Topics

خدمت خلق

سورۃ فاتحہ قرآن کی پہلی سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کی ہے۔

’’الحمداللہ رب العالمین‘‘

سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے، بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے، بلند سے بلندتر، اول سے آخر، آخر سے اول، ظاہر و باطن، ماضی و حال، حال و مستقبل، رات اور دن، سماوات اور زمین میں جو کچھ ہے ان سب سے زیادہ اللہ کی تعریف ہے۔

مخلوق کی ڈیوٹی:

اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا۔ پیدا کرنے سے پہلے زندگی کے لئے ضروری وسائل فراہم کئے اور کائناتی نظام کو اس طرح ترتیب دیا کہ کائنات کا ہر فرد اور ہر ذرہ ایک دوسرے کے کام آ رہا ہے۔

سب تعریفیں اللہ کے لئے مخصوص ہیں جس نے سورج بنایا، سورج کو اتنا مطیع، فرمانبردار اور ایثار کرنے والا بنایا کہ وہ نہیں دیکھتا کہ میری دھوپ سے کون فائدہ اٹھاتا ہے۔ دھوپ تپتے میدان پر پڑتی ہے۔ دھوپ بلند و بالا برف پوش پہاڑیوں کو حرارت بخشتی ہے۔ دھوپ محلات کے کمروں اور پھونس کی جھونپڑیوں کو بھی روشن کرتی ہے۔ دھوپ کھیتوں پر بھی پھیلتی ہے اور دھوپ کیچڑ میں رہنے والے کیڑے مکوڑوں کو بھی زندگی عطا کرتی ہے۔

اللہ نے چاند بنایا۔ چاند کی رو پہلی کرنیں مرغزاروں کو حسن عطا کرتی ہیں۔ پھلوں کو مٹھاس منتقل کرتی ہیں۔ پانی میں ہلچل پیدا کرتی ہیں۔ چاند کی منور کرنیں جب سمندر کے سینے کو چیر کر اس کے دل میں اتر جاتی ہیں تو سمندر میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ پر سکون پانی میں اضطرابی کیفیت میں بھونچال کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور سکون آمیز لہریں بیس، تیس فٹ اوپر اچھلتی ہیں۔

آسمان کو اللہ نے ستاروں سے سجایا۔ گھپ اندھیرے میں ستارے مسافروں کو راستہ دکھاتے ہیں اور پیدل چلنے والے قافلوں، اونٹوں یا کشتیوں میں بیٹھے ہوئے مسافر ستاروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

زمین جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا سخت نہیں بنایا کہ لوگ ٹھوکریں کھا کر گرنے لگیں اور اتنا نرم نہیں بنایا کہ زمین کے باسی دلدل میں دھنس جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو مخلوقات کیلئے بچھونا بنا دیا۔

گیارہ ہزار نوعیں:

زمین میں موجود ساڑھے گیارہ ہزار مخلوقات کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ پانی اللہ تعالیٰ کے حکم سے خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ وہ نہیں سوچتا نہیں دیکھتا کہ کون سرکش ہے، کون ظالم ہے، کون گنہگار ہے یا کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ سب کی زندگی بن رہا ہے۔

’’الحمد اللہ رب العالمین‘‘

سب تعریفیں اس وحدہ لا شریک اللہ کے لئے مخصوص ہیں جو عالمین کو پیدا کر کے وسائل عطا کرتا ہے۔ جو رحمٰن اور رحیم ہے۔

سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد رحمٰن اور نہایت رحم والا ہے۔

اللہ کے صفاتی نام تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ہیں اور ہر نام اللہ کی ایک صفت ہے۔ سب ناموں پر اللہ تعالیٰ کا اسم رحیم محیط ہے۔ نوعوں کی تعداد بھی گیارہ ہزار پانچ سو بتائی جاتی ہے۔

ہر مخلوق دوسری مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے:

ہر مخلوق کا ہر فرد جس طرح زمین کو دیکھتا ہے اس طرح آسمان کو بھی دیکھتا ہے۔ زمین پر دیکھتا ہے تو اسے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ 

زمین کے اندر دیکھتا ہے تو معدنیات کا سراغ ملتا ہے۔ ذہن پانی میں اتر جاتا ہے تو پانی کی مخلوق کا ادراک ہوتا ہے۔ کوئی صاحب فہم انسان پانی کی مخلوق کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر عجائبات کی دنیا کھل جاتی ہے۔ چھوٹی مچھلی ایک انچ سے بھی کم اور بڑی وہیل مچھلی، گھونگھے، مرجان سیپ کے پیٹ میں موتی، Sea Foodوغیرہ سمندر کی مخلوق ہیں۔

جب انسان کی نظر زمین کے گرد و نواح سے نکل کر آسمان کو دیکھتی ہے۔ آسمان میں دس ہزار ستاروں پر پڑتی ہے تو انسان ستارے کے بشریٰ کو دیکھتا ہے۔ ستارے اس کو نہیں روکتے کہ مجھے نہ دیکھ، چاند بھی منع نہیں کرتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ تصوف کی دنیا میں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کائنات میں ہر مخلوق دوسری مخلوق سے مخفی رشتہ میں بندھی ہوئی ہے۔ اگر مخلوقات کے درمیان چاہے وہ مخلوق زمینی ہو، چاہے وہ مخلوق پانی کی ہو، چاہے وہ مخلوق ہوا کی ہو۔ چاہے وہ مخلوق آسمانوں کی دنیا کی مخلوق ہو۔ اگر مخفی رشتہ میں جڑی ہوئی نہ ہوتی تو ہر آسمانی نظارہ دیکھنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔

یہی مخفی رشتہ کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ اور بڑے سے بڑے کرہ کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔

اس علم سے صوفی کے اوپر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کےمختلف اجسام زمین، چاند، سورج، ستارے، فرشتے، جنات مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا نہ پسند کرتی۔

قرآن پاک نے ایسی مالک ہستی کا تعارف اللہ کے نام سے کروایا ہے۔

’’الحمداللہ رب العالمین‘‘

سب تعریفیں کائنات کی مالک ایک ہستی کے لئے مخصوص ہیں۔ اس ہستی کا نام اللہ ہے۔ اللہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور بحیثیت رب کے مخلوقات کی ضروریات کی کفالت کرتا ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ تعمیل حکم کا پابند ہے:

اللہ اسم ذات ہے۔ اسم ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے۔ یعنی اللہ مالک ہے اور ساتھ ساتھ قادر مطلق بھی ہے۔ 

اللہ اپنی ملکیت میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ جس طرح چاہے تخلیق کی نظام میں تبدیلی کر سکتا ہے اور جس طرح چاہے کائناتی نظام کو چلانے میں ایک دوسرے کی ڈیوٹی لگا سکتا ہے۔ مخلوق کا کوئی فرد اس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا۔

الحمد اللہ رب العالمینoالرحمٰن الرحیمo

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات ملکیت اور رحمت و قدرت کا تذکرہ ہے۔ اسم ذات اللہ مالکانہ حقوق کا حامل ہے۔ اور رحمٰن و رحیم قادرانہ حقوق کا ما لک ہے۔ قادرانہ صفت کو تصوف کی زبان میں رحمت کہتے ہیں۔ اللہ کے ساڑھے گیارہ ہزار اسماء میں سے رحیمانہ اور قادرانہ اوصاف ہر اسم میں موجود ہیں۔ یہی اوصاف مخلوقات کے درمیان مخفی رشتہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سورج کی روشنی اہل زمین کی خدمت گزاری سے اس لئے انکار نہیں کر سکتی کہ اہل زمین اور سورج ایک ہی ہستی کی ملکیت ہیں۔ وہ ہستی مالکانہ حقوق میں حاکمانہ قدروں کی مالک ہے اور اس کی رحمت و قدرت کسی وقت بھی اس بات کو گوارہ نہیں کرتی کہ اس کی ملکیتیں ایک دوسرے کے وقوف اور خدمت گزاری سے منکر ہو جائیں۔

روحانی استاد اپنے شاگرد، سالک کو یہ راز منتقل کرتا ہے کہ موجودات، موجودات کی زندگی اور زندگی کے تمام اجزاء کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان اجزاء کو حرکت میں لانا چاہا تو ’’کُن‘‘ فرما دیا۔ اس علم سے یہ منکشف ہوا کہ کائنات، کائنات میں ہر فرد بشمول انسان ایک حرکت ہے اور یہ حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم سے شروع ہوتی ہے۔ اس حرکت کے ہزاروں اجزاء ہیں اور ان اجزاء میں سے ہر چیز ایک حرکت ہے گویا انسان کی ذات لاشمار حرکتوں کا مجموعہ ہے۔ بالکل اسی طرح ہر مخلوق ایک حرکت ہے اور ہر حرکت کے ہزاروں اجزاء ہیں اور ان اجزاء میں سے ہر چیز ایک حرکت ہے۔ ہر حرکت دوسری حرکت کے ساتھ ملحق ہے۔

ہر حرکت اللہ سے شروع ہوتی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ چونکہ ہر مخلوق حرکت کی بیلٹ پر متحرک ہے اس لئے ہر مخلوق کا دوسری مخلوق سے رشتہ قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب کا سب تمہارے تابع کر دیا ہے یعنی انہیں تمہاری خدمت گزاری میں مصروف کر دیا ہے۔

سورج بھی خدمت میں مصروف ہے، چاند بھی خدمت میں مصروف ہے، زمین بھی خدمت میں مصروف ہے، نباتات اور جمادات بھی خدمت میں مصروف ہے اور انسان بھی مخلوقات کی خدمت میں مصروف ہے۔ یہ ایسی خدمت ہے، خدمت گزار کو جس کا علم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فضیلت بخشی کہ انسان یہ علم سیکھ لیتا ہے۔

حقوق انسانی اور دیگر مخلوق کے حقوق:

ایک مرید نے مراد سے پوچھا:

اللہ سے دوستی کس طرح کی جائے؟

مراد نے مرید سے پوچھا:

تم کسی سے دوستی کرنا چاہو تو کیا کرو گے؟

مرید نے عرض کیا:

اس کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ کرینگے، اس کی خاطر مدارت کریں گے، اس کا خیال رکھیں گے۔

مراد نے کہا:

اگر یہ باتیں نہیں کرو گے یا تمہیں اس کے مواقع نہیں ملیں گے پھر کیا ہو گا؟

مرید نے عرض کیا:

ہو سکتا ہے کہ دوستی ختم ہو جائے۔

مراد نے فرمایا:

دوستی اس وقت پختہ ہوتی ہے جب آدمی دوست کی دلچسپیوں کو قبول کر لے۔ اگر تم نمازی کے پکے دوست بننا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر دو۔ جوا کھیلنے والے کا دوست جواری ہوتا ہے۔ اور نشہ کرنے والے کا دوست اگر اس کے ساتھ نشہ نہیں کرتا تو آپس میں دوستی نہیں ہوتی۔

مراد نے مرید سے سوال کیا کہ:

اللہ تعالیٰ کیا کرتے ہیں؟

مرید نے اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ادھر ادھر کی بہت ساری باتیں کیں۔

مراد نے قطع کلام کر کے فرمایا کہ:

مختصر بات یہ ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ اللہ سے اگر دوستی کرنی ہے تو مخلوق کی خدمت کرو۔

مراد نے مزید تشریح فرمائی:

کیا تم نے بکری دیکھی ہے؟

مرید نے عرض کیا:

جی ہاں! دیکھی ہے۔

پوچھا: بکری کیا کرتی ہے؟

مرید نے عرض کیا:

بکری دودھ دیتی ہے۔ لوگ اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ اس کی کھال انسانوں کے کام آتی ہے۔

مراد نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ بکری انسان کی خدمت میں مصروف ہے۔

مراد نے پھر پوچھا:

زمین کی کیا ڈیوٹی ہے؟

مرید نے عرض کیا:

زمین پر کھیتیاں لہلہاتی ہیں۔ زمین درخت اگاتی ہے۔ درختوں پر پھل لگتے ہیں۔ زمین انسان کو خوش کرنے کے لئے پھولوں میں رنگ آمیزی کرتی ہے۔

مراد نے سوال کیا:

بکری اور زمین کا کیا رشتہ ہے؟

مرید نے عرض کیا:

بکری زمین پر گھاس چرتی ہے درختوں کے پتے کھاتی ہے۔

مراد نے ارشاد فرمایا کہ:

کائناتی سسٹم یہ ہے کہ ہر شئے دوسرے کی خدمت کرنے میں مصروف ہے جب غیر اشرف مخلوق اللہ کی مخلوق کی خدمت کر رہی ہے تو انسان کا بھی فرض ہے کہ مخلوقات کی خدمت کرے۔

جب سالک اس رمز کو سمجھ لیتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو اسے اپنے باپ آدم علیہ السلام کا ورثہ منتقل ہو جاتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام پہلے صوفی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے باطنی علوم سکھائے ہیں۔ باطنی علوم کا دوسرا نام تصوف ہے اور یہی علم حضرت آدم علیہ السلام کا ورثہ ہے۔

آدم سب کے باپ ہیں۔ باپ اولاد کی خدمت کرتا ہے۔ اولاد کو پالتا پوستا ہے۔ آدم کا ہر بیٹا بھی آدم کی اولاد کا باپ ہے۔ باپ کا یہ فرض ہے کہ اولاد کی خدمت کرے۔ آدم زاد کو بلا تخصیص مخلوق کی خدمت اس لئے کرنی چاہئے کہ دوسری مخلوقات بھی آدم کی خدمت میں مصروف ہیں۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے