کہ ہم قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف چل کر سکون و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

زمین ہماری طرح عقل و شعور رکھتی ہے۔ زمین ہماری طرح زندہ ہے۔ جس طرح ماں کے پیٹ میں مسافرت کر کے ہم یہاں آتے ہیں اسی طرح سارے وسائل جن پر ہماری زندگی کا انحصار ہے زمین کے پیٹ میں مسافرت کر کے ہمارے لئے دست بستہ حاضر ہیں۔ وسائل پابند ہیں کہ ہماری خدمت کریں۔ ہمارے کام آئیں۔ ہمیں زندگی بخشیں۔

صد افسوس!

جو چیز ہمارے لئے بنائی گئی ہے جو چیز ہمارے لئے محکوم کر دی گئی ہے۔ ہم اس کے غلام بن گئے ہیں۔ ہم نے اپنی ذات مٹی کے سنہرے ذرات پر قربان کر دی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔

زمین پر موجود شماریات سے زیادہ ذرات میں سب سے زیادہ بے وفا سنہرے ذرات ہیں۔ پوری تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے کہ ان ذرات(Gold) نے کسی کے ساتھ وفا کی ہو۔ انسان جب تک ان ذرات کو پیروں تلے رکھتا ہے یہ ذرات غلامی کرتے ہیں اور جب انسان ان ذرات کو تاج بنا کر سر پر رکھ لیتا ہے تو انتہائی حد تک بے وفائی کرتے ہیں اور انسان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے مار دیتے ہیں۔



 


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔