Topics

اسم اعظم

سوال: کسی مرشد کامل سے بیعت ہونا کسے کہتے ہیں یا اس کا کیا مقصد ہوتا ہے؟

جواب: ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی علم یا فن کے سیکھنے کے لئے استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو قدم بہ قدم ہماری رہنمائی کر کے ہمیں اس فن سے متعارف کراتا ہے۔ مثلاً کوئی مصور آپ کی رہنمائی نہ کرے تو آپ مصوری کے فن میں طاق نہیں ہو سکتے یا بہ الفاظ دیگر آپ اس کے شاگرد بنتے ہیں، استاد آپ کو بتاتا ہے کہ پینسل کس طرح پکڑی جائے، کس طرح لکیریں کھینچی جائیں اور کس طرح قوس و دائرے بنائے جائیں۔ غرض استاد کی رہنمائی میں وہ اپنے اندر چھپی ہوئی تصویر کشی کی صلاحیت کو بیدار کر لیتا ہے۔

یہ حال تو دنیاوی علوم کا ہے جن سے ہم کسی حد تک متعارف ہوتے ہیں۔ تو علوم روحانی جو دنیاوی علوم سے بہت زیادہ وسعت کے حامل ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے استاد کی ضرورت کیوں پیش نہیں آئے گی؟ چنانچہ اگر کوئی آدمی اپنے اندر مخفی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھی ایک ایسے شخص کی رہنمائی اور تربیت لازمی ہے جو واقعی صاحب روحانیت ہو۔

ایسی صاحب روحانیت ہستی کو پیر و مرشد کہا جاتا ہے۔

سوال: مرشد کامل میں ظاہر طور پر کون کون سی خصوصیات ہونی چاہئیں؟

جواب: یہ بات جاننے کے لئے کہ کوئی شخص واقعی روحانیت سے وقوف رکھتا ہے یا نہیں، یہ ضروری ہے کہ آدمی اس کی صحبت میں بیٹھے، اس کے شب و روز کا بہ غور مطالعہ کرے اور دیکھے کہ اس شخص کی اللہ کی ذات سے کس حد تک وابستگی ہے۔ میرے مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے کہ فقیر وہ ہے جس کی صحبت میں بیٹھ کر آدمی کا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے اور جتنی دیر آدمی اس کے پاس بیٹھتا ہے، اس کے اوپر سے غم، خوف، اضمحلال اور پریشانی دور رہتی ہے۔

سوال: تصور سے کیا مراد ہے، تصور کی صحیح تعریف کیا ہے؟

جواب: روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز یا اس کے اندر معنویت ہمارے اوپر ظاہر ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور پر ہم اس کی طرف متوجہ نہیں تو وہ چیز بسا اوقات ہمارے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم گھر سے دفتر جانے کیلئے راستے اختیار کرتے ہیں۔ جب ہم گھر سے روانہ ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن کی مرکزیت صرف دفتر ہوتا ہے یعنی یہ کہ ہمیں مقررہ وقت پر دفتر پہنچنا ہے اور وہاں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اب راستے میں بے شمار مختلف النوع چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم دیکھتے ہیں لیکن دفتر پہنچنے کے بعد کوئی صاحب اگر ہم سے سوال کریں کہ راستے میں آپ نے کیا کچھ دیکھا تو اس بات کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہو گا کہ ہم نے دھیان نہیں دیا حالانکہ سب چیزیں نظروں کے سامنے سے گزریں لیکن کسی بھی چیز میں ذہنی مرکزیت قائم نہ تھی، اس لئے حافظہ پر اس کا نقش مرتب نہ ہو سکا۔ آپ ایک ایسی کتاب پڑھتے ہیں جس کا مضمون آپ کی دلچسپی کے برعکس ہے تو پانچ دس منٹ کے بعد ہی طبیعت پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے اور بالآخر کتاب چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مثال سے دوسرا قانون یہ بنا کہ ذہنی مرکزیت کے ساتھ ساتھ اگر دلچسپی قائم ہو تو کام آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے اس کی حدود اگر متعین کی جائیں تو دو رخ پر متعین ہوں جس کی عرف عام میں ذوق و شوق کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف کسی چیز کی معنویت کو تلاش کرنے کی جستجو ہے اور دوسری طرف اس جستجو کے نتیجے میں کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ذوق و جستجو کے بعد جب کوئی بندہ کسی راستے کو اختیار کرتا ہے تو وہ راستہ دین کا ہو یا دنیا کا اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

تصور کا منشا یہی ہے کہ آدمی ذوق و شوق کے ساتھ ذہنی مرکزیت اور اس کے نتیجے میں باطنی علم حاصل کرے۔

تصور کی مشقوں سے بھرپور فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب آنکھیں بند کر کے تصور کرے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہو جانا چاہئے، اتنا بے نیاز کہ اس کے اوپر بتدریج ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹنے لگے یعنی اس تصور میں اتنا منہمک ہو جائے کہ گزرے ہوئے وقت کا مطلق احساس نہ ہو۔ کتاب کا دلچسپ مضمون پڑھنے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
تصور کے ضمن میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر آپ نور یا روشنی کا تصور کر رہے ہیں تو آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نور کی طرف دھیان دیں۔ نور جو کچھ بھی ہے اور جس طرح بھی ہے
"از خود آپ کے سامنے آ جائے گا"۔ اصل مدعا کسی ایک طرف دھیان کر کے ذہنی سکون حاصل کرنا اور منتشر خیالات سے نجات حاصل کرنا ہے جس کے بعد باطنی علم کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہونے لگتا ہے۔ تصور کا مطلب اس بات سے کافی حد تک پورا ہو جاتا ہے، جس کو عرف عام میں ’’بے خیال‘‘ ہونا کہتے ہیں۔

سوال: علم حضوری کیا ہے اور علم حضوری اور علم حصولی میں کیا فرق ہے؟

جواب: علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب سے متعارف کراتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی حیثیت براہ راست ایک اطلاع کی ہے یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آ جاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آنے سے مراد یہ ہے کہ حافظہ کے اوپر ان باتوں کا جو بیان کی جا رہی ہیں ایک نقش ابھرتا ہے مثلاً علم حضور سکھانے والا کوئی استاد اگر ’’کبوتر‘‘ کہتا ہے تو حافظے کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ سا بنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح جب ایک استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا ہے تو حافظہ کی اسکرین پر روشن اور دہکتا ہوا ستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنت سے متعلق جو اطلاعات ہمیں مل چکی ہیں ، ان اطلاعات کی ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے (DISPLAY) ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنت ایسا باغ ہے جس میں خوبصورت خوبصورت پھول ہیں، دودھ کی طرح سفید پانی کی نہریں ہیں۔ شہد کی طرح میٹھے پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔

علم حضوری اور علم حصولی میں یہ فرق ہے کہ جب کوئی استاد اپنے کسی شاگرد کو تصویر بنانا سکھاتا ہے تو وہ گراف کے اوپر تصویر بنا دیتا ہے اور وہ یہ بتا دیتا ہے کہ اتنے خانوں کو اس طرح کاٹ دیا جائے تو آنکھ بن جاتی ہے اور اتنی تعداد میں خانوں کے اوپر پینسل پھیر دی جائے تو ناک بن جاتی ہے۔ گراف کے اندر چھوٹے چھوٹے خانوں کو اس طرح ترتیب سے کاٹا جائے تو سر بن جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اور شاگرد جتنے ذوق و شوق سے استاد کی رہنمائی میں ان خانوں کے اندر تصویر کشی کرتا ہے، اسی مناسبت سے وہ فنکار بن جاتا ہے۔ یہ علم حصولی ہے۔ اس کے برعکس علم حضوری ہمیں بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر تصویر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر کُرتہ، قمیض سینے کی صلاحیت موجود ہے۔ استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ اس نے شاگرد کے اندر موجود لوہار، درزی، بڑھئی اور مصور بننے کی صلاحیت کو متحرک کر دیا ہے اور جیسے جیسے شاگرد اس صلاحیت سے استفادہ کرتا ہے اپنے فن میں مہارت حاصل کر لیتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہے یا آئندہ ہونے والا ہے یا گذر چکا ہے وہ سب خیالات کے اوپر رواں دواں ہے ۔ اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں کوئی اطلاع ہے یا بہ الفاظ دیگر اس چیز کا خیال نہیں آتا وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔ جب کوئی آدمی مصور بننا چاہتا ہے تو پہلے اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اسے تصویر بنانی چاہئے، جب کوئی آدمی بڑھئی بننا چاہتا ہے توپہلے اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اسے بڑھئی کا کام کرنا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ہر علم کی یہی نوعیت ہے۔ پہلے اس علم کے بارے میں ہمارے اندر ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور ہم اس خیال کے آنے کے بعد اس مخصوص فن کو یا مخصوص علم کو سیکھنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں ایک استاد کی تلاش ہو جاتی ہے۔ استاد صرف اتنا کام کرتا ہے کہ ہمارے ذوق و شوق کے پیش نظر ہمارے اندر کام کرنے والی صلاحیت کو متحرک کر دیتا ہے۔

سوال: اسم اعظم کیا ہے اور اس کے جاننے سے انسان کے اندر کیا کیا صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں؟

جواب: لوح محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے۔ حال، مستقبل اور ازل سے ابد تک کا درمیانی فاصلہ ’’لفظ‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے سب کا سب اللہ کا فرمایا ہوا ’’لفظ‘‘ ہے اور یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا ’’اسم‘‘ ہے۔ اسی اسم کی مختلف طرزوں سے نئی تخلیقات وجود میں آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا لفظ یا اسم ہی پوری کائنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ لفظ کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ہر قسم کے لفظ یا اسم کا ایک سردار ہوتا ہے اور وہی سردار اپنی قسم کے اسماء کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ سردار اسم بھی اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اسی کو ’’اسم اعظم‘‘ کہتے ہیں۔

اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں کا مرکب ہوتا ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہوتے ہیں مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضے اور پورے حواس کو قائم کرنے یا رکھنے والا اسم ان سب کا سردار ہوتا ہے اور یہی ’’اسم اعظم‘‘ کہلاتا ہے۔

نوع جنات کے لئے الگ اسم اعظم ہے۔ اسی نوع انسان، نوع ملائکہ، نوع جمادات و نباتات کے لئے بھی علیحدہ علیحدہ اسم اعظم ہیں۔ کسی نوع سے متعلق اسم اعظم کو جاننے والا صاحب علم اس نوع کی کامل طرزوں، تقاضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔ اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر رکھتا ہے اور تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا نور ہے۔

اَللّٰہُ نُوْرُ السآَمٰوٰتِ وَالْاَرْض

(اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا)

یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات و جمادات، حیوانات، انسان، جنات اور فرشتوں میں زندگی اور زندگی کی پوری تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان ہے کہ کائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ساتھ بندھاہوا ہے۔

انسان کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں، ایک دن کے اور دوسرے رات کے، ان دونوں حواس کی کیفیات کو جمع کرنے پر ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہوتی ہے۔ اور ان گیارہ ہزار کیفیات پر ایک اسم ہمیشہ غالب رہتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کر رہے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہزار ہے اور ان گیارہ ہزار اسماء کو جو اسم کنٹرول کر رہا ہے وہ اسم اعظم کہلاتا ہے۔ ان گیارہ ہزار میں سے ساڑھے پانچ ہزار دن میں اور ساڑھے پانچ ہزار رات میں کام کر رہے ہیں۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے اس کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے نئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا ہے۔ تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈمنسٹریشن کو چلانے والے حضرات یا صاحب خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔

سوال: دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بھی عامل یا عالم کوئی وظیفہ بتاتا ہے وہ وظیفہ بعد نماز عشاء کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ نہیں سنا کہ کوئی وظیفہ بعد نماز ظہر اور عصر کیا جائے۔ آخر اس کی توجیہہ کیا ہے اور عشاء کا وقت اتنا افضل کیوں ہے؟
جواب: دراصل عشاء کی نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام ہے کیونکہ عشاء کے وقت آدمی رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیمات اور تربیت کے اسباق اور وظائف عشا کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے کہ جب آدمی رات کے حواس میں داخل ہوتا ہے تو وہ لاشعوری اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے۔ اس کی دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ عشاء کی نماز اس نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کر وہ زندگی عطا فرما دی جو نافرمانی کے ارتکاب سے پہلے جنت میں حضرت آدمؑ کو حاصل تھی۔ یہی وہ حواس ہیں جن میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعے اس کے اوپر مشکلات، مسائل اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے۔

سوال: اکثر پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کہ روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے روزہ روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے لیکن اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا ہے کہ بھوکا رہنا کس طرح روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرکے قرب الٰہی کا باعث بنتا ہے؟

جواب: قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق کائنات میں موجود ہر شئے دو رخ پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اور ہم نے ہر شئے کو تخلیق کیا جوڑے دہرے‘‘۔ چنانچہ انسانی حواس بھی دو رخ پر قائم ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ خود کو پابند اور مقید محسوس کرتا ہے۔ قید و بند میں ہمارے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسفل کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ دوسرا رخ وہ ہے جہاں انسان قید و بند سے آزاد ہے۔

زندگی نام ہے تقاضوں کا۔ یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دل چسپیاں سب کے سب تقاضے ہیں۔ اور ان تقاضوں کا دارومدار حواس پر ہے۔

حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہو کر ہمیں مظاہراتی خدوخال کا علم بخشتے ہیں۔ عام دنوں میں ہماری دلچسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، آرام کرنا، حصول معاش میں جدوجہد کرنا، دنیا کے مسائل سب کے سب مظاہر ہیں۔

عام دنوں کے برعکس روزہ، ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے مثلاً وقت معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا(غیب کی دنیا) سے روشناس کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہر حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر دیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول، گفتگو میں احتیاط، نیند میں کمی اور چوبیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔

کائنات میں ہر ذی روح کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔

۱۔ وہ حواس جو اللہ سے قریب کرتے ہیں۔

۲۔ وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔

اللہ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ سے قریب کرنے والے سب کے سب غیب ہیں۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید و بند ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں۔ قرآن پاک کی زبان میں ان کا نام ’’لیل‘‘ یعنی رات ہے۔ رات کے حواس ہوں یا دن کے حواس، دونوں ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی رہتی ہے۔ دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی لازمی ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت لازمی نہیں۔ رات کے وہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے تذکرے میں ایک جگہ رب العزت فرماتے ہیں۔ ’’اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰؑ سے تیس رات کا، پورا کیا اس کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موسیٰؑ کو چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور و فکر طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا۔ صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ظاہر ہے جب حضرت موسیٰؑ نے چالیس دن اور چالیس رات کوہ طور پر قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰؑ پر رات کے حواس غالب رہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف تا کہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔‘‘

رات کے حواس میں یعنی سونے کی حالت میں ہم نہ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور نہ ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔

روزہ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔

گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا، بات نہ کرنے کا عمل اور زیادہ عبادت ہمیں غیب سے کرتی ہے۔ ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں، ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔ زیادہ وقت بیدار رہ کر رات(غیب) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے واقعے میں کیا ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ ’’انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جائے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو پروگرام عطا کئے ہیں۔’’ایک حصول اور دوسرا ترک حصول‘‘ معاشیات حصول کا اصول بتاتا ہے لیکن ترک کا پروگرام اس سے بہت بڑا ہے اور وہ ایسے اصول سکھاتا ہے جو مظاہر سے آہستہ آہستہ دور لے جاتے ہیں۔ اگرچہ انسان مظاہر میں پھنسا رہتا ہے لیکن اس کی روح مظاہر سے ہٹ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ پروگرام آپ کو اللہ کے قریب کر دیتا ہے اور اس قدر قریب کر دیتا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘

روزے جو حاصل زندگی کی عمومی خواہشات سے ترک ہیں، حواس کو جلا دیتے ہیں اور حواس کو ایک نقطہ پر مجتمع کرتے ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حواس پانچ ہیں۔ ایسا نہیں ہے حواس بہت زیادہ ہیں۔ پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پردے میں اور بہت سے حواس ہیں جو ’’ترک‘‘ سے منکشف ہوتے ہیں۔ ظاہری حواس اور ظاہری اعمال و خواہشات کا ترک انسان کو خود سے قریب کر دیتا ہے۔

جب آپ انتہائی ترک پر ہوتے ہیں یعنی کم بولتے ہیں، کم سوتے ہیں، کم سوچتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو کم سوچنے سے آپ کی فکر کا مجلی ہونا لازمی ہے۔ ایک روشنی آپ کے دماغ میں، دل میں اور سینہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جو ظاہراً حواس میں کام کرتی ہے۔ یہ روشنی آپ کی فکر میں رہنمائی کرتی ہے۔ یہی روشنی ہے جس کے ذریعے آپ بہت سی باتیں جو مستقبل میں ہونے والی ہیں دیکھ سُن اور سمجھ لیتے ہیں، قرآن پاک نے جس رات کا نام ’’لیلتہ القدر‘‘ رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور روزے کی جزاء میں خود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔’’ہم نے نازل کیا اس کو (قرآن پاک کو) لیلتہ القدر میں، لیلتہ القدر محیط ہے ہزار مہینوں کو، اس رات میں ملائکہ اور ارواح اترتی ہیں اپنے رب کے حکم سے اور یہ رات امان اور سلامتی کی رات ہے طلوع فجر تک۔‘‘

فرمان الٰہی کے مطابق لیلتہ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہماری عام رات کے حواس کی مقدار اس رات میں (جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔

سوال: نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں؟

جواب: نام رکھنے والے انسان ہی ہوتے ہیں، وہ قریبی ہوں یا دور کے رشتہ دار، جب نام رکھا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر نانا، دادا، ماں باپ، نانی، دادی اور دوسرے گھر والے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ بعض ناموں میں سوچ بچار کو دخل زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے نام جن میں سوچ بچار زیادہ ہوتا ہے عام طور پر اعتدال کی زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوچ بچار میں بہت سارے خیالات کی لہریں مل جل کر ان ناموں کو متاثر کرتی ہیں اور خیالات کی یہ لہریں تقریباً پورے خاندان کی ذہنی واردات و کیفیات اور عملی زندگی کا عکس ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر پورے خاندان سے ان ناموں کو کچھ نہ کچھ ورثہ ملتا ہے لیکن بعض نام اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ کسی نے سنا لڑکا پیدا ہو اہے اور اس نے ایک نام تجویز کر دیا۔ یہ نام بغیر کسی رد و بدل کے اس خاص شخص کی طبیعت قبول کر لیتی ہے جس نے نام رکھا اور یہ طبیعت اس شخص کے لئے جس کا نام رکھا گیا ہے ورثہ بن جاتی ہے۔ بعض نام رؤسا اور خواص کے بچوں کے ہوتے ہیں۔ ان ناموں میں کچھ کچھ سقم شامل ہوتا ہے۔ اس لئے وہ نام ایسے لوگوں کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کی کیفیات و واردات ایک دوسرے سے متضاد ہوتی ہیں جن کی بنا پر ان کا مزاج گھڑی گھڑی بدلتا ہے۔ وہ ایک مقام پر جم کر کبھی نہیں ٹھہرتے۔

ان کی طبیعت میں بہت غرور ہوتا ہے اور وہ غرور ان کی زندگی میں قدم قدم آڑے آتا ہے۔ یہ لوگ کانوں کے کچے اور خوشامدی ہوتے ہیں۔ اکثر ان کی جان خطرے میں رہتی ہے۔ بعض بچوں کے نام نہایت بے دلی سے رکھے جاتے ہیں۔ نام کے معنی اور مفہوم پر کوئی غور نہیں کیا جاتا۔ ان بچوں میں اکثریت بداخلاقی اور بدتمیز ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان کی تربیت ہی نہیں ہوتی یا ان کے والدین تربیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ زندگی کے کسی موڑ پر آ کر یہ بچے والدین اور معاشرے سے بغاوت کر دیتے ہیں نتیجہ میں بہت سے بچے جرائم پیشہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری قوم کی اکثریت تنگ دستی کی وجہ سے معاشرہ کے تمام بندھنوں سے خود کو آزاد تصور کرتی ہے۔ معاشرہ کی پابندی وہ قوم کر سکتی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم ہو۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اس کا اخلاق بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر اس میں صحیح کمانے کے ذرائع شروع ہی سے پرورش پا جاتے ہیں۔ بہت دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم میں یہ تمام باتیں مفقود ہیں۔ اگر ایسے نظام میں غور و فکر کے بعد ایسے نام رکھے جائیں جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں تو اچھے آدمی پیدا ہو سکتے ہیں اور اچھے آدمی بنائے جا سکتے ہیں اس لئے کہ پورے معاشرے کا اثر پوری قوم کے ہر فرد پر پڑتا ہے، اگر فرد باشعور ہو تو اجتماعی شعور کو جانتا ہے اور ساتھ ساتھ اجتماعی شعور رکھتا ہے اور اجتماعی شعور سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سید عالمﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے بچوں کے نام ایسے رکھو جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں۔

سوال: انسان کی زندگی اطلاعات پر قائم ہے۔ اطلاعات تقاضوں کو جنم دیتی ہین اور تقاضوں کی تکمیل سے زندگی آگے بڑھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے اور انسان ایک طرز پر زندگی کیوں نہیں گزارتے؟

جواب: جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اس روشنی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور اُبعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری سطح میں اُبعاد ہیں۔ ابعاد کی سطح اس روشنی کی گہرائی میں واقع ہے۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطلاع دیتی ہے حواس انہیں براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطلاعات کی پوری گرفت نہیں کرتے ۔ دراصل جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے موصول ہوتی ہیں یہی اطلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کے باوجود اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطلاعات دو قسم کی ہیں۔

۱۔ وہ اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں، ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے۔

۲۔ وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر جانب دارانہ ہوتا ہے۔ اطلاعات کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انسان کے پاس ادراک کے دو زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسرا وہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے لیکن جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب ہم انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی ہے۔ جس زاویہ میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ اپنا ادراک کرتے ہیں۔ ادراک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ اسی کو ہم تجرباتی دنیا کہتے ہیں۔ ایک طرف کائنات کو اپنی انفرادی دنیا میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ دوسری طرف اپنی انفرادیت کائنات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور دوسری طرف کائنات کی جب یہ دونوں ترجمانیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو غلط ثابت کرنے کے لئے تاویل کا سہارا لیتے ہیں ۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے مریضوں سے دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو اطلاعات کے روحانی علم سے واقع ہو۔ ذاتی اغراض سے آزاد یہ شخص روحانی انسان ہے جو اپنے شاگردوں کو ذاتی اغراض کے جال سے نکال کر حقیقت سے متعارف کرا دیتا ہے۔


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔