Topics

عقیدہ

کن کا عمل شروع ہوا کائنات بن گئی۔ کائنات کے بارے میں ہمارا علم ابھی محدود ہے۔ ہم اتنا ہی جانتے ہیں کہ کائنات کے ایک طفیلی سیارہ پر آدم کا وجود ظاہر ہوا۔ یہ سیارہ پہلے سے موجود تھا اور آدم کے لئے وسائل مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ اس سیاہ پر جنات کی نوع پہلے سے موجود تھی۔ موالیدِ ثلاثہ موجود تھے لیکن ان کی زندگی عناصر کی محتاج تھی اور عناصر اپنی زندگی کی بقاء کے لئے وسائل کے ذی احتیاج تھے۔

آدم کے پیدائش کے بعد حوا( جو خود آدم کے اندر کا رخ ہے) سامنے آئی۔ آدم و حوا سے نسل در نسل لوگ اس طرح پیدا ہوتے رہے جیسے آدم سے پہلے اس طفیلی سیارہ پر جنات نسل در نسل پیدا ہو رہے تھے۔ جب آدم زاد انفرادی شعور سے نکل کر اجتماعی شعور میں داخل ہوا تو ذہن جو محدود سوچ رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔کھل گیا اور گہرائی میں ایک تلاطم برپا ہو گیا۔ دماغ میں ایک گونج ہوئی۔ اس گونج کے ارتعاش نے خیالات کو جنم دیا اور خیالات اس نقطہ پر مرکوز ہو گئے کہ

کائنات کیا ہے؟

کائنات کیوں ہے؟

کائنات کیسے شروع ہوئی؟

جیسے جیسے انسانی سوچ میں ارتقاء ہوتا رہا یہ سوالات اہمیت اختیار کرتے گئے۔ ارتقائی عمل سے گزرنے والے شعور نے۔۔۔۔۔۔

زمین کی پستی میں جب اپنے اوپر آسمان کو چھت دیکھا تو اسے چاند، سورج، ستارے نظر آئے۔ چاند سورج ستاروں کا گھٹنا بڑھنا ڈوبنا طلوع ہونا شعور کے لئے مزید سوالیہ نشان بن گئے۔ آدم زاد نے سوچنا شروع کر دیا کہ گھٹنے بڑھنے پیدا ہونے نشوونما پانے اور فنا ہونے کا نام کائنات ہے۔ اس نے یہ راز جان لیا کہ کائنات مسلسل حرکت ہے۔ ایسی حرکت جو ہر آن ظاہر ہوتی ہے اور دوسری آن آنے سے پہلے مخفی ہو جاتی ہے۔

چاند سورج اور ستاروں کی گردش سے انسان نے یہ سمجھ لیا کہ۔۔۔۔۔۔سیارے اور ستارے کائنات کی بساط ہیں۔ اسی مفروضہ کو بنیاد بنا کر ستاروں کے جھرمٹوں اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی مناسبت سے، ستاروں کو شناخت کرنے کے لئے انہیں جانوروں کی شکل و صورت دے دی گئی۔ اگر ستاروں کا جھرمٹ دنبہ کی شکل میں نظر آیا تو اس کا نام مینڈھا، بیل، بچھو، سرطان، شیر وغیرہ رکھ دیا۔

جھرمٹ نے انسانی شکل اختیار کی تو اس کا نام اسی مناسبت سے رکھ دیا۔ یہ سلسلہ دراز چلتا رہا۔ نام تو وہی ہے لیکن قیاس آرائی بڑھتی رہی۔ قیاس آرائی جب ماورائیت میں تبدیل ہو گئی تو عقیدہ بن گئی اور سورج کی پرستش ہونے لگی۔۔۔۔۔۔سورج کی پرستش نے غیروں کی پرستش کا دروازہ کھول دیا اور پھر لوگوں نے دیوتاؤں اور دیویوں کو پوجنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔مذہبی دانشوروں نے اپنے لئے ایک نظریۂ حیات بنا دیا کہ۔۔۔۔۔۔سورج ہر لحاظ سے بڑا ہے اس لئے یہی پرستش کے لائق ہے۔ اس نظریہ نے انسان کو ایک ختم نہ ہونے والے قیاسی گورکھ دھندے میں میں گرفتار کر لیا۔ چالاک اور ذہین لوگوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ کر اس سے مالی فائدہ اٹھایا اور ماورائی طاقتوں کا خوف مسلط کر کے سیدھے سادھے عوام کی اس طرح بے دست و پا کر دیا کہ ان کی چودھراہٹ قائم ہو گئی۔

عوام کو بے دست و پا کرنے کے لئے ایسے ایسے قوانین وضع کئے گئے۔ جن قوانین میں دہشت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اس طرح دو گروہ زمین پر من مانی کرنے پر قادر ہو گئے۔ ایک گروہ نے عقیدہ کے نام پر عوام کی ناک میں نکیل ڈال دی اور دوسرے گروہ نے خود کو عوام کا خادم کہہ کر کاروبار حیات سنبھال لیا۔ پھر خادم عوام کی محنت کمائے ہوئے سرمایہ پر، قابض ہو کر خود کو شداد، نمرود اور فرعون کہلانے لگے۔ اور مذہب کے نام لیوا لوگوں کا سہارا لے کر خدا ئی  ا اعلان کر دیا۔ اب سورج کی پرستش کی جگہ انسان پرستی نے لے لی اور انسان پرستی کا عروج یہاں تک ہوا کہ شداد نے اپنے پیروکاروں کے لئے زمین پر جنت بنا دی۔
انسانی برادری کے فطین اور چالاک لوگ عوام کو نہ صرف اپنا غلام بنانے کی تدبیریں کرتے رہے بلکہ معبود بن کر اللہ کی مخلوق کو اپنی مخلوق بنانے کی سازشوں میں مصروف رہے۔ ادھر یہ سب ہوتا رہا ار دوسری طرف قدرت عوام کی نگہبانی اور تحفظ کے لئے اپنے برگزیدہ بندے بھیجتی رہی۔۔۔۔۔۔

تاریخ کے صفحات میں دونوں گروہوں کے درمیان پہلا معرکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے دور میں ہوا۔ بدترین تدبیر سے انہیں منجنیق پر بٹھا کر آگ کے الاؤ میں پھینک دیا۔ لیکن شکست ان کا مقدر بن گئی۔ ان کی دہکائی ہوئی آگ گلزار بن گئی۔ دوسرا بڑا معرکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہوا۔ فرعون جو خدائی کا دعویدار تھا۔۔۔۔۔۔اس نے مذہبی پراہتوں اور جادوگروں کو میدان میں طلب کیا۔ فرعون کے پیروکاروں اور دربار میں جنت کے آرزو مندوں نے اپنے علم کا جادو جگایا۔ بانس اور رسیاں پھینک دیں۔

بانس اژدھا بن گئے اور رسیاں سانپ بن گئیں۔ خدائی نمائندے موسیٰ علیہ السلام نے سانپوں سے بھری ہوئی فرعون کے دربار کی زمین پر عصا رکھا تو اس نے اژدہوں کو نگل لیا۔۔۔ فرعون کی ظلم و ستم رسیدہ قوم کی قدرت نے مدد کی اور اس طرح فرعون کی خدائی دریا برد ہو گئی۔۔۔۔۔۔

زمانہ بدلتا رہا۔ فراعین اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آتے رہے۔۔۔۔۔۔اور موسیٰ علیہ السلام کا تشخص بھی برقرار رہا۔

آج پھر سے عقیدہ کی بنیاد پر چالاک لوگ سیدھے سادے عوام کو ایک اللہ ایک رسول ایک کتاب پر ایمان رکھنے والوں کو اپنی خواہشات پر بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ارتقائی دور کے ابتدائی مرحلہ میں سورج کی پرستش سے یہ کارنامہ انجام دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔فی زمانہ یہ کام دولت پرستی سے شروع کیا گیا۔۔۔۔۔۔دولت پرستی کسی بھی طرح سورج پرستی سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔جو کسی بھی طور پر بت پرستی سے کم نہیں ہے۔

اور جو لوگ جمع کرتے ہیں سونا چاندی

اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کر دیتے

ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔

(القرآن)


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔