Topics

انسان اورلوح محفوظ

انسان کا ذہن اور طرز فکر ماحول سے بنتی ہے جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اس ہی طرز کے اعمال کے نقش در و بست یا کم و بیش ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش گہرے یا ہلکے ہوتے ہیں، اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرز فکر یقین بن جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں والدین اور اس کے ارد گرد ماحول کے لوگ ذہنی پیچیدگی، بددیانتی اور تمام ایسے اعمال کے عادی ہوں جو دوسروں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ ہیں تو بچہ لازمی طور پر وہی طرز قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بچہ کا ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہو گا۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں باپ بولتے ہیں۔ وہی عادات و اطوار اختیار کرتا ہے جو اس کے والدین سے ورثہ میں اسے منتقل ہوتے ہیں۔ بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔ یہ مثال صرف بچوں کیلئے مخصوص نہیں، افراد اور قوموں پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تاایں دم جو کچھ ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ سب کا سب نوع انسانی کا ورثہ ہے اور یہی ورثہ قوموں میں اور افراد میں منتقل ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

قانون:

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شعوری اعتبار سے بالکل کور(Blank) ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر شعور کی داغ بیل پڑ چکی ہوتی ہے۔ شعور کی یہ داغ بیل ماں باپ کے شعور سے بنتی ہے۔ یعنی ماں کا شعور جمع(+) باپ کا شعور برابر(=) بچہ کا شعور۔ یہی شعور بتدریج زندگی کے تقاضوں اور حالات کے رد و بدل کے ساتھ ضرب(Multiply) ہوتا رہتا ہے۔

۱۔ بچہ کا شعور جمع(+) ماحول کا ورثہ برابر(=) فرد کا شعور۔

۲۔ تاریخی حالات و واقعات کا شعور جمع(+) آدم کا شعور برابر(=) قوم کا شعور

۳۔ تاریخی حالات کا شعور جمع (+) آدم کا شعور برابر (=) اسلاف کا شعور

بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے شعور میں آدم کا شعور شامل ہے اور یہ جمع در جمع ہو کر ارتقائی شکل و صورت اختیار کر رہا ہے۔ وہ چیزیں جب ایک دوسرے میں باہم مل کر جذب ہو جاتی ہیں تو نتیجے میں تیسری چیز وجود میں آ جاتی ہے۔

جیسے پانی میں شکر ملانے سے شربت بن جاتا ہے۔ پانی میں اتنی حرارت شامل کر دی جائے جو آگ کے قریب ترین ہو تو پانی کی وہی صفات ہو جائیں گی تو جو آگ کی ہوتی ہیں اور اگر پانی میں اتنی سردی شامل کر دی جائے جو برف کی ہے تو پانی کی وہی خصوصیات ہو جائیں گی جو برف کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب ماں اور باپ کا شعور ایک دوسرے میں جذب ہوتا ہے تو نتیجہ میں تیسرا شعور وجود میں آتا ہے جس کو ہم بچہ کہتے ہیں۔

ابھی ہم نے انسانی ارتقاء کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ارتقاء شعوری حواس پر قائم ہے۔ اور اس ارتقاء میں ہر آن اور ہر لمحہ تبدیلی ہو رہی ہے۔

بالفاظ دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ آن اور لمحات کی تبدیلی کا نام ارتقاء ہے۔

فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ البتہ جبلت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندر فطرت او رجبلت دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ بچہ کے اوپر جبلت کے مقابلے میں فطرت کا غلبہ ہوتا ہے۔ جیسے جیسے والدین کے شعور کا حاصل شعور، ماحول کے شعور سے ضرب(Multiply) ہوتا ہے۔ اصل شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جیسے جیسے اضافہ  واقع ہوتا ہے بچہ کے اوپر جبلت غالب آ جاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو جبلت کا غلبہ فطرت کے لئے پردہ بن جاتا ہے اور جوں جوں یہ پردہ دبیز ہوتا ہے آدمی فطرت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

قرآن پاک میں جن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اس پر معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی غور کرے تو یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ ان پیغمبران کرام کا سلسلہ ایک ہی خاندان سے وابستہ ہے۔ (تذکرہ ان پیغمبروں کا ہو رہا ہے جن کا ذکر قرآن پاک کی کڑی در کڑی کیا گیا ہے)۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق عرب کی سرزمین پر جتنے پیغمبر مبعوث ہوئے وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنا دیا ہے۔ اس لئے قدرت اس قانون پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’اللہ تعالیٰ کی سنت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق زمین کے ہر حصے میں پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں۔ روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے لیکن سرزمین عرب پر جو پیغمبر مبعوث ہوئے اور جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا، وہ سب حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں۔ اس بات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی طرز فکر ان کی اولاد کو منتقل ہوتی رہی۔

اس سے پہلے ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ انسانی ارتقاء مسلسل اور متواتر شعور کی منتقلی کا نام ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ غاروں میں رہتے تھے۔ پھر لوگ پتھر کے زمانے (Stoneage)میں آ گئے اور اس کے بعد پتھر کے وہی ہتھیار یا ضروریات زندگی کا سامان دوسری دھاتوں میں منتقل ہوتا چلا گیا۔

علیٰ ہذا لقیاس نوع انسانی اس ہی ورثہ پر چل رہی ہے جو اس کو آدم سے منتقل ہوا ہے۔ آدم نے نافرمانی کی اولاد کو نافرمانی کاورثہ بھی منتقل ہو گیا۔ آدم نے عجز و انکسار کے ساتھ عفو و درگذر کی درخواست کی، یہ طرز فکر بھی آدم کی اولاد میں منتقل ہو گئی۔ ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد کو وہی ورثہ ملتا ہے جس ماحول میں وہ پرورش پاتا ہے۔

طرز فکر دو ہیں۔ ایک طرز فکر بندے کو اپنے خالق سے دور کرتی ہے اور دوسری طرز فکر بندے کو خالق سے قریب کرتی ہے۔ ہم جب کسی ایسے انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرتے ہیں جس کو وہ طرز فکر حاصل ہے جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون قدرت کے مطابق ہمارے اندر وہی طرز فکر کام کرنے لگتی ہے اور ہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہو جاتے ہیں اتنا ہی اس کی طرز فکر سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ اور انتہا یہ ہے کہ دونوں کی طرز فکر ایک بن جاتی ہے۔

لوح محفوظ کے قانون کے مطابق دیکھنے کی طرزیں دو ہیں۔ ایک دیکھنا براہ راست ہوتا ہے اور ایک دیکھنا بالواسطہ۔ براہ راست دیکھنے سے منشاء یہ ہے کہ جو چیز براہ راست دیکھی جا رہی ہے وہ کسی میڈیم کے بغیر دیکھی جا رہی ہے۔ بالواسطہ دیکھنے کا مطلب ہے کہ جو چیز ہمارے سامنے ہے وہ ہم کسی پردے میں کسی ذریعہ سے یا کسی واسطے سے دیکھ رہے ہیں۔

اب ہم نظر کے اس قانون کو دوسری طرح بیان کرتے ہیں۔ کائنات میں جو کچھ ہے، جو کچھ تھا، جو کچھ ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے، وہ سب کا سب لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بذات خود اور انسانی تمام حواس بھی لوح محفوظ پر نقش ہیں۔ لوح محفوظ پر نقش ہونا یہ ہے کہ انسان بذات خود اور انسانی تمام حواس بھی  لوح محفوظ پر نقش ہیں اس میں ان تقاضوں کی کنہ موجود ہے۔ کنہ یعنی ایسی بنیاد(Base) جس میں چوں چرا، نفی اثبات اور اینچ بیچ نہیں ہے۔بس جو کچھ ہے وہ ہے۔

لوح محفوظ پر اگر بھوک پیاس کے حواس موجو دہیں تو صرف بھوک و پیاس کے حواس موجود ہیں۔ یہ حواس لوح محفوظ سے نزول کر کے لوح دوئم میں آتے ہیں تو ان میں معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی پیاس پانی سے بجھتی ہے اور بھوک کا مداوا غذا سے ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ براہ راست نظر کے قانون میں صرف بھوک پیاس کا تقاضا آتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بھوک پیاس کے تقاضے کیسے پورے کئے جائیں۔ بھوک اور پیاس کو کس طرح رفع کیا جائے۔ یہ بالواسطہ نظر کے قانون میں آتا ہے۔ یعنی ایک اطلاع ہے، جب تک وہ محض ایک اطلاع (Information) ہے یہ براہ راست طرز فکر ہے اور جب اس اطلاع میں معانی شامل کر لیے جاتے ہیں تو یہ بالواسطہ طرز فکر بن جاتی ہے۔ اس کی مثال بہت سادہ اور آسان ہے۔ ایک آدمی آنکھوں پر چشمہ نہیں پہنتا، وہ جو کچھ دیکھتا ہے براہ راست دیکھتا ہے۔ دوسرا آدمی چشمہ لگاتا ہے وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے اس کے دیکھنے میں گلاس میڈیم بن گیا ہے۔ اب اسی مثال کو اور زیادہ گہرائی میں بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ عینک میں اگر سرخ رنگ کا گلاس ہے تو ہر چیز سرخ نظر آئے گی، نیلا گلاس ہے تو ہر چیز نیلی نظر آئے گی۔ جس طرح انسانی تقاضے اور انسان کی نظر لوح محفوظ پر نقش ہے اسی طرح شیشہ، شیشے کا رنگ اور شیشے کی تمام صلاحیتیں بھی لوح محفوظ پر نقش ہیں۔ جب ہم کسی رنگین شیشے کا اپنا میڈیم بنائیں گے تو نظر وہی دیکھے گی جو ہمیں شیشہ دکھائے گا۔

بات طرز فکر کی ہو رہی تھی۔ طرز فکر اور نظر کا قانون ایک ہی بات ہے۔ طرز فکر ہی براہ راست اور بالواسطہ کام کرتی ہے۔ ایک طرز فکر ایسی ہے جو بالواسطہ کام کرتی ہے۔ اور ایک طرز فکر یہ ہے کہ براہ راست کام کرتی ہے۔ کوئی آدمی اگر ایسے شخص کی طرز فکر کو اپنے لئے واسطہ بناتا ہے جس کی طرز فکر براہ راست کام کر رہی ہے تو اس شخص کے اندر وہی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے جس طرح رنگین شیشہ آنکھ پر لگانے سے ہر چیز رنگین نظر آتی ہے۔ روحانی تعلیم دراصل طرز فکر کی اس صلاحیت کو اپنے اندر منتقل کرنے کا ایک عمل ہے۔

جتنے پیغمبر علیہم الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ان سب کی طرز فکر یہی رہی کہ ہمارا رشتہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست قائم ہے۔ اور یہ رشتہ ہی کائنات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ پیغمبروں کی تعلیمات بھی یہی رہیں کہ بندے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ بندہ ذات باری تعالیٰ کے رشتے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پیغمبران کرامؑ نے اسی طرز فکر کو مستحکم کرنے کے لئے اچھائی اور برائی کا تصور عطا کیا۔ اگر اچھائی اور برائی کا تصور نہ ہو تو نیکی اور بدی کے اختیارات ناقابل تذکرہ ہو جائیں گے۔ اس بات سے کوئی آدمی انکار کی مجال نہیں رکھتا کہ شیطان کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ شیطان یا شر کو ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے جدا نہیں کر سکتے لیکن شیطان زندگی کا ایک ایسا رخ ہے جو اللہ تعالیٰ کیلئے ناپسندیدہ ہے اور شیطنت کے برعکس اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری اللہ کیلئے پسندیدہ عمل ہے لیکن جو لوگ تخلیق کے اس قانون سے واقف ہیں اور جن کا ایمان یقین اور مشاہدہ بن جاتا ہے وہ ہر بات کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں۔

حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا:

’’آپ نے شادی نہیں کی۔ کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘

حضرت مائی صاحبہؒ نے فرمایا:

’’مجھے رحمان سے ہی فرصت نہیں۔‘‘

اسی بات کو خواجہ غریب نوازؒ نے اس طرح فرمایا ہے:

’’یاردم بدم و بار باری آید‘‘

خواجہ غریب نوازؒ فرماتے ہیں کہ میری ہر سانس کے ساتھ  اللہ بسا ہوا ہے اور میرا ہر سانس اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایسے برگزیدہ اور پاکیزہ نفس بندے جن کا ذہن ایمان و ایقان سے معمور ہوتا ہے، وہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ ہر وقت خیر کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ شر اور خیر دونوں لازم و ملزوم ہیں، بالکل اسی طرح جیسے روشنی اور تاریکی، گرم اور سرد، تلخ اور شیریں، راحت اور تکلیف، خوشی اور غم، غصہ اور محبت وغیرہ لازم و ملزوم ہیں۔ بظاہر یہ بات خلاف عقل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہمارے بندے ایسے بھی ہیں جو ہماری زبان سے بولتے ہیں، جو ہمارے کانوں سے سنتے ہیں اور ہمارے ہاتھ سے پکڑتے ہیں۔ ان بندوں کی طرز فکر میں یہ بات یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے کہ ہماری حیثیت ایک معمول کی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہیں۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو اچھائی اس لئے اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ا سے اچھا سمجھتے ہیں اوربرائی سے اس لئے بچتا  او رپرہیز کرتا ہے کہ برائی کو اللہ ناپسند کرتے ہیں۔

خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ دونوں طرز فکر ان کی امت کو منتقل ہوئیں۔ علم کے بارے میں گفتگو کے دوران حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم کے دو لفظ ملے۔ ایک میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو چھپا لیا۔ لوگوں نے کہا علم بھی کوئی چھپانے کی چیز ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر وہ لفظ میں لوگوں پر ظاہر کر دوں تو تم لوگ مجھے قتل کر دو گے۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ علم جس کو حضرت ابو ہریرہؓ نے چھپایا کسی کو منتقل نہیں ہوا یا حضرت ابو ہریرہؓ نے کسی کو نہیں سکھایا۔ بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوم میں سے ایک علم وہ ہے جو عوام الناس پر ظاہر کر دیا گیا جس کو علم شریعت کہتے ہیں اور دوسرا علم وہ ہے جو عوام الناس کی ذہنی اور شعوری سکت سے ماوراء ہے۔ علم شریعت تقرب الی اللہ کے وہ اعمال و اشغال اور قوانین ہیں جن پر ہر فرد چل کر وہ زندگی اختیار کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کیلئے پسندیدہ ہے۔ اور دوسرے علم میں اللہ تعالیٰ کے وہ اسرار و رموز ہیں جو صرف کائنات کے نظام (Administration) سے متعلق ہیں۔ ایسے بندوں کی زندگی سراپا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ کو پکارتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ تصور کہ اس کے صلے میں انہیں جنت ملے گی اور نہ ہی کوئی عمل وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اس عمل کے کرنے سے انہیں دوزخ سے نجات ملے گی۔ وہ صرف اور صرف اس لئے اللہ کو پکارتے ہیں کہ ان کے سامنے اللہ کی ذات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم صادر ہوتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس بندے سے کہا کہ آپ نے ناحق ایک جان کو ہلاک کر ڈالا تو اس بندے نے جواباً کہا کہ میں نے جو کچھ کیا اپنی طرف سے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے چاہتے تھے۔ میں نے ایسا کر دیا۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم کا وہ لفظ حاصل تھا جس کو علم شریعت کہتے ہیں اور بندے کے پاس وہ علم تھا جس کو تکوین یا (Administration) کا نام دیا جاتا ہے۔ راستے دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں۔ ایک راستہ پر طرز فکر آزاد ہے اور دوسرے راستہ پر طرز فکر پابند ہے۔ پابند طرز فکرکواطلاعات اپنے دائرہ اختیار میں قبول کرتی ہے۔ دوسرا راستہ آزاد طرز فکر ہے جس میں ایسا ویسا یا چوں چرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ رات کیلئے اگر یہ فرما دیں کہ یہ دن ہے تو آزاد طرز فکر میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ یہ رات ہے، دنیا کے چار ارب انسان یہ کہیں کہ یہ رات ہے لیکن وہ ایک تنہا آدمی یہی کہے گا کہ یہ دن ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے بعد رات اس کے مشاہدے میں دن بن جاتی ہے اور اس کے تمام حواس وہی بن جاتے ہیں جو دن کے حواس ہیں۔ اس میں ایک راز یہ ہے کہ رات دن کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ رات دن اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک تخلیق ہے جب اللہ تعالیٰ نے رات کو دن فرمایا تو تخلیقی فارمولے بدل گئے لیکن چونکہ ایک مخصوص آدمی کیلئے فرمایا اس لئے فارمولے میں تبدیلی صرف اسی آدمی کیلئے مظہر بنی۔ رات اور دن دراصل ایک تخلیق یا ایک یونٹ کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ کا نام دن ہے اور دوسرے رخ کا نام رات ہے۔ یہ دونوں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں۔
رات کے حواس آزاد طرز فکر ہے اور دن کے حواس پابند طرز فکر ہے۔ دن کے حواس وہ زندگی ہے جہاں انسان اپنے اختیارات استعمال کر کے زندگی بسر کرتا ہے۔ رات کے حواس وہ طرز فکر ہے جہاں انسانی اختیارات زیر بحث نہیں آتے۔ کوئی فرد دن کے حواس میں اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے یا غیبی دنیا میں داخل ہونے کیلئے بہرحال رات کے حواس کا سہارا لینا پڑتا ہے اور جب رات کے حواس دن کے حواس پر غالب آ جاتے ہیں تو طرز فکر آزاد ہو جاتی ہے اور آزاد طرز فکر سے انسان اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ: ہم رگ جاں سے زیادہ قریب ہیں۔

شریعت کے قوانین پر عمل کرنے والے بندے بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ آزاد طرز فکر یا رات کے حواس میں داخل ہو جائیں۔

جس حد تک وہ کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں اسی حد تک ان کی طرز فکر آزاد ہو جاتی ہے لیکن چونکہ وہ اختیارات کی حد بندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لئے آزاد طرز فکر یا رات کے حواس میں بھی یہ حد بندیاں قائم رہتی ہیں۔ حد بندیاں قائم رہنے کی وجہ سے وہ اپنی عبادات و ریاضت کا حاصل جنت کا حصول یا دوزخ سے آزادی سمجھتے ہیں۔ جبکہ جنت کا حصول صرف یہ معنی رکھتا ہے کہ جنت میں جنتی اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کرے گا۔

جب کوئی بچہ استاد کی شاگردی میں آتا ہے تو استاد اس سے کہتا ہے۔ ’’پڑھ! الف، بے، جیم وغیرہ وغیرہ‘‘ بچے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ الف، بے، جیم کیا ہے۔ وہ اپنی لاعلمی کی بنا پر جو کچھ استاد اسے سکھاتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے لیکن اگر یہی بچہ الف، بے، جیم کو قبول نہ کرے تو وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔ مفہوم یہ ہے کہ بچے کی لاعلمی اس کا علم بن جاتا ہے جو بحیثیت شاگرد استاد کی رہنمائی قبول کر لیتا ہے اور درجہ بدرجہ علم سیکھتا چلا جاتا ہے۔

ایک آدمی جو باشعور ہے اور کسی نہ کسی درجہ میں دوسرے علوم کا حامل بھی ہے، جب روحانیت کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی پوزیشن بھی ایک بچے کی ہوتی ہے۔ روحانیت میں شاگرد کو مرید اور استاد کو مراد کہا جاتا ہے۔ مرید کے اندر اگر بچے کی افتاد طبیعت نہیں ہے تو وہ مراد کی بتائی ہوئی کسی بات کو اس طرح قبول نہیں کرے گا جس طرح کوئی بچہ الف، بے، جیم کو قبول کرتا ہے۔ چونکہ روحانی علوم میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے اس لئے اسے وہی طرز فکر اختیار کرنا پڑے گی جو بچے کو الف، بے، جیم سکھاتی ہے۔

روحانی استاد اپنے شاگرد سے کہتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاؤ۔ کیوں بیٹھ جاؤ؟ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتا۔ بالکل اس طرح جس طرح کوئی استاد بچے سے کہتا ہے کہ پڑھو الف اور یہ کوئی نہیں بتاتا کہ الف کیا ہے اور کیوں ہے؟ پھر وہ کہتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے تصور شیخ کرو لیکن یہ نہیں بتاتا کہ تصور شیخ کیا ہے؟ اور کیوں کیا جائے؟ اگر ابتداء میں ہی شاگرد اپنے علم کے زعم میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ آنکھیں بند کیوں کی جائیں، تصور شیخ کیوں کیا جائے اور اسے کیا حاصل ہو گا تو یہ طرز فکر شاگرد کے عمل کے منافی ہے۔ کسی علم کو سیکھنے میں صرف یہ طرز فکر کام کرتی ہے کہ استاد کے حکم کی تعمیل کی جائے اور استاد کی تعمیل حکم یہ ہے کہ لاعلمی اس کا شعار بن جائے۔

طریقت اور شریعت کوئی الگ الگ راستے نہیں ہیں۔ شریعت میں پہلے علم ہے اور عمل بعد میں لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس علم کی بنیاد بھی لاعلمی پر ہے۔ طریقت میں عمل پہلے ہے اور علم بعد میں۔ روحانی طالب علم کو کچھ سیکھنے کے لئے ہر حال میں پہلے اپنے علم کی نفی کرنی پڑتی ہے۔

امام غزالیؒ کا ایک بڑا مشہور واقعہ ہے۔ آپ اپنے زمانے کے یکتائے روزگار تھے۔ بڑے بڑے جید علماء ان کے علوم سے استفادہ کرتے تھے۔ بیٹھے بیٹھے ان کو خیال آیا کہ خانقاہی نظام کو بھی دیکھنا چاہئے، یہ کیا ہے؟ روایات مختلف، کوئی تین سال کہتا ہے کوئی سات سال وہ عرصہ دراز تک لوگوں سے ملتے رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے دور دراز کا سفر بھی کیا ۔ بالآخر مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔

کسی نے پوچھا:’’ آپ ابو بکر شبلی سے بھی ملے؟‘‘ امام غزالیؒ نے فرمایا کہ میں نے اب تک روحانی مکتبہ فکر کا کوئی مشہور آدمی نہیں چھوڑا جس سے ملاقات نہ کی ہو۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب کہانیاں ہیں جو فقراء نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھی ہیں۔

پھر انہیں خود ہی خیال آیا کہ ایک مشہور آدمی رہ گیا ہے اس سے بھی کیوں نہ ملاقات کر لی جائے۔

قصہ کوتاہ، وہ ملاقات کے لئے عازم سفر ہوئے۔ مختلف تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ جس وقت وہ عازم سفر ہوئے تو ان کا لباس اور سواری میں گھوڑے کے اوپر زین وغیرہ کی مالیت اس زمانہ میں بیس ہزار اشرفی تھی۔ کیا یہ واقعتاً صحیح ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ امام غزالیؒ بہت شان و شوکت اور دبدبہ کی زندگی بسر کرتے تھے۔ منزلیں طے کر کے جب وہ حضرت ابو بکر شبلیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ایک مسجد میں بیٹھے ہوئے اپنی گڈری سی رہی تھے۔ امام غزالیؒ حضرت ابو بکر شبلیؒ کی پشت کی جانب کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا کہ غزالیؒ آ گیا۔ تو نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے۔ شریعت میں علم پہلے ہے، عمل بعد میں اور طریقت میں عمل پہلے اور علم بعد میں ہے۔ اگر تو اس بات پر قائم رہ سکتا ہے تو میرے پاس قیام کر ورنہ واپس چلا جا۔ امام غزالیؒ نے ایک منٹ توقف کیا اور کہا کہ میں آپ کے پاس قیام کروں گا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا کہ سامنے مسجد کے کونے میں جا کر کھڑے ہو جاؤ اور وہ مودب ایستادہ ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد بلایا دعا سلام ہوئی اور اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ بہت خاطر مدارت کی۔ امام غزالیؒ بہت خوش ہوئے کہ مجھے بہت اچھا روحانی استاد مل گیا ہے، جس نے میرے اوپر آرام و آسائش کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ چند روز بعد حضرت شبلیؒ نے امام غزالیؒ سے فرمایا: ’’بھائی! اب کام شروع ہو جانا چاہئے۔ اور کام کی ابتدا یہ ہے کہ ایک بوری کھجور لے کر شہر کے بازار میں جاؤ اور بوری کھول کر یہ اعلان کرو کہ جو آدمی میرے سر پر ایک چپت رسید کرے گا، اسے ایک کھجور ملے گی۔ امام غزالیؒ شام کو جب کھجوریں تقسیم کر کے واپس آئے تو پوچھا۔ حضرت ! یہ کام مجھے کتنے عرصے تک کرنا پڑے گا؟ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا ایک سال اور وہ ایک سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ سال پورا ہوا تو امام غزالیؒ نے یاد دہانی کرائی کہ حضور ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا ایک سال اور۔ دو سال پورے ہونے کے بعد فرمایا ایک سال اور۔ جب تین سال پورے ہو گئے اور امام غزالیؒ نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی تو حضرت ابو بکر شبلیؒ نے ان سے پوچھا۔ کیا سال ابھی پورا نہیں ہوا؟ امام غزالیؒ نے فرمایا سال پورا ہوا ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ کام پورا ہو گیا۔ اب کھجوریں لے کے جانے کی ضرورت نہیں۔ اور انہوں نے غزالیؒ کو وہ علم جس کی تلاش میں وہ سالہاسال سے سرگرداں تھے منتقل کر دیا۔ امام غزالیؒ جب بغداد واپس پہنچے تو صورتحال یہ تھی کہ معمولی کپڑے زیب تن تھے۔ ہاتھ میں ایک ڈول تھا۔ ڈول میں رسی بندھی ہوئی تھی۔ شہر والوں کو جب علم ہوا کہ امام غزالیؒ واپس تشریف لا رہے ہیں تو ان کے استقبال کیلئے پورا شہر امنڈ آیا۔ لوگوں نے جب آپ کو ان پھٹے پرانے لباس میں دیکھا تو حیران و پریشان ہوئے۔ اور کہا، یہ آپ نے کیا صورت بنا رکھی ہے؟ امام غزالیؒ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم! اگر میرے اوپر یہ وقت نہ آتا تو میری ساری زندگی ضائع ہو جاتی۔ امام غزالیؒ کے یہ الفاظ بہت فکر طلب ہیں۔ اپنے زمانے کا یکتا عالم فاضل دانشور یہ کہہ رہا ہے کہ یہ علم اگر حاصل نہ ہوتا جو تین سال تک سر پر چپت کھا کر حاصل ہوا ہے تو زندگی ضائع ہو جاتی۔

امام غزالیؒ اگر اس وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ سر پر ایک چپت کھانے کے بعد ایک کھجور تقسیم کرو، یہ سوال کر دیتے کہ جناب اس کی علمی توجیہہ کیا ہے اور سر پر چپت کھانے سے رحانیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے تو انہیں یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔
یہی صورت حال روحانی استاد(مراد) شاگرد(مرید) کی ہے۔ مرید کے اندر جب تک اپنی انا کا علم موجود ہے وہ مراد سے کچھ نہیں سیکھ سکتا۔

ہم جب کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو پہلے اللہ کی نفی کرتے ہیں۔ پھر اللہ کا اقرار کرتے ہیں۔ لا الٰہ کوئی معبود نہیں۔ الا اللہ ، مگر اللہ۔ اس کی عام تفسیر تو یہ ہے کہ حضورﷺ کی بعثت کے زمانے میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ لوگ بتوں کو خدا مانتے تھے۔ لا الٰہ کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ بت معبود نہیں مگر اللہ معبود ہے۔ لیکن باریک بین نظر اور گہرے تفکر اور سنجیدہ فہم سے غور کیا جائے تو اس کی تشریح یہ ہو گی کہ لا الٰہ ہمارے( شعوری) علوم کے احاطے میں اللہ کے جاننے کی جو طرز ہے ہم اس کی نفی کرتے ہیں۔ اور اللہ کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح اللہ خود کو اللہ کہتا ہے اور محمدﷺ اللہ کے پیغامبر ہیں یعنی محمدﷺ نے بحیثیت رسول اللہﷺ کو جس طرح بتایا ہم اسی طرح اللہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ پہلے ہم نے علم کی نفی کی، پھر علم کا اثبات کیا۔ جب علم کی نفی کی تو اپنی نفی کی اور جب اپنی نفی کی تو اپنی نفی کی تو اللہ کے سوا کچھ باقی نہ بچا۔

ہم جب کسی چیز کو اپناتے ہیں تو اس میں طرز فکر کو پہلے دخل ہوتا ہے۔ روحانیت کا اگر مجموعی پر کوئی دوسرا مترادف لفظ ہو سکتا ہے تو وہ دراصل طرز فکر ہے۔ چونکہ عام آدم طرز فکر قائم کرنے کے اصول و قواعد سے واقف نہیں ہوتا۔ اس لئے اسے ایسے آدمی کی تلاش ہوتی ہے جو طرز فکر قائم کرنے کے قانون سے واقفیت رکھتا ہو۔ ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ ایک بندے نے ایک ایسا بندہ تلاش کیا جس کی طرز فکر حضورﷺ سے وابستہ ہے۔ اس کی قربت میں بندے کو وہی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے اور جب بندہ کی طرز فکر اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ حضورﷺ کی طرز فکر سے قریب ہو جاتا ہے اور اس طرز فکر میں اتنی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ سے قریب ہو جاتا ہے۔ حضورﷺ کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرز فکر کام کر رہی ہے۔ حضورﷺ کی طرز فکر سے قریب ہونے کے بعد بندہ اس طرز فکر سے قریب ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘ (حدیث قدسی)
زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے تو زندگی کامیاب ہے ورنہ پوری زندگی خسارے اور نقصان کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

احسن الخالقین

سوال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تخلیق کا وصف اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی کسی کو حاصل ہے۔ اگر یہ وصف اللہ کے علاوہ بھی کسی کو حاصل ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں کوئی ان کا ثانی نہیں؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بات ارشاد کی ہے کہ ’’میں تخلیق کرنے والوں میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت خالق کے ایک ایسے خالق ہیں کہ جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جس خدوخال میں موجود ہے، جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس کی حکم کی تعمیل کے لئے تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر اس تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں۔

’’خالقین‘‘ کا لفظ ہمیں یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے علاوہ دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ جب بندوں نے بجلی سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ نے ایک لفظ ’’کن‘‘ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیار طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جو چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور بے شمار دوسری چیزیں۔ روحانی نقطۂ نظر سے اللہ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا دراصل آدم زاد کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ ’’علم الاسماء‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسا علم سکھا دیا کہ جو براہ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں وجود میں آ جاتی ہیں۔

کائنات دراصل علم ہے، ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو واقف کر دیا ہے لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ کر دیئے۔

جن لوگوں نے لوہے(بمعنی دھات) کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کے اندر گہرائی میں تفکر کیا تو لوہے کی لامحدود صلاحیتیں سامنے آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کو متحرک کر دیا تو لوہا ایک ایسی عظیم شئے بن کر سامنے آیا کہ جس سے موجودہ سائنس کی ہر ترقی کسی نہ کسی طرح وابستہ ہے۔ یہ ایک تصرف ہے جو وسائل میں کیا جاتا ہے یعنی ان وسائل میں جن وسائل کا ظاہر وجود ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی کا بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کر لیتا ہے تو بہت ساری تخلیقات وجود میں لا سکتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر ہم سونے کے ذرات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ لوہے کے ذرات اکٹھا کر کے خاص پروسیس سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کرتی ہیں اور ان مقداروں کو ایک لفظ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے ’’سونا‘‘ اور سونا بن جاتا ہے۔

ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ جب وہ کوئی چیز تخلیق کرتے ہیں تو تخلیق کے لئے جتنے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں وہ خود بخود موجود ہو جاتے ہیں۔ بندے کا تصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرف کرتا ہے۔ اس تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنانا اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرف کرنا ہے۔ یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے۔ ان روشنیوں کو متحرک کر کے کسی چیز کو تخلیق کرنا۔

روحانی دنیا میں ان روشنیوں کا نام نسمہ اور سائنسی دنیا میں ان رشنیوں کا نام اورا(AURA) ہے۔ جب کوئی بندہ روشنیوں کے اس علم کو جان لیتا ہے تو اس کے اوپر تخلیقی فارمولے واضح ہونے لگتے ہیں۔

انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور یہ علم اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ یہ بات جانتے ہیں کہ انسان سے ذیلی تخلیقات وجو دمیں آتی رہیں گی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے احسن الخالقین ارشاد فرمایا ہے۔

سوال: روحانی شاگرد کو روحانی استاد کی طرز فکر کس طرح حاصل ہوتی ہے۔

جواب: روحانی استاد یا مراد انبیاء کی طرز فکر کا وارث ہوتا ہے۔ جب کوئی شاگرد اپنے روحانی استاد کی طرز فکر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ استاد کی نسبت حاصل کرے۔ نسبت حاصل کرنے کا پہلا سبق تصور ہے۔ جب روحانی شاگرد یا سالک آنکھیں بند کر کے ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اپنے روحانی استاد کا تصور کرتا ہے تو روحانی استاد کے اندر کام کرنے والی لہریں اور طرز فکر منتقل ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

طرز فکر روشنیوں کا وہ ذخیرہ ہے جو حواس بناتی ہیں، شعور بناتی ہیں، زندگی کی ایک نہج بناتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ جب کوئی روحانی شاگرد اپنے روحانی استاد کے تصور میں گم ہو جاتا ہے تو اس کی چال ڈھال انداز گفتگو اور شکل وصورت میں ایسی نمایاں مشابہت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ یہ اپنے روحانی استاد کا عکس ہے۔ تصور کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کر کے ذہن کو ہر طرف سے آزاد کر کے بند آنکھوں سے یہ سوچا جائے کہ روحانی استاد کی طرز فکر میں کام کرنے والی روشنیاں میرے اندر منتقل ہو رہی ہیں۔

سوال: روحانی علوم حاصل کرنے میں زیادہ وقت کیوں لگ جاتا ہے؟

جواب: روحانیت کے راستوں پر چلنے والے تمام طلباء کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ روحانی علوم دوسرے تمام علوم پر حاوی ہیں اور یہ کہ روحانی علوم لاشعوری صلاحیت کے تابع ہیں۔ ان علوم کے سیکھنے میں جو وقت لگتا ہے وہ شعور کے اندر سکت پیدا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ اگر دو چھٹانک وزن اٹھانے کی سکت رکھتا ہے اور اس کے اوپر پانچ سیر وزن رکھ دیا جائے تو اس کو نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح اگر آپ قاعدہ پڑھنے والے بچے سے یہ توقع رکھیں کہ وہ بڑی کلاسوں کے سوال حل کرے گا تو یہ عقلمندی کی بات نہیں ہو گی۔ بچہ کے اندر جیسے جیسے سکت پیدا ہوتی ہے علوم کے دروازے کھلتے رہتے ہیں۔

اس کی مثال یہ ہے کہ پہلی جماعت کا علم حاصل کرنے میں اتنا وقت نہیں لگتا جتنا وقت پی۔ایچ۔ڈی(Ph.D) کرنے میں لگتا ہے۔
سوال: تصورات جسم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور تصورات کی پیچیدگی سے انسان کس طرح پریشان اور بیمار ہو جاتا ہے۔

تصورات کہاں سے آتے ہیں؟

جواب: انسانی زندگی تین دائروں میں تقسیم ہے۔ مادی، ذہنی اور ماورائے، ذہنی مادی دائرے کا طبیعات سے تعلق ہے۔ ذہنی دائرے کا نفسیات سے اور ماورائے ذہنی دائرے مابعد النفسیات یا پیراسائیکلوجی سے متعلق ہیں۔

مابعد النفسیات میں طبیعیات اور نفسیات سے ہٹ کر ان ایجنسیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو کائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اور کائنات کے قوانین عمل کا احاطہ کرتی ہیں۔ علم مابعد النفسیات(روحانیت) اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے فارمولوں سے کہاں تک مانوس ہے۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک ہیں۔

ہمارے لئے ان کی افادیت کیا ہے اور ان سے آگاہی حاصل کرکے کس طرح زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے قائم ہے۔ کوئی خیال ہمارے لئے مسرت آگیں ہوتا ہے اور کوئی خیال انتہائی کربناک۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے جیسے ہی خیال کی یہ رو دماغ سے ٹکراتی ہے، حادثات سے متعلق پریشانیاں کڑی در کڑی آدمی اپنے اندر محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہی حال خوشی اور خوش حال زندگی کا ہے۔ جب انسانی تصورات ایسے نقطۂ پر مرکوز ہو جاتے ہیں جس میں شادمانی اور خوش حالی کی تصویریں موجود ہوں تو انسان خوش ہو جاتا ہے۔ خوشی اور غم دونوں تصورات سے وابستہ ہیں


Ism E Azam

خواجہ شمس الدین عظیمی


نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔