Topics

ایٹم بم

جب کوئی بندہ کسی ایک نقطہ پر اپنی پوری صلاحیتیں مرکوز کر کے غور کرتا ہے تو اس کی نظر میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اس نقطہ کو جس کے اوپر تمام صلاحیتیں مرکوز ہو گئی ہیں، پڑھ لیتا ہے۔ پڑھنے سے منشاء یہ ہے کہ نقطہ کے اندر موجود اوصاف اور نقطہ کے اندر موجود خفیہ صلاحیتیں اور صلاحیتوں کے اندر مخفی صلاحیتیں اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔ جب اور زیادہ گہرائی میں دیکھتا ہے تو نقطہ اس کو اپنا استعمال بتا دیتا ہے۔ نقطہ کے اندر موجود مخفی قوتیں اس بات کا مشاہدہ بن جاتی ہیں کہ پوری پوری کہکشائیں ہمارے ساتھ سفر کر رہی ہیں۔ ہم جان لیتے ہیں کہ دنیا میں موجود ہر شئے لہروں پر قائم ہے۔ ہم اور پوری کائنات لہروں کے تانے بانے سے مرکب ہے۔ دنیا کی ہر چیز چاہے وہ پانی ہو، درخت ہو، پتھر ہو، انسان ہو، چرند ہو، پرند ہو، انرجی ہو، آکسیجن ہو یا ایٹم بم یا مالیکیول ہو روشنیوں کے ہالے میں بند ہے یعنی ہر چیز کے اوپر روشنی کا ایک غلاف ہے۔ نظر کے سامنے پہلا انکشاف طاقت کا ہوتا ہے۔ نظر میں جب مزید گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دوسرا انکشاف اس طاقت کے استعمال کا ہوتا ہے۔ مزید گہرائی واقع ہو جانے سے تیسرا انکشاف یہ ہوتا ہے کہ طاقت مظہر بن کر سامنے آ جاتی ہے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی کے اوپر ایٹم بم گرایا گیا تو ایٹم کی طاقت کا مظاہرہ اس شکل میں ہوا کہ جن پہاڑیوں پر بم گرایا گیا تھا وہ پہاڑیاں دھواں بن گئیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ پہاڑ کھڑے ہیں جب پہاڑ کو چھوا گیا تو دھوئیں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ طاقت کا کھوج کس نے لگایا۔ طاقت کا استعمال کس نے کیا اور طاقت کے مظاہرہ سے کون متاثر ہوا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایٹم کی طاقت کا کھوج انسانوں سے لگایا اس کی طاقت کو استعمال انسانوں نے کیا اور اس طاقت کے تخریبی اور تعمیری پہلو سے بھی انسان ہی متاثر ہوا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایٹم کے اندر موجود طاقت اللہ کریم کی تخلیق ہے اور اس طاقت کو استعمال کرنے کا طریقہ اللہ نے انسان کو سکھا دیا۔ لاشعور بتاتا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے اتنی سکت اور صلاحیت منتقل کر دی ہے کہ وہ ایٹم کی طاقت کو اپنے ارادے اور اپنی منشاء کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔ یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ خالق ہر حال میں تخلیق سے زیادہ باصلاحیت، باوصف اور باہمت ہے۔ ایٹم کی طاقت کے خالق کی حیثیت سے جب ہم انسانی کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو دراصل ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی مخفی صلاحیتیں اور قوتیں عطا کر دی ہیں جس کے سامنے ایٹم بم کی قوت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ فرق صرف ایٹم کے استعمال کا ہے۔ ہم ایٹم کے اندر ان لہروں کو تلاش کرتے ہیں جو تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہیں یا ان صلاحیتوں کو تلا ش کرتے ہیں جو نوع انسانی کی تعمیر میں کام آتی ہیں۔

جب ہر چیز لہروں پر قائم ہے تو انسانی وجود بھی لہروں سے بنا ہوا ہے۔ لہروں میں قائم وجود میں تفکر انسان کے اوپر منکشف کر دیتا ہے کہ انسان میں تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ جس طرح ایٹم ایک نقطہ ہے اور اس نقطہ کے اندر ایسی طاقت محفوظ ہے کہ اگر انہیں تخریبی ذہن سے استعمال کیا جائے تو زمین الٹ پلٹ جاتی ہے۔ پورے پورے شہر آناً فاناً تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ اس ہی ایٹم کو اگر تعمیر میں استعمال کیا جائے تو بجلی ایجاد ہو جاتی ہے۔ وہ بجلی جو ہر سائنسی ترقی میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔

انسان کے اندر بھی ایک ایٹم ہے اس ایٹم یا نقطہ کے اندر بھی بے شمار طاقتیں ذخیرہ ہیں۔ جب یہ ایٹم کھلتا ہے تو آدمی مادی وسائل سے بے نیاز ہو کر روحانی طور پر ان فارمولوں کا مشاہدہ کر لیتا ہے جن فارمولوں سے سورج بنتے ہیں، چاند وجود میں آتے ہیں۔ جن فارمولوں سے ستارے قائم ہیں، جن فارمولوں پر آسمان قائم ہیں، جن فارمولوں اور کلیوں کے اوپر زمین گردش کر رہی ہے۔

مثال:

ہم شربت بناتے ہیں ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی میں چینی گھول دی جائے تو شربت بن جاتا ہے اور اس شربت میں خوشبو ملا دی جائے تو شربت خوشبودار اور مفرح ہو جاتا ہے۔ اسی شربت میں رنگ کی آمیزش کر دی جائے تو شربت خوش شکل ہو جاتا ہے۔ اسی شربت میں کوئی ایسی ٹھنڈی دوا شامل کر دی جائے جو خون کو ٹھنڈا کر دے تو یہ شربت گرمی سے پیدا ہونے والے امراض کا علاج بن جاتا ہے۔

روٹی پکانا ایک فارمولے کے اوپر قائم ہے۔ جب ہم روٹی کا تذکرہ کرتے ہیں تو روٹی سے متعلق جتنے اعمال ہیں وہ خود بخود زیر بحث آ جاتے ہیں۔ روٹی کا مطلب ہے زمین کے اندر گیہوں ڈالنا، زمین کی کوکھ میں دور کرنے والے روشنیوں اور لہروں کا گیہوں کے بیج پر اثر انداز ہونا، گیہوں کے بیج کے اندر موجود روشنیوں اور لہروں کا زمین کی لہروں اور روشنیوں سے باہم مل کر ایک دوسرے کا تاثر قبول کرنا، ایک دوسرے کے اندر لہروں کا جذب ہونے کے بعد گیہوں کے بیج میں کلہ پھوٹنا، بیج کا پیدائش کے بعد زمین کی کوکھ سے باہر آنا، سورج کی تپش سے پکنا، چاند کی چاندنی سے گیہوں کے اندر مٹھاس پیدا ہونا ، گیہوں کے بیج کا جوان ہونا اور پھر اس کو چکی میں پیسنا، آٹا بننا، آٹے اور پانی کے ملاپ سے ایک نئی شکل اختیار کرنا، آٹے اور پانی کے ملاپ سے جو مرکب بنا ہے اس مرکب کا آگ پر پکنا ان تمام عوامل سے گزر کر روٹی پکتی ہے۔ ایک عام آدمی کہتا ہے روٹی کھاؤ بات ختم ہو گئی لیکن تفکر کرنے والا بندہ یہ تلاش کرتا ہے کہ روٹی کیا ہے اور کیسے وجود میں آئی۔ اس ہی طرح انسان بھی ایک نقطہ ہے۔

نقطہ کو توڑا جائے بالکل اس طرح جس طرح ایٹم کو توڑ دیا گیا ہے تو اس کے اندر عجائبات نظر آتے ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے کائنات کہا ہے۔ انسان کی پوری نسل، انسان کی پوری نوع، جنات اور جنات کی پوری نوع، فرشتے، آسمان، جنت، دوزخ، عرش اور انتہا یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اس نقطہ کے اندر موجود ہے۔ جب یہ نقطہ کھلتا ہے تو انسان مشاہداتی طرزوں میں قدم قدم سفر کر کے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور مقصود اور منظور و مطلوب اللہ تعالیٰ ہے۔ تصوف میں اس نقطہ کا نام ’’فواد‘‘ ہے جس کا ترجمہ دل ہے۔ یہ وہی دل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مسکن اور اپنا گھر قرار دیا ہے۔ یہ وہی دل ہے جو کبھی غلط بیانی نہیں کرتا، کبھی جھوٹ نہیں بولتا، جو کچھ دیکھتا ہے حقیقت دیکھتا ہے۔ دل خالق کائنات کو دیکھتا ہے، خالق کائنات دل کو دیکھتا ہے۔

 


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔