Topics

مفرد لہریں۔ مرکب لہریں

ہر جسمانی وجود کے اوپر ایک اور جسم ہے۔ اس جسم کو صوفیاء ہیولیٰ کہتے ہیں۔ روحانی آنکھ اس جسم کے طول و عرض اور جسم میں تمام خدوخال ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک، دماغ کا بھی مشاہدہ کرتی ہے۔ نہ صرف مشاہدہ کرتی ہے بلکہ ان کے اندر روشنیوں کے ٹھوس پن کو بھی محسوس کرتی ہے۔

تخلیق کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ پہلے روشنیوں سے بنا ہوا جسم تخلیق ہوتا ہے۔ پھر مادی وجود کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ لیکن دونوں میں ٹھوس پن موجود ہے۔ مفرد لہر ایسی حرکات کا مجموعہ ہے جو ایک سمت سے دوسری سمت میں جاری و ساری ہے۔ ایک سمت سے دوسری سمت مفرد لہریں ایک دوسرے میں پیوست ہو جائیں اور اس کے اوپر نقش و نگار بن جائیں تو اس کا نام جن اور جنات کی دنیا ہے۔ لیکن اگر مرکب لہریں ایک دوسرے میں پیوست ہو جائیں اس طرح کہ پیوست بھی رہیں اور فاصلہ بھی ختم نہ ہو اور اس بساط پر نقش و نگار بن جائیں تو اس کا نام انسان اور انسان کی دنیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مفرد لہروں کے اوپر نقش و نگار یعنی آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پیر وغیرہ جنات کی دنیا ہے اور مرکب لہروں پر نقش و نگار یعنی ہاتھ، پیر اور دوسرے اعضاء اگر نقش ہوں تو انسانوں کی دنیا ہے۔

شاگرد جنات:

دنیا میں جس طرح انسان کے علاوہ اور بے شمار مخلوقات ہیں۔ اسی طرح جنات کی دنیا میں بھی زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے اور تمام مخلوقات موجود ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انسان مرکب لہروں کی تخلیق ہے۔ جبکہ جنات مفرد لہروں سے بنے ہوئے ہیں۔ جس طرح مرکب لہریں کی تخلیق میں پانچ حسیں کام کرتی ہیں۔ اسی طرح مفرد لہروں کی مخلوق میں بھی پانچ حسیں کام کرتی ہیں۔ جنات بولتے بھی ہیں، جنات سنتے بھی ہیں، جنات کی دنیا میں کھیتی باڑی بھی ہوتی ہے اور جنات کی دنیا میں سائنسی ایجادات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ جنات کی دنیا میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔

دس لاکھ چھپن ہزار فٹ:

جنات کی دنیا ہماری زمین کے گلوب کی حدود میں ہے اور زمین سے تقریباً دس لاکھ چھپن ہزار فٹ اوپر خلاء میں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ بہت بڑی زمین کے رقبے پر سو منزلہ عمارت پر چھت ڈال دی جائے اور چھت اس طرح بنائی جائے کہ اس کے اوپر کھیتی باڑی کی جائے۔ کوئی مکان تعمیر کر دیا جائے، پھول پھلواری لگا دی جائے اور وہاں مخلوق بھی آباد ہو۔ چھت پر موجود مخلوق کو نہ تو زمین سے انسان دیکھ سکے اور نہ ہی چھت پر سے جنات انسان کو دیکھ سکیں۔

جنات کی عمریں:

انسانی دنیا میں ماں کے بطن سے بچہ نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے اور جنات کی دنیا میں ماں کے بطن سے بچہ انسانی اعداد و شمار کے مطابق نو سال میں پیدا ہوتا ہے۔ اس ہی اندازہ کے مطابق جنات کی عمریں ہوتی ہیں۔

جنات اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں۔ دونوں دنیاوی علوم کی طرح روحانی علوم سیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دو مکلف مخلوق کا تذکرہ کیا ہے۔

’’اے گروہ جنات اور گروہ انسان! تم زمین اور آسمان کے کناروں سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے‘‘۔

(سورۂ الرحمٰن۔ آیت نمبر۳۳)

سلطان کا مطلب روحانی صلاحیتیں ہیں۔ اگر کوئی انسان یا جن روحانی صلاحیت کو بیدار اور متحرک کر لے تو آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل کر غیب کی دنیا کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

سلطان:

جتنے بھی انبیاء تشریف لائے ان سب کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ انسان مادی وجود میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرے اور اللہ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے غیب کی دنیا میں داخل ہونا ضروری ہے جو سلطان (روح) کے ذریعہ ممکن ہے۔

یہ اس لئے ممکن ہے کہ روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ اللہ کو دیکھ چکی ہے اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ اللہ کو دیکھ کر اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے