Topics

تصوف‘ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ


"اسلام میں روحانی زندگی کا آغاز حضور اکرمﷺ کے زمانے میں ہوا حضورﷺ اور ان کے صحابہ ہر بات اور ہر عمل کو اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اللہ ہی کی جانب متوجہ رہتے تھے، ان کا جینا مرنا سب اللہ کے لئے تھا"۔ بلاشبہ حضرت محمدﷺ کے ان تربیت یافتہ حضرات کے سینے روحانیت اور علم حضوری سے لبریز تھے۔ ایک گروہ تبصرہ کرتا ہے کہ روحانیت اور تصوف کے حوالے سے اولیاء اللہ کی کرامات اور کشف کا تذکرہ بڑی شد و مد سے کیا جاتا ہے لیکن صحابہ کرامؓ کی کرامات، کشف اور خرق عادات کا کتابوں میں تذکرہ نہیں ہے۔ عوام الناس کے ذہنوں سے یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے اسلام کی مستند کتابوں میں سے صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کی کرامات درج کی جا رہی ہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ:

حضرت صدیق اکبرؓ نے جناب عائشہؓ کو بیس وسق تقریباً پانچ من کھجوریں ہبہ کی تھیں اور اپنی وفات سے پہلے فرمایا:
’’اے میری بیٹی عائشہؓ! مال و دولت کے باب میں مجھے تم سے زیادہ کوئی پیارا نہیں۔ لاریب بیس وسق کھجوریں میں نے تمہیں ہبہ کیں تھیں۔ اگر تم نے انہیں توڑ کر اکٹھا کر لیا ہوتا تو وہ تمہاری مملوکہ ہو جاتیں لیکن اب وہ تمام وارثوں کا مال ہے۔ جس میں تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں شریک ہیں۔ اس کو قرآن کریم کے احکام کے موافق تقسیم کرنا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا۔ ابا جان! اگر بہت زیادہ بھی ہوتیں تب بھی اس ہبہ سے دست بردار ہو جاتی لیکن یہ تو فرمایئے کہ میری بہن تو صرف اسماءؓ ہے۔ یہ دوسری بہن کون ہے؟ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ بنت خارجہؓ کے پیٹ میں مجھے لڑکی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘ بالآخر ام کلثومؓ پیدا ہوئیں۔

سیدنا فاروق اعظم عمر بن خطابؓ:

حضرت عمرؓ ایک دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اچانک فرمایا! اے ساریہؓ پہاڑ کی طرف ہٹ جا۔ آپؓ نے تین دفعہ اسی طرح فرمایا کیونکہ پہاڑ کی طرف ہٹ جانے سے مسلمانوں کے غالب ہو جانے کی امید تھی۔ تھوڑی دنوں کے بعد شعب نہاوند سے فوج کا قاصد آیا تو اس سے لڑائی کا حال پوچھا۔ قاصد نے عرض کیا!

اے امیر المومنین! ایک دن شکست ہونے کو تھی کہ ہمیں ایک آواز سنائی دی جیسے کوئی پکار کر کہہ رہا ہو کہ اے ساریہؓ پہاڑ کی طرف ہٹ جا۔ اس آواز کو ہم نے تین مرتبہ سنا اور ہم نے پہاڑ کی طرف سے ہٹ کر سہارا لیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین پر فتح دی۔

سیدنا عثمان ذوالنورینؓ:

حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے آزاد کردہ غلام محجن کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپؓ کے ساتھ آپؓ کی ایک زمین پر گیا جہاں ایک عورت نے جو کسی تکلیف میں مبتلا تھی آپؓ کے پاس آ کر عرض کیا۔ اے امیر المومنین! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے۔ اس پر آپؓ نے مجھے حکم دیا کہ اس عورت کو باہر نکال دو۔ چنانچہ میں نے اس کو بھگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس عورت نے آ کر پھر اس غلطی کا اعتراف کیا۔ انہوں نے فرمایا۔ اسے باہر نکال دو۔ تیسری مرتبہ اس عورت نے پھر آ کر کہا۔ اے خلیفہ وقت میں نے بلاشک و شبہ گناہ کبیرہ کیا ہے میرے اوپر حدِ زنا جاری فرما دیں۔

حضرت عثمانؓ نے ارشاد فرمایا۔ اے محجن! اس عورت پر مصیبت آ پڑی ہے اور وہ مصیبت اور تکلیف ہمیشہ فساد کا سبب ہوتی ہے۔ اس کو پیٹ بھر کر روٹی اور تن بھر کپڑا دے، اس دیوانی کو میں اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے اسے آرام سے رکھا۔ تھوڑے دنوں بعد اس کے ہوش و حواس درست ہوئے تو وہ مطمئن ہو گئی۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اچھا اب اسے کھجور، آٹا اور کشمش دے دے۔ میں نے سامان گدھے پر لاد کر اسے دے دیا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ اب بھی تو وہی کہتی ہے جو امیر المومنین کے سامنے کہہ رہی تھی اس نے کہا نہیں میں نے جو کچھ کہا تھا تکلیفوں اور مصیبتوں کے پہاڑ پھٹ پڑنے کی وجہ سے کہا تھا۔ تا کہ حد لگا دی جائے اور مجھے مصیبتوں سے نجات مل جائے۔

سیدنا علی ابن ابی طالبؓ:

حضرت ابو رافعؓ کہتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت علیؓ کو جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا اور وہ خیبر کے قلعے کے پاس پہنچے تو خیبر والے آپؓ پر ٹوٹ پڑے۔ بڑی خونریزی ہوئی۔ ایک یہودی نے وار کر کے آپؓ کے ہاتھ سے ڈھال

گرا دی۔ حضرت علیؓ آگے بڑھے اور قلعے کا ایک دروازہ اٹھا کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہو جانے کے بعد اس دروازے کو پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے اور ہم آٹھ آدمی مل کر اس دروازے کو الٹ دینے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن وہ دروازہ جس کو تن تنہا حضرت علیؓ نےاپنے ایک ہاتھ میں اٹھا لیا تھا ہم آٹھ آدمی اس کو نہیں پلٹ سکے۔

ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؓ:

ایک بار سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جبریل ؑ نے مجھ سے آ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ کے پاس بی بی خدیجہؓ آ رہی ہیں اور ان کے ہاتھ میں جو برتن ہے اس میں کھانا اور پانی ہے۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام کہا ہے اور کہہ دیجئے کہ آپؓ خوش ہو جایئے۔ آپ کے لئے جنت میں ایسا مکان ہے جو موتیوں کا بنا ہوا ہے جہاں شور و غل اور تکلیف نہیں ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ:

ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا، ان قحط زدہ لوگوں نے حضرت عائشہؓ سے جا کر کہا کہ اس قحط سے ہم لوگ بہت پریشان ہو گئے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزار مبارک کی طرف اور گبندِ خضراء میں آسمان کی طرف کو ایک آر پار سوراخ کر دو۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا تو خوب بارش ہوئی۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن فرمایا۔ اے عائشہؓ! جبریل ؑ تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں نے جواباًً کہا ان پر اللہ کی سلامتی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

حضرت بی بی فاطمتہ الزہراؓ:

حضرت اُم سلمہؓ نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہؓ بیمار تھیں اور میں تیماردار تھی۔ ایک دن صبح سویرے انہیں افاقہ محسوس ہوا۔ حضرت علیؓ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا۔ اے اماں میں نہانا چاہتی ہوں۔ میں نے پانی تیار کر دیا اور جس طرح وہ تندرستی میں نہاتی تھیں ویسے ہی خوب نہائیں۔ پھر انہوں نے نئے کپڑے مانگے۔ میں نے کپڑے بھی دے دیئے۔ انہوں نے خود پہن کر کہا امی اب ذرا آپ میرے لئے گھر کے بیچوں بیچ بچھونا بچھا دیجئے۔ میں نے یہ بھی کر دیا۔ بس وہ بستر پر جا لیٹیں اور قبلے کی طرف کی منہ کر کے اپنا ایک ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا۔ اماں! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور بالکل پاک ہوں۔ اب کوئی بلا ضرورت مجھے کھولے نہیں۔ اس کے بعد ان کی روح پرواز کر گئی۔

حضرت انسؓ:

حضرت انس بن مالکؓ کے بھتیجے حضرت انس نضٰرؓ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی نے کسی لڑکی کا اگلا دانت توڑ دیا تھا۔ ہمارے خاندان کے لوگوں نے لڑکی کے رشتہ داروں سے معافی مانگی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ تم لوگ دیت یعنی دانت کے بدلے دانت لینے کے بجائے کچھ رقم لے لو س پر بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی دینے اور دیت قبول کرنے پر انکار کرتے ہوئے قصاص طلب کیا۔

چنانچہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے قصاص کا حکم صادر فرمایا۔ اس پر حضرت انس بن نضیرؓ نے کہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میری پھوپھی کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اے انسؓ اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے۔ یہ سن کر لوگ خوش ہو گئے اور دانت کا بدلہ معاف کر دیا۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ:

امام بخاریؒ ایک طویل قصے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس شخص کے لئے بددعا کرتا ہوں جس نے میری تین جھوٹی شکایتیں کی تھیں۔ اے اللہ! یہ تیرا جھوٹا بندہ جو مکاری سے شکایتیں سنانے کے لئے کھڑا ہوا ہے اس کی عمر دراز کر دے۔ حضرت سعدؓ کی اس دعا کے بعد لوگ جب اس کی خیریت دریافت کرتے تھے تو وہ کہتا تھا کہ میں بالکل بڈھا ہو گیا ہوں، میری عقل ماری گئی ہے۔ اور سعدؓ کی بددعا لگ گئی ہے۔ عبدالمالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس بڈھے کو اس حال میں دیکھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کو اس کی دونوں بھوؤں نے بالکل چھپا لیا تھا اور وہ راستہ چلتی لونڈیوں کو روکتا تھا اور بے حیائی کی باتیں کرتا تھا۔ افلاس و غربت کی وجہ سے انتہائی تنگ دست تھا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ:

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ہم کئی صحابی کھانا کھا رہے تھے ہم نے سنا کہ وہ غذا اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔

وہ کھانا سبحان اللہ، سبحان اللہ پڑھ رہا تھا۔

حضرت اسید بن حضیر عبادؓ:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسید عباد نے چند معروضات پیش کیں۔ رات بہت تاریک تھی چنانچہ وہ اسی اندھیرے میں اپنے گھروں کو لوٹے ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ ان میں سے ایک لاٹھی روشن ہو گئی اور شمع کا کام دینے لگی جب ایک کا راستہ ختم ہو گیا اور دوسرے کو آگے جانا تھا تو دوسرے شخص کی لاٹھی روشن ہو گئی۔ اور دوسرا بھی اپنے گھر پہنچ گیا۔

حضرت جابرؓ:

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ جنگ احد کے وقت ایک رات مجھے میرے والد نے طلب کر کے فرمایا۔ کل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت میں سب سے پہلے میں شہید ہوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھ پر ایک آدمی کا قرضہ ہے اور وہ ادا کر دینا اور میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اپنی بہنوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ میں نے دیکھا کہ میدان احد میں سب سے پہلے میرے والد نے جام شہادت نوش فرمایا۔

حضرت سفینہؓ:

ابن منکدر سے روایت ہے کہ حضرت سفینہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام تھے ایک مرتبہ سرزمین روم میں راستہ بھول گئے۔ وہ راستہ تلاش کر رہے تھے کہ دشمنان اسلام نے انہیں گرفتار کر لیا۔

وہ قید سے فرار ہو گئے۔ راستہ میں انہیں ایک شیر نظر آیا۔ انہوں نے اس شیر کو کنیت سے پکار کر کہا۔ اے ابوالحارثؓ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا غلام ہوں اور میں راستہ بھول گیا ہوں۔ شیر نے یہ سن کر ان کے سامنے دم ہلائی۔ اور ان کے برابر چلنے لگا۔ اسے جب کوئی آواز سنائی دیتی تو فوراً ادھر کا رخ کر لیتا اور کان کھڑے کر کے اِدھر اُدھر دیکھتا۔ جب خطرے کا احساس ختم ہو جاتا تو پھر آپؓ کے ساتھ چلنے لگتا۔ جب حضرت سفینہؓ اسلامی لشکر میں پہنچ گئے تو شیر واپس لوٹ گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ:

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے پوچھا۔ تمہارے قیدی کا کیا حال ہے؟

میں نے عرض کیا۔ حضور اس کا ارادہ ہے کہ مجھے ایسی باتیں سکھائے جن سے مجھے فائدہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ یاد رکھو جو کچھ اس نے کہا وہ ٹھیک ہے۔ لیکن تین راتوں سے تم جس سے باتیں کر رہے ہو جانتے ہو وہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نہیں جانتا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شیطان ہے۔

حضرت ربیع بن حراشؓ:

حضرت ربیع بن حراشؓ کہتے ہیں کہ ہم چار بھائی تھے۔ ہمارے بڑے بھائی حضرت ربیعؓ پکے نمازی اور روزے دار تھے۔ سردیوں گرمیوں میں بھی وہ نفلیں پڑھتے اور روزے رکھتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو ہم سب ان کے پاس جمع تھے اور ہم ایک آدمی کو ان کے لئے کفن کا کپڑا لینے بھیج چکے تھے کہ یکایک انہوں نے اپنے منہ سے کپڑا ہٹا کر کہا۔ اے برادران السلام علیکم! لوگوں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام۔ اور پوچھا کہ تم موت کے بعد بھی بات کرتے ہو؟

حضرت ربیعؓ نے جواب دیا۔ ہاں تم سے جدا ہو کر جب پروردگار عالم سے ملا تو میں نے اسے غضب ناک نہیں دیکھا۔ اس نے مجھ پر رحمتوں کے بادل برسا کر جنت کی خوشبوئیں، جنت کی روزی، جنت کے لباس مرحمت فرمائے۔

سنو! حضرت ابوالقاسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری نماز پڑھنے کے منتظر ہیں۔ بس اب دیر مت لگاؤ اور جلدی کرو۔ یہ قصہ جب حضرت عائشہؓ کو سنایا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ میری امت میں ایسے آدمی ہیں جو مرنے کے بعد بھی گفتگو کرتے ہیں۔

حضرت علاء بن حضرمیؓ:

سہم بن مجانب بیان کرتے ہیں کہ ہم علاء بن حضرمیؓ کے ساتھ جہاد کے لئے روانہ ہو کر مقام دارین پہنچے۔ ہندوستانی مشک اور کستوری کی بحرین میں بہت بڑی منڈی ہے اور سمندر کے ساحل پر واقع ہے۔ چنانچہ حضرت علاء بن حضرمیؓ نے سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر کہا۔ اے اللہ تو جاننے والا ہے، تو قوت والا ہے، تو بہت بڑا ہے۔ ہم تیرے معمولی بندے ہیں، یہاں کھڑے ہیں اور اسلام کا دشمن سمندر کے اس سرے پر ہے۔ اللہ ان کو شکست دینے کے لئے ان کو راہ راست پر لانے کے لئے اور ان کو اسلام کا کلمہ پڑھانے کے لئے ہم کو ان تک پہنچا دے۔

اس دعا کے بعد انہوں نے ہم سب کو سمندر میں اتار دیا۔ سمندر کا پانی ہمارے گھوڑوں کے سینوں تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ ہم سمندر پار ہو گئے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ:

حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حضرت جبریل ؑ کو دیکھا۔

حضرت سلمانؓ:

حضرت سلمانؓ اور حضرت ابودرداءؓ بیٹھے ہوئے تھے اور دونوں کے سامنے ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جو سبحان اللہ پڑھ رہا تھا۔

مندرجہ واقعات و کرامات بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ ورنہ ہر صحابیؓ کی زندگی میں بے شمار خرق عادات موجود ہیں۔
سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابیؓ اور صحابیاتؓ کی کرامات اور خرق عادات اسلامی تاریخ میں ریکارڈ ہیں۔

یہ اعتراض بھی کہ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے مراقبے نہیں کئے محض غلط فہمی ہے۔ مراقبہ کا مطلب ہے سوچ، بچار، تفکر، تلاش، ذہنی یکسوئی کے ساتھ کسی بات پر غور کرنا، Concentration۔ جب ہم کسی بھی بات کی فضیلت اور کنہ کو تلاش کرتے ہیں تو اس کا مطلب بھی مراقبہ ہے۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کی پوری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال اور قرآنی آیات پر غور و فکر کرنے میں گزری ہے۔ غور و فکر میں جتنا وقت گزرتا تھا۔ وہ سب مراقبہ کی تعریف میں آتا ہے۔

مراقبہ دراصل ذہنی یکسوئی کے ساتھ اپنی روحانی صلاحیتوں اور غیب بین نظر کو بیدار اور متحرک کرنے کے لئے ایک طریقہ ہے۔

مراقبہ سے مراد مرتبہ احسان ہے۔

نور نبوت کے ذریعے صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کو مرتبہ احسان حاصل تھا اور مرتبہ احسان کا حاصل ہونا بلاشبہ روحانیت یا تصوف ہے۔

صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کے روحانی اجسام نور نبوت سے روشن اور منور تھے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال اور سیرت طیبہ پر غور کرتے تھے تو ان کے اندر انوار کا ذخیرہ ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ قرآنی آیات پر تفکر کر کے وہ خود کو اللہ سے قریب محسوس کرتے تھے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے