Topics

انسان اورآدمی

جب ہم اپنی زمین، چاند، سورج، کہکشانی نظام اور کائنات کی ساخت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سارا نظام ایک قاعدے، ضابطے اور قانون کے تحت کام کر رہا ہے۔ اور یہ قانون اور ضابطہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے اپنے ضابطہ اور قاعدہ سے ایک انچ کے ہزارویں حصہ میں بھی اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتی۔ زمین اپنی مخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے۔ اس کو اپنے مدار پر حرکت کرنے کے لئے بھی ایک مخصوص رفتار اور گردش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ پانی کا بہنا، بخارات بن کر اڑنا، شدید ٹکراؤ سے اس کے مالیکیولز کا ٹوٹنا اور بجلی کا پیدا ہونا اور ماحول کو منور کرنا، حرارت کا وجود میں آنا اور ہر شئے کا دوسری شئے پر اثر انداز ہونا، یہ سب ایک مقررہ قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہے۔ اسی طرح حیوانات، نباتات کی پیدائش اور افزائش بھی ایک لگے بندھے قانون کی پیروی کر رہی ہے۔ انسانی دنیا میں بھی پیدائش اور نشوونما کا نظام ایک ہی چلا آ رہا ہے۔ وہ پیدا ہو کر بڑھتا ہے اور لڑکپن اور جوانی کے زمانوں سے گزر کر بڑھاپے کے دور میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ وہ بوڑھا ہو۔ لیکن پھر بھی وہ بوڑھا ہونے پر مجبور ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں پسند کرتا کہ اس کے اوپر موت وارد ہو لیکن دنیا میں ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ آدمی نے موت سے نجات حاصل کر لی ہو۔ ان تمام باتوں پر گہرے غور و خوض کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اس قدر منظم و مربوط نظام کو چلانے والی کوئی ہستی ہے۔

کوئی اسے بھگوان کہتا ہے، کوئی اس لازوال ہستی کا نام (GOD) رکھتا ہے، کسی مذہبی صحیفے میں اسے یزداں کے نام سے پکارا گیا ہے۔ ایل اور ایلیا کے ناموں سے بھی یہ ہستی متعارف ہے۔ نام کچھ بھی ہو، بہرحال ہم یہ ماننے اور یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ ایک طاقتور اور لامتناہی ہستی ہمیں سنبھالے ہوئے ہے اور ساری کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے۔ وہ لوگ جو اس عظیم ہستی کا اقرار نہیں کرتے وہ زندگی کی شکست و ریخت کا ذمہ نیچر کو قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت ان کے انکار میں بھی اقرار کا پہلو نمایاں ہے۔ اس لئے کہ جب تک کوئی چیز موجود نہیں ہوتی اس کا انکار اور اقرار زیر بحث ہی نہیں آتا، انکار کو ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ کوئی بندہ اپنی دانست میں غیر متعارف ہستی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو اس کا ذہن انکار کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

خالق کائنات نے یہ کائنات حق پر پیدا کی ہے ہر شئے کو کسی نہ کسی پروگرام کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ بلامقصد یا کھیل کے طور پر کوئی چیز وجود میں نہیں لائی گئی ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ انسان کیا ہے؟ عام طور پر انسان سمجھتا ہے کہ اس کا وجود محض گوشت پوست اور ہڈیوں سے مرکب جسم ہے۔ اس کی تمام دلچسپیاں، تمام توجہ اسی جسم پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اپنی تمام تر توانائی اس جسم کو پروان چڑھانے اور آسائش بہم پہنچانے میں استعمال کرتا ہے۔ جب کہ تمام پیغمبروں اور برگزیدہ ہستیوں نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اصل انسان گوشت پوست کا جسم نہیں ہے بلکہ اصل انسان وہ ہے جو اس جسم کو متحرک رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس اصل انسان کو روح کا نام دیا جاتا ہے۔ اس بات کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی کتاب ’’لوح و قلم‘‘ میں جس طرح بیان کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ :

’’ہم اپنے مادی جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتے ہیں۔ لباس خواہ اونی ہو، سوتی ہو، نائیلون کے تاروں سے بنا ہو یا ریشم سے بُنا ہوا ہو جب تک گوشت پوست کے جسم پر موجود ہے اس میں حرکت ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آدمی ہاتھ ہلائے اور قمیض کی آستین نہ ہلے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قمیض کو چارپائی پر ڈال دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ اپنے ارادے سے آستین ہلائے اور آستین میں حرکت پیدا ہو جائے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔ لباس میں اپنی ذاتی کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب روح آدمی سے بے تعلق ہو جاتی ہے اور آدمی مر جاتا ہے تو کپڑے سے بنے ہوئے لباس کی طرح اس کے اندر بھی کوئی ذاتی حرکت یا قوت مدافعت موجود نہیں رہتی۔ گوشت پوست اور رگ پٹھوں سے بنے ہوئے مادی جسم یا لباس پر ضرب لگائی جائے یا اس کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹا جائے، جسمانی لباس کوئی حرکت نہیں کرے گا۔ جب تک روح اس لباس کو پہنے ہوئے تھی، اس لباس میں حرکت اور قوت مدافعت موجود تھی۔ پس ثابت ہوا کہ ہم گوشت پوست کے جس انسان کو اصل انسان کہتے ہیں وہ اصل انسان نہیں ہے بلکہ اصل انسان کا لباس ہے اور اصل انسان روح ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

’’انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی۔ اور یہ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا انسان بن گیا۔‘‘

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:

’’یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘

امر کی تعریف سورہ یٰسین کی آخری آیات میں اس طرح کی گئی ہے:

’’اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

ان آیات سے فارمولا یہ بنا کہ آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے ان در روح ڈال دی گئی تو اسے حواس مل گئے۔

روح اللہ کا امر ہے اور اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے’ہو‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔

موجودہ سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے روشناس ہو چکی ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں کی روشنی سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور یہ انسان حیوانات، نباتات اور جمادات پر کیا اثر کرتی ہے؟ یہ مرحلہ بھی سائنس کے سامنے آ چکا ہے لیکن ابھی تک سائنس اس بات سے پوری طرح باخبر نہیں ہے کہ شمسی نظاموں کی روشنی انسان، نباتات اور جمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے اور کس طرح ان کی کیفیات میں رد و بدل کرتی رہتی ہے۔ سائنس کا عقیدہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اور پوری کائنات صرف ایک ہی قوت کی مختلف شکلوں کا مظاہرہ ہے۔ کائنات میں ممتاز ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ لہر اور روشنی کیا چیز ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہے۔

’’God said light and there was light‘‘

یعنی خدا نے کہا ’’روشنی‘‘ اور روشنی وجود میں آ گئی۔ اس بات کو قرآن پاک نے اللّٰہ نور السموات والارض یعنی اللہ نور ہے آسمان اور زمین کا کہہ کر بیان کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لہر یا روشنی اور زمین و آسمانوں کی بساط براہ راست اللہ کی ذات مطلق سے قائم ہے جب یہ ساری کائنات بشمول انسان، حیوانات، نباتات اور جمادات روشنیوں اور لہروں پر قائم ہے تو اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ سب موجودات دراصل اللہ کے نور(لہر) کا مظاہرہ ہے۔ اسی لہر یا روشنی کو مذہب نے روح کا نام دیا ہے۔
مذاہب اور تمام علوم ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ اصل انسان کون ہے، وہ کہاں سے آ کر اپنے لئے جسمانی لباس وضع کرتا ہے اور پھر اس لباس کو اتار کر کہاں چلا جاتا ہے اس بات سے واقف ہونے کے لئے ہادیوں اور رہنماؤں نے قواعد و ضوابط مرتب کئے ہیں۔ قرآن پاک نے انسان کو اصل انسان سے متعارف کرنے کے لئے بہت اہم اور نہایت مختصر فارمولے(
Equations) بتائے ہیں کہ تا کہ نوع انسانی خود آگاہی حاصل کر کے اصل انسان سے واقف ہو جائے۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھ کر سوائے افسوس اور دکھ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ مضطرب، بدحال، غمگین، خوف زدہ اور پریشان رہا ہے۔ ڈر خوف اور عدم تحفظ کسی زمانے میں بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور کبھی کم لیکن قائم ضرور رہتا ہے۔ جیسے جیسے انسان کی دل چسپیاں مادی وجود میں زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے وہ روشنیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ روشنیوں سے دوری کا نام ہی اضطراب، بے چینی اور درماندگی ہے۔ آج کے دور میں ذہنی کشمکش اور اعصابی کشاکش اپنے عروج پر ہے۔ اس سے محفوظ رہنے اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ آدمی اصل انسان سے تعارف حاصل کر لے۔ جب ہم انسان سے واقف ہو جائیں گے تو ہم لہروں اور روشنیوں کی پرمسرت ٹھنڈک میں خود کو محفوظ پائیں گے۔

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

یہاں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ انسان کی حیثیت دوسری مخلوقات کے درمیان کیا ہے؟ اور اگر یہ تمام مخلوقات سے افضل ہے تو کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کہتے ہیں:

’’ہم نے پیش کی اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر۔ انہوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ہم نے اس بار امانت کو اٹھا لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘

قرآن پاک کے اس ارشاد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تخلیق کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے سامنے اپنی امانت اور اپنی خصوصی نعمت پیش کی۔ سب اس بات سے واقف تھے کہ وہ اس عظیم بار امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن انسان اس امانت کا امین بننے پر رضامند ہو گیا اور اس نے اللہ کی خصوصی نعمت کو قبول کر لیا۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت کا حامل ہے اور یہی امانت اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ظالم اور جاہل قرار دے رہے ہیں۔

تخلیقی فارمولوں کے تحت اللہ کی ہر مخلوق باشعور اور باحواس ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے قائم ،زندہ اور متحرک ہے۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں کی گفتگو ہمارا ذہن اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان کی طرح آسمان، زمین اور زمین کے اندر تمام ذرات اور زمین کے اوپر تمام تخلیقات اور پہاڑ شعور رکھتے ہیں۔ جس طرح آدمی کے اندر عقل کام کرتی ہے اسی طرح پہاڑ بھی عقل رکھتے ہیں کیونکہ کسی بات کا اقرار یا انکار بجائے خود فہم و ادراک اور شعور کی دلیل ہے۔ آیات مقدسہ میں تفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی زندگی جس میں بصیرت شامل نہ ہو وہ ظلم اور جہالت سے تعبیر کی جاتی ہے۔ پہاڑوں، آسمانوں اور زمین نے تفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ ظلم اور جہالت کے دائرے سے باہر نکل گئے۔

انسان کو اللہ تعالیٰ کی جو امانت حاصل ہے اس سے صرف نظر ،اگر انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انسان مٹی کے ذرات سے کم عقل اور کوتاہ نظر ہے۔ زمین کی صلاحیتوں اور قوتوں پر نگاہ ڈالنے سے جن مظاہرات کے خاکے سامنے آتے ہیں وہ اپنی جگہ بجائے خود اللہ کی نشانیاں ہیں۔ زمین ایک ہے، دھوپ ایک ہے اور پانی بھی ایک ہے لیکن جب زمین تخلیق کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو ایسے ایسے رنگ بکھیرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ہی پانی زمین کی کوکھ میں جذب ہونے کے بعد اتنی تخلیقات میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ ان کا کوئی شمار و قطار نہیں۔ لگتا ہے کہ زمین کے بطن میں بے شمار سانچے نصب ہیں۔ جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے وہاں نیا روپ اختیارکر لیتا ہے۔ کبھی کیلا بن جاتا ہے، کہیں سیب بن جاتا ہے۔ کہیں انگور بن جاتا ہے، کہیں پھول بن جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک چھوٹا سا بیج جب زمین کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا ہے تو زمین اس بیج کو پرورش کر کے تناور درخت بنا دیتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے۔

انسان اور زمین کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین انسان سے زیادہ باصلاحیت ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ اس امانت سے واقف ہونا ہی انسان کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کرتا ہے اور اگر وہ اس امانت سے واقف نہیں ہے تو بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔

پیغمبروں نے ہمیں اس بات کا شعور دیا ہے کہ ہم اپنی عقل و فکر کو استعمال کر کے اپنے آپ کو حیوانات سے کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ ہمیں سیدنا محمد الرسول اللہﷺ کے عمل سے معلوم ہو جاتا ہے۔ یہ عمل غار حرا کی زندگی ہے۔ غار حرا کی زندگی سے پیشتر حضورﷺ پر نہ قرآن نازل ہوا تھا، نہ نماز روزہ فرض کیا گیا تھا اور نہ ہی اسلامی ضابطۂ حیات منظر عام پر آیا تھا۔ غار حرا کی زندگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے پیغمبرﷺ کے نقش قدم پر چل کر ایسے طریقے اختیار کریں۔ جس سے ہمارے اندر یہ بات مشاہدہ بن جائے کہ انسان کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں۔ یعنی کوئی انسان اگر چاہے تو روشنیوں کے فارمولوں سے باخبر ہو کر ٹائم اینڈ اسپیس کی گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اس کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ ہر طرف سے ذہن ہٹا کر یکسوئی سے ایک مرکز پر موڈ کو متوجہ کر لیا جائے۔ بس(Concentration) کی یہی کیفیت آدمی کو اصل انسان سے متعارف کرا دیتی ہے۔ اسی طریقہ تعلیم کا نام مراقبہ ہے۔

مراقبہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔اس کو سمجھنے کے لئے نظر کے قانون کو بیان کرنا ضروری ہے۔ آدمی دو طرح دیکھتا ہے۔ ایک براہ راست اور دوسرا بالواسطہ۔ بالواسطہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری نظر کسی چیز کے مادی خول سے ٹکرا کر رک جائے اور اس کا عکس ہمارے دماغ کی اسکرین پر منتقل ہو جائے۔ براہ راست دیکھنا یہ ہے کہ ہماری نظر کسی چیز کے مادی خول سے ٹکرائے بغیر اس کی حقیقت کا مشاہدہ کر لے۔ غیب کی دنیا کو دیکھنے کے لئے براہ راست نظر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اسی بات کو ایک دوسری طرز پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی دو(۲) حواس سے مرکب ہے یا ہمارے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک وہ دماغ ہے جو ہمیں ٹائم اور اسپیس میں قید رکھتا ہے اس کے ذریعے ہم محض مادے(Matter) کو دیکھتے، چھوتے اور سمجھتے ہیں۔ دوسرا دماغ وہ ہے جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہے۔ اس دماغ کے ذریعے ہم غیب کی دنیا یا مادے سے ماوراء دنیا سے متعارف ہو جاتے ہیں۔ اسی دماغ کے ذریعے ہم ملائکہ، اعراف، برزخ اور ملاء اعلیٰ اور بالآخر اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرتے ہیں۔ قرآن پاک کی زبان میں ان دو حواسوں یا دماغوں کا نام ’’دن‘‘ اور ’’رات‘‘ ہے۔ ’’دن‘‘ کے حواس میں انسان ٹائم اور اسپیس میں مقید ہے۔ اور ’’رات‘‘ کے حواس میں انسان ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہے۔ قرآن پاک میں جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات(غیبی انکشافات) دینے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے تیس راتوں کا اور دس راتوں کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پوری چالیس رات ہو گئی۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن اور چالیس رات کوہ طور پر رہے لیکن اللہ تعالیٰ صرف رات کا تذکرہ کر رہے ہیں، دن کا نہیں مطلب صاف ہے کہ اس پورے وقفے اور قیام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رات کے حواس غالب رہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معراج کے تذکرے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تا کہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔‘‘

معراج کے بیان میں بھی رات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معراج کے دوران حضورﷺ پر جو کچھ غیبی واردات ہوئی وہ رات کے حواس میں ہوئی۔ بیان کرنا یہ مقصود ہے کہ غیبی انکشافات صرف رات کے حواس میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ دن کے حواس کے ساتھ غیب میں داخل ہونا ممکن نہیں۔

مراقبہ دراصل اسی بات کی مشق کا نام ہے جس میں کوئی بندہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ رات کے حواس میں داخل ہو کر کائنات کے حقائق اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کر لے۔ مراقبہ کی حالت میں انسان اپنی پوری زہنی توجہ(Concentration) ایک نقطہ یا ایک تصور پر مرکوز کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے مرکزیت قائم ہوتی ہے اسی مناسبت سے انسان غیب سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر غیب کی دنیا میں داخل ہونے کے قابل ہو جاتا ہے۔

بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ مراقبہ کرنے والا کوئی بندہ آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹھا ہے لیکن مراقبہ دراصل ایک طرز فکر ہے اور وہ یہ ہے کہ مراقبہ کرنے والا ظاہری حواس کے ساتھ ساتھ باطنی حواس میں سفر کرتا ہے۔ آیئے! اب ہم یہ تلاش کریں کہ مراقبہ کی ملی جلی کیفیت ایک مخصوص انداز نشست اور ایک مخصوص طریقے کے بغیر بھی ہمارے اندر موجود ہے یا نہیں۔ ظاہری حواس سے دوری کی کیفیت ہماری زندگی میں ارادتاً یا غیر ارادی طور پر دونوں طرح واقع ہوتی ہے۔ مثلاً ہم سوتے ہیں۔ سونے کی حالت میں ہمارا دماغ ظاہری حواس سے عارضی طور پر اپنا رشتہ منقطع کر لیتا ہے۔

ہر انسان پیدائش سے موت تک دو کیفیات میں سفر کرتا ہے۔ ایک کیفیت کا نام بیداری اور دوسری کیفیت کا نام خواب یا نیند ہے۔

بیداری کی حالت میں اس کے اوپر ٹائم اسپیس(زمان و مکان) مسلط ہے اور خواب میں وہ ٹائم اسپیس کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔

خواب دراصل مراقبہ سے قریب ایک کیفیت ہے۔ مراقبہ مشق ہے اس بات کے لئے کہ خواب کو بیداری میں منتقل کر لیا جائے۔

مراقبہ میں انسان پر کم و بیش وہ تمام حالتیں وارد ہو جاتی ہیں جن میں وہ سو جاتا ہے یا خواب دیکھتا ہے۔ اس طرح مراقبہ کی مشق کرتے کرتے وہ خواب کی واردات و کیفیات میں اس طرح جذب ہو جاتا ہے کہ جس طرح وہ بیداری کی کیفیات و واردات میں زندگی گزار رہا ہے۔

قرآن پاک کی اصطلاح ’’صلوٰۃ قائم کرنا‘‘ ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم نماز میں ذہنی مرکزیت حاصل کر کے اصل انسان سے واقف ہو جائیں۔ ’’صلوٰۃ‘‘ کے ساتھ لفظ ’’قائم کرنا‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز میں ذہنی مرکزیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نماز میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذہنی مرکزیت قائم نہ ہو تو وہ نماز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔‘‘

(الماعون پارہ ۳۰)

اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں:

’’فلاح پائی ان مومنوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘

قیام صلوٰۃ اور نماز میں خشوع و خضوع حاصل کرنے کے لئے اللہ کے دوست اولیاء اللہ نے مراقبہ کو ضروری قرار دیا ہے۔ مراقبہ کرنے سے کوئی بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قربت کے ساتھ نماز قائم کرنا سیدنا حضور اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انصاف اور بصیرت کا تقاضا ہے کہ ہم تلاش کریں کہ اشرف المخلوقات ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ عام زندگی میں انسان کی جو صلاحیت مظہر بنتی ہے او رجو اعمال و حرکات سے اس سے سرزد ہوتے ہیں، صرف ان سے اشرف المخلوقات ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ پیدائش، شعور، بھوک، پیاس اور خواہشات چاہے جسمانی ہوں یا جنسی، میں انسان  دوسری مخلوقات کے برابر ہے۔ البتہ مظاہراتی زندگی سے ہٹ کر اس درجے پر فائز ہے جو آسمانوں، پہاڑوں اور زمین کو حاصل نہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا امین ہے۔ کوئی انسان اگر اس امانت سے واقفیت رکھتا ہے تو وہ اشرف المخلوقات بصورت دیگر آدم زاد اور دوسری مخلوقات میں کوئی خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت حاصل ہونے کے باوجود اس نعمت سے بے خبر رہنا یا ہونا سراسر ظلم اور جہل ہے۔

اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اس خصوصی انعام سے مستفیض ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو۔ تصوف میں اس علم کو خود آگاہی کا نام دیا جاتا ہے۔ خود آگاہی کے بعد انسان کے اوپر علوم کے جو دروازے کھل جاتے ہیں، ان میں سے گزر کر بالآخر اللہ کے ساتھ بندے کا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے اور جب کوئی بندہ مستحکم رشتے کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو وہ اس امانت سے وقوف حاصل کر لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو ودیعت فرمائی ہے۔


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔