Topics
جانور دو ہیں۔ ایک جانور
پیروں سے چلنے والا ہے اور دوسرا دو پیروں سے چلنے والا ہے۔ اڑنے والا جانور اور
تیرنے والا جانور بھی چار پیروں سے چلنے والے جانوروں میں شامل ہے۔ اس لئے کہ وہ
پَر بھی استعمال کرتا ہے اور پیر بھی۔ نیز اس کے اڑنے کی صورت بھی وہی ہوتی ہے جو
چار پیروں سے چلنے والے جانور کی ہوتی ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا جانور آدمی ہے۔
چار پیروں سے چلنے والا
جانور، اڑنے والا جانور، تیرنے والا جانور آسمانی رنگ کو تمام جسم میں یکساں قبول
کرتے ہیں اسی وجہ سے عام طور پر ان میں جبلت کام کرتی ہے، فکر کام نہیں کرتی یا
زیادہ سے زیادہ انہیں سکھایا جاتا ہے لیکن وہ بھی فکر کے دائرے میں نہیں آتا۔
جن چیزوں کی انہیں اپنی
زندگی میں ضرورت پڑتی ہے صرف ان چیزوں کو قبول کرتے ہیں، ان میں زیادہ غیر ضروری
چیزوں سے یہ واسطہ نہیں رکھتے، جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ان کا تعلق زیادہ
تر آسمانی رنگ کی لہروں سے ہوتا ہے۔
دو پیروں سے چلنے والا
جانور یعنی آدمی سب سے پہلے آسمانی رنگ کا مخلوط یعنی بہت سے ملے ہوئے رنگوں کو
اپنے بالوں اور سر میں قبول کرتا ہے اور اس رنگ کا مخلوط پیوست ہوتا رہتا ہے۔ یہاں
تک کہ جتنے خیالات، کیفیات اور محسوسات وغیرہ اس رنگ کے مخلوط سے اس کے دماغ کو
متاثر کرتے ہیں وہ اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔
دماغ میں کھربوں خانے
ہوتے ہیں اور ان میں سے برقی رو گزرتی رہتی ہے، اسی برقی رو کے ذریعے خیالات، شعور
اور تحت الشعور سے گزرتے رہتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔
دماغ کا ایک خانہ وہ ہے
جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے، یہ فوٹو بہت ہی زیادہ
تاریک ہوتا ہے یا بہت ہی زیادہ چمکدار۔
ایک دوسرا خانہ ہے جس میں
کچھ اہم باتیں ہرتی ہیں لیکن وہ اتنی اہم نہیں ہوتیں کہ سالہاسال گزرنے کے بعد بھی
یاد آ جائیں ، ایک تیسرا خانہ اس سے زیادہ اہم باتوں کو جذب کر لیتا ہے، وہ بشرط
موقع کبھی کبھی یاد آ جاتی ہیں۔ ایک چوتھا خانہ معمولات(ROUTINE
CHORES)کا جس کے ذریعہ آدمی عمل کرتا ہے لیکن اس
میں ارادہ شامل نہیں ہوتا، پانچواں خانہ وہ ہے جس میں گزری ہوئی باتیں اچانک یاد آ
جاتی ہیں جن کا زندگی کے آپس کے تاروپور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
منشاء یہ ہے کہ ایک بات
یاد آئی، دوسری بات ساتھ ہی ایسی یاد آئی جس سے پہلے بات کا کبھی کوئی تعلق نہیں
تھا، ایک چھٹا خانہ ایسا ہے جس کی یا تو کوئی بات یاد نہیں آتی اور اگر یاد آتی ہے
تو فوراً اس کے ساتھ ہی عمل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے۔ کسی پرندے کا خیال آیا،
خیال آتے ہی عملاً وہ پرندہ سامنے ہے، ساتواں خانہ اور ہے جس کو عام اصطلاح میں
حافظہ (MEMORY)
کہتے ہیں۔
دماغ میں مخلوط آسمانی
رنگ آنے سے اور پیوست ہونے سے خیالات، کیفیات، محسوسات وغیرہ برابر بدلتے رہتے
ہیں، اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اس رنگ کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح کے اپنا
اثر کم و بیش پیدا کرتے ہیں اور فوراً اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تا کہ دوسرے سائے ان
کی جگہ لے سکیں، بہت سے سائے جنہوں نے جگہ چھوڑ دی ہے محسوسات بن جاتے ہیں اس لئے
کہ وہ گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے خیالات کی صورتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ لیتا ہے ان میں سے جن خیالات کو بالکل
کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہو جاتے ہیں اور جو جذب کر لیتا ہے وہ عمل بن جاتے ہیں، یہ
سائے اسی طرح کام کرتے رہتے ہیں، انہی سایوں کے ذریعہ انسان رنج و راحت حاصل کرتا
ہے۔ کبھی وہ رنجیدہ اور بہت رنجیدہ ہو جاتا ہے، کبھی وہ خوش اور بہت خوش ہو جاتا
ہے۔ یہ سائے جس قدر جسم سے خارج ہو سکتے ہیں ہو جاتے ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر
پیوست ہو جاتے ہیں وہ اعصابی نظام بن جاتے ہیں۔
آدمی دو پیر سے چلتا ہے
اس لئے سب سے پہلے ان سایوں کا اثر اس کا دماغ قبول کرتا ہے، دماغ کی چند حرکات
معین ہیں جن سے وہ اعصابی نظام میں کام لیتا ہے۔ سر کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ
اور حرام مغز اس اعصابی نظام میں خاص کام کرتا ہے، رنج و خوشی دونوں سے اعصابی
نظام متاثر ہوتا ہے، رنج و خوشی دراصل بجلی کی ایک رو ہے جس دماغ سے داخل ہو کر
تمام اعصاب میں سما جاتی ہے۔ یہ لہریں دو پیروں سے چلنے والے جانور کے دماغ میں
داخل ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا وزن، تجزیہ، فضا، ہر جگہ بالکل یکساں نہیں ہوتا بلکہ
جگہ جگہ تقسیم ہوتا ہے اور اس تقسیم کار میں وہ لہروں کے کچھ سائے زیادہ جذب کرتا
ہے اور کچھ سائے کم انسان کے دماغ میں لاشمار خلیے (CELLS) بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لاشمار خلیوں میں سائے
کی لہریں جو فضا سے بنتی ہیں وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھیں، کبھی ان کے اثرات بہت
کم رہ جاتے ہیں، کبھی ان کے اثرات بالکل نہیں رہتے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام
خلئے جودماغ سے تعلق رکھتے ہیں کسی وقت خالی نہیں رہتے۔ کبھی ان کا رخ ہوا کی طرف
زیادہ ہوتا ہے، کبھی پانی کی طرف، کبھی غذا کی طرف اور کبھی تنہا روشنی کی طرف،
اسی روشنی سے رنگ اور رنگوں کی ملاوٹی شکلیں بنتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں۔
اگر انسان دماغ سے کام لے
تو چہرہ پر طرح طرح کے رنگ نظر آتے ہیں۔ ان رنگوں میں سب سے زیادہ نمایاں آنکھوں
کا رنگ اور حواس کی رَو ہوتی ہے۔ اگرچہ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان
چیزوں کا جو باہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر قبول کرتی ہیں، بہت سے باہر کے عکس
آنکھوں کے ذریعہ اندرونی دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس
تازہ ہو جاتے ہیں یا افسردہ ہو جاتے ہیں۔ کمزور ہو جاتے یا طاقتور۔ انہی باتوں پر
دماغ کا انحصار ہے۔ رفتہ رفتہ یہی دماغ کا کام اعصاب میں سرایت کر جاتا ہے جو صحیح
بھی کام کرتا ہے اور غلط بھی۔
دماغی لہروں سے چہرہ پر
اتنے زیادہ اثرات آ جاتے ہیں کہ ان سب کا پڑھنا مشکل ہے پھر بھی ایک فلم چہرہ میں
چلتی رہتی ہے جو اعصاب میں منتقل ہونے والے تاثرات کا پتہ دیتی ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ
رنگوں کی تعداد بہت ہے اور ان کی افادیت بہت زیادہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔