Topics

ملائکہ کی قسمیں:

نورانی فرشتے:

ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے علم میں مقرر ہے۔ کائنات کے مجموعی تقاضوں کے مطابق نظام چلانا ان کی ڈیوٹی ہے۔

ملاء اعلیٰ:

یہ فرشتے پہلی قسم کے فرشتوں سے زیادہ قریب ہیں۔

انسانی روحیں:

یہ وہ روحیں ہیں جو ملاء اعلیٰ سے علم سیکھتی ہیں اور یہ لوگ ایسے اعمال کرتے ہیں جن سے ان کا ذہن و قلب مصفا ہو جاتا ہے۔ پاکیزگی اور نور کے ذخیرے کی وجہ سے وہ ملاء اعلیٰ کی بات سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ مرنے کے بعد ان فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں نیک روحوں اور فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے اس مقام کا نام حظیرۃ القدس ہے۔

حظیرۃ القدس:

حظیرۃ القدس میں جمع ہونے والے فرشتے اور روحیں انسانوں کو تباہی اور مصیبت سے بچانے کے طریقوں پر سوچ بچار کرتے ہیں اور سب متفق ہو کر یہ طریقے انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس کام کیلئے وہ انسان منتخب کیا جاتا ہے جو سب انسانوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ ہو۔ پاکیزہ شخص کے لئے لوگوں کو Inspireکیا جاتا ہے کہ اس آدمی کی پیروی کریں۔

پھر ایک جماعت بن جاتی ہے جو انسانیت کی خدمت کرتی ہے جن باتوں میں قوم کی بھلائی اور بہتری ہو۔ اس پاکیزہ بندے کی روح میں وحی کے ذریعہ خواب میں اور کبھی غیب کی حالت میں وہ باتیں داخل کر دی جاتی ہیں۔ اس پاکیزہ روح انسان سے ملاء اعلیٰ رو برو بات کرتے ہیں۔

ملائکۂ اسفل:

اسفل کے فرشتے ملاء اعلیٰ سے دوسرے درجے میں ہوتے ہیں لیکن یہ نورانی فرشتوں کے مرتبے کے برابر نہیں ہوتے۔ یہ فرشتے اپنی طرف سے کچھ نہیں سوچتے۔ اوپر سے حکم آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ وہ اتنی ہی بات جانتے ہیں جتنی بات اوپر کے فرشتے انہیں سمجھا دیں۔ فرشتے مشین کی طرح کام کرتے ہیں ان کے سامنے ذاتی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ صرف وہی عمل کرتے ہیں جس کا انہیں اوپر کے فرشتوں کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔ یہ فرشتے حرکت تبدیل کرنے میں بھی اپنا اثر ڈالتے ہیں۔

ملائکہ سماوی:

اللہ تعالیٰ کا حکم سب سے پہلے حظیرۃ القدس میں آتا ہے وہاں ملاء اعلیٰ اس حکم کو سن کر اپنے نیچے درجے کے فرشتوں کو پہنچاتے ہیں۔ نیچے کے فرشتے سن کر اپنے نیچے کے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم سناتے ہیں۔ یہ فرشتے ملائکہ سماوی ہیں۔ ملائکہ سماوی اللہ تعالیٰ کا حکم سن کر ملائکہ عنصری کو پہنچاتے ہیں۔

ملائکہ عنصری:

ملائکہ عنصری اللہ تعالیٰ کا حکم سن کر مخلوق کو Inspireکرتے ہیں۔ اگر دو جماعتوں میں لڑائی ہو جاتی ہے تو یہ فرشتے وہاں پہنچ کر حالات کے مطابق ایک جماعت کے دلوں میں بہادری، ثابت قدمی اور فتح کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور دوسری جماعت کے دلوں میں کمزوری بزدلی کے خیالات Inspireکرتے ہیں تا کہ اللہ کے چاہنے کے مطابق نتیجہ نکلے اور وہ جماعت غالب آ جائے جس کا غلبہ اللہ چاہتا ہے ان فرشتوں کا نام ملائکہ اسفل ہے۔

کراماً کاتبین:

فرشتوں کی ایک قسم کراماً کاتبین ہے جن کی ہر انسان کے ساتھ ڈیوٹی ہے۔ ایک فرشتہ ہر نیک کام کی ویڈیو فلم بناتا ہے اور دوسرا ہر برے کام کی ویڈیو فلم بناتا ہے۔

بیت المعمور:

سدرۃ المنتہا کے نیچے بیت المعمور ہے۔ بیت المعمور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا مقام ہے اس ہی مقام میں ملاء اعلیٰ رہتے ہیں۔ ان کے اوپر جو فرشتے ہیں ان کا نام ملائکہ نوری ہے۔ ملائکہ نوری کے نیچے ملاء اعلیٰ، ملاء اعلیٰ کے نیچے ملائکہ سماوی اور ملائکہ سماوی کے نیچے ملائکہ عنصری ہیں

فرشتوں کے گروہ:

گروہ جبرائیل ؑ گروہ میکائیل ؑ گروہ عزرائیل ؑ گروہ اسرافیل ؑ 

ہر گروہ کی الگ الگ صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کا الگ الگ استعمال ہے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کے قاصد ہیں۔ وحی پہنچانا اور الہام کرنا ان کا وصف ہے۔

حضرت میکائیل علیہ السلام کے فرائض میں بارش کے سارے معاملات ہیں۔

حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ذمہ موت سے متعلق معاملات ہیں۔

حضرت اسرافیل علیہ السلام کی ڈیوٹی میں قیامت سے متعلق معاملات ہیں۔

فرشتوں کی صلاحیتیں:

سات آسمان میں ہر آسمان ایک زون ہے۔

ہر زون کے فرشتے الگ الگ ہیں لیکن ساتوں آسمانوں میں موجود فرشتوں کو ملائکہ سماوی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو جو صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ فرشتوں کے پروں سے ظاہر ہوتی ہیں۔ فرشتوں کے پر صلاحیتوں اور صفات کے مطابق چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ پروں کی تعداد میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جس طرح مور کے پر ہوتے ہیں اور پروں پر خوبصورت نقش و نگار ہوتے ہیں اسی طرح فرشتوں کے پروں پر بھی لاشمار نقوش ہوتے ہیں۔ ہر نقش ایک صلاحیت ہے۔ فرشتوں کے پروں میں سے نور کے جھماکے ہوتے ہیں۔

دوسری قسم کے فرشتوں کے پروں میں سبز روشنیوں کا انعکاس ہوتا ہے۔

کائناتی نظام:

جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، کراماً کاتبین، منکر نکیر، ملائکہ رضوان، ملائکہ زمانیا وغیرہ۔ فرشتوں کے کئی طبقے ہیں۔ سارے فرشتے کائناتی نظام میں ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرہ برابر فرق نہیں کرتے۔ فرشتوں کی تعداد کا کسی بھی طرح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ تخلیقی نظام میں ہر انسان کے ساتھ 20ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔

اس وقت ہماری دنیا کی آبادی چھ ارب ہے جبکہ ہماری دنیا کی طرح کروڑوں دنیائیں اور بھی موجود ہیں۔

دوسری دنیاؤں کے مقابلہ میں ہماری زمین سب سے چھوٹا کرّہ ہے۔ سیر کے دوران صوفی کو ہماری زمین ایسی نظر آتی ہے جیسے بڑے گنبد پر سوئی کی نوک سے نشان لگا دیا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دنیا کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے اور یہ سب ختم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی باتیں باقی رہیں گی۔

اعمال نامہ:

آدمی جب مر جاتا ہے تو جو کچھ اس نے دنیا میں کیا ہے وہ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ ذرہ برابر نیکی ہو۔ چاہے ذرہ برابر برائی ہو۔ ہر عمل اور ہر قول کی کراماً کاتبین ویڈیو فلم بناتے رہتے ہیں۔ انسان مرنے کے بعد یہی فلم دیکھتا رہتا ہے۔

مثلاً ایک آدمی نے چوری کا ارادہ کیا۔ نیکی لکھنے والے فرشتے نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ یہ برا کام ہے اسے نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ اس عمل سے ناخوش ہوتا ہے لیکن چور نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور وہ چوری کے لئے گھر سے نکل گیا۔ کسی گھر میں نقب لگائی اور سامان چوری کر کے اپنے گھر لے آیا۔ مذہبی اعتبار سے اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ چوری کی سزا ہاتھ کٹنا ہے۔

مرنے کے بعد اس چور کو یہ پوری فلم دکھائی جائے گی۔ اور چوری کے نتیجہ میں فلم میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا۔ چور جب اپنی ذات سے متعلق فلم دیکھتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ میں فلم دیکھ رہا ہوں۔

جب اس کا ہاتھ کٹتا ہے تو وہ فلم میں اپنا ہاتھ کٹا ہوا دیکھتا ہے اور اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔

ایک نیک آدمی نماز کے لئے مسجد گیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد اللہ کے گھر میں آرام سے بیٹھ گیا۔ اللہ سے تعلق کی بناء پر مسجد میں اسے سکون ملا۔ اللہ کے ذکر کی نورانی لہروں نے اسے راحت بخشی اور وہ اللہ کی میزبانی سے خوش ہو گیا۔ یہ فلم گھر سے نکلنے کے وقت سے مسجد میں بیٹھنے اور نورانی لہروں سے سیراب ہونے کے وقت تک بنتی رہتی ہے۔ جب یہ بندہ دنیا سے رخصت ہو جائے گا تو اسے نیکی کے عمل اور نیکی کی فلم دکھائی جائے گی۔ یہ فلم دیکھ کر اسے خوشی او رسکون ملے گا۔

منکر نکیر مرنے کے بعد پہلی ملاقات میں سوالات کر کے یہ بتا دیتے ہیں کہ نیکی اور برائی میں بندہ کی کیا حیثیت ہے۔ اگر وہ نیک ہے تو جنت کے نظاروں سے مستفیض ہوتا ہے، برائی کا پیکر ہے تو دوزخ کا عذاب نظروں کے سامنے آتا رہتا ہے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے