Topics
ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ بابا تاج الدین ناگپوریؒ خصوصی مسائل میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی اپنی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جاتے تھے جو براہ راست قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہو رہی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین من و عن ہر وہ بات اپنے ذہن میں سمجھتے اور محسوس کرتے تھے جو بابا تاج الدینؒ کے ذہن میں ہوتی تھی۔ یہ بات بالکل عام تھی کہ چند آدمیوں کے ذہن میں کوئی بات آئی اور بابا تاج الدینؒ نے اس کا جواب دے دیا۔
مرہٹہ راجہ رگھوراؤ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتا تھا۔ مہاراجہ مخفی علوم سے مس بھی رکھتا تھا اور اس کے اندر فیضان حاصل کرنے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال کیا۔ ’’بابا صاحب! ایسی مخلوق جو نظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات، خبر متواتر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں بدروحوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلی اور علمی توجیہات نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ’’ہم سجھ گئے‘‘ تجربات میں جو کچھ زبان زد ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں آپ اس مسئلہ پر کچھ ارشاد فرمائیں۔‘‘
جس وقت یہ سوال کیا گیا بابا تاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی۔ فرمانے لگے۔ ’’میاں رگھوراؤ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔ بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ و انجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں، قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوے کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔‘‘
دن کیا ہے۔ رات کیا ہے؟
فرمایا۔ ’’جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو، پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ یہ چیزیں دور پرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں، ان پر بھی نظر ڈالتے جاؤ۔ دن طلوع ہوتا ہے، دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے ہم نہیں جانتے دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے، اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسانی کا یہی تجربہ ہے۔
میاں رگھو راؤ، ذرا سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہو جائے گا؟ دن رات، فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے، اس لئے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ دراصل نگاہ اور فکر سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولا ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کر لو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہیں، حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ھذالقیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔
لامتناہی تفکر:
فرمایا اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آ جاتا ہے جہاں کائنات کے کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ غور سے سنو! ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے۔ فرشتے اور جنات۔ ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتا ہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ لامتناہی تفکر سے تناہی کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔
ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرز عمل کا ایک جز ہے۔ انسان پابہ گل ہے، جنات پابہ ہیولا ہے، فرشتے پابہ نور ہیں۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں تو ربط ٹوٹ جائے گا اور کائنات منہدم ہو جائے گی۔
ثبوت یہ ہے کہ ہمارا تفکر ہیولا اور ہیولا قسم کے تمام جسموں سے فکری طور پر روشناس ہے ساتھ ہی ہمارا تفکر نور اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طور پر روشناس ہے حالانکہ ہمارے تفکر کے تجربات پابہ گل ہیں اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہیولا اور نور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے ہیں۔
عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے یعنی ان کی انا (تفکر کی لہریں) ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلہ خیال کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب اور تبادلہ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔
کہکشانی نظام:
بابا تاج الدینؒ اس وقت ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے ’’کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں۔ وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں توہم، خیال، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔
بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہیں وہی نقطہ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے تصویر خانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔"
اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرز عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں انسان، فرشتہ اور جنات کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کارکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کر کے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
ہر پرت الگ الگ ہونے کے باوجود ایک ہے:
تفکر، انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انا، تفکر اور شخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستیاں ہیں جو لاشمار کیفیات کی شکلوں اور سراپا سے بنی ہیں مثلاً بصارت، سماعت، تکلم، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت شکل اور سراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہو گئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تا ہم ہر نوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔
دخان=مثبت کیفیت/منفی کیفیت:
انسان لاشمار سیاروں میں آباد ہیں اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اور جنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں، جنات ہوں یا فرشتے، ان کے سراپا کا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جَلی ہوتی ہے یا خفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آ جاتی ہے۔ خفی ہوتی ہے تو لاشعور میں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع و ایجاد کہتا ہے لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔
یہاں یہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے البتہ یہ مظاہر مخفی انسانی لاشعور کی پیداوار نہیں ہیں۔ انسان کا خفی کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ربط قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس کمزوری کی وجہ نوع انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ انسان نے اپنے تفکر کو کس لئے پابہ گِل کیا ہے۔ یہ بات اب تک نوع انسانی کے شعور سے ماوراء ہے۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہا ہے اس کا تقاضہ کوئی ایسی مخلوق پورا نہیں کر سکی جو زمانی، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست و پا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اس کے خالی گوشوں کو مکمل کرنے کی طاقت رکھتی ہو چنانچہ کائناتی تفکر سے جنات اور فرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تاکہ خلاء پُر ہو جائے۔
فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رونما نہیں ہو سکے جس سے کائنات کی تکمیل ہو جاتی۔ کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔ دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دخان جس کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے۔ اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اور جنات منفی دخان کی پیداوار ہیں۔ رہا فرشتہ ان دونوں کے ملخص سے بنا ہے۔ عالمین کے تین اجزائے ترکیبی غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دور نابود میں گم ہو جاتا ہے۔
ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب کرشمہ برسرعمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کا نام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں۔ اگر انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی کیفیت بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہو جائے تو اس میں کشش ثقل پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر فرشتہ میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آ جائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے اور منفی کے زور پر جنات کی صلاحیت پیدا ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔
طریق کار بہت آسان ہے۔ ہم مٹھاس اور نمک کی معین مقداریں کم کر کے فرشتوں کی طرح زمانی مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہو سکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
خیالات کا قانون:
یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے ہیں ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قرب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑ اپنی زندگی سے ملانا چاہتے ہیں تو ہزاروں کوشش کے باوجود ناکام رہ جاتے ہیں۔ انا کی جن لہروں کا ابھی تذکرہ ہو چکا ہے ان کے بارے میں چند باتیں فکر طلب ہیں۔
سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہوتی کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔ البتہ انا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں، انا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔
انا کی لہریں:
انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جاتے ہیں۔ سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی طریقہ کی نقل ہے جو انا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی انا کی لہریں کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
اندرونی تحریکات:انبیاء اور روحانی طاقت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں۔ ساری کائنات میں ایک ہی لاشعور کارفرما ہے۔ اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ غیب و شہود کی فراست و معنویت کائنات کی رگ جان ہے۔ ہم اس رگِ جاں میں جو خود ہماری اپنی رگ ِ جاں بھی ہے ، تفکر اور توجہ کر کے اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا انکشاف کر سکتے ہیں۔ انسانوں اور حیوانوں کے تصورات جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات، نباتات، جمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کر سکتے ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا محل:
حضرت سلیمان علیہ السلام کا محل سونے، چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ دیواروں پر سونے چاندی کی پچی کاری تھی۔ چھتیں زمرد اور یاقوت سے مزین تھیں۔ تخت شاہی زمرد، سچے موتی، لعل اور فیروزہ سے مرصع تھا۔ تخت کے چاروں کونوں پر ایسے درخت تراشے گئے تھے جن کی شاخیں Transparentتھیں، شاخوں میں رنگ برنگ بجلیاں دوڑتی تھیں، ہر شاخ پر گھونسلے بنائے گئے تھے اور گھونسلوں میں پرندے بٹھائے گئے تھے، دربار میں عود کی لکڑیاں سلگتی رہتی تھیں (2002ء میں عود کی لکڑی پانچ لاکھ ساٹھ ہزار روپے کلو ہے) مشک و عنبرAir Freshnerکے طور پر استعمال ہوتے تھے، شاہی تخت اونچائی پر تھا، تخت کے نیچے دائیں بائیں کرسیاں بچھی ہوئی تھیں، جن پر انسان اور جنات میں سے اکابرین مملکت اور ان کے معاونین بیٹھتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تاج شاہی سر پر رکھ کر جلوہ افروز ہوتے تھے تو درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے پرندے اپنے پر کھول دیتے تھے اور ان پروں میں سے مشک و عنبر کی مہک آتی تھی۔ زر و جواہر سے مرصع رنگوں سے آراستہ مور رقص کرتے تھے اور یہ سب سائنس کا کرشمہ تھا۔
قرآنی سائنس:
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ ملکہ سباؔ حاضر خدمت ہو رہی ہے۔ انہوں نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا:
’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سباؔ کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی دربار میں موجود ہو‘‘۔ ایک دیو پیکر جن نے کہا۔ ’’دربار برخاست کرنے سے پہلے میں تخت لا سکتا ہوں‘‘۔ جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا، یہ کہا ’’اس سے پہلے آپ کی پلک جھپکے یہ تخت دربار میں آ جائے گا۔‘‘حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیرا ملکہ سباؔ کا تخت دربار میں موجود تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس تخت کی ہیئت میں کچھ تبدیلی کر دی جائے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ملکہ سباؔ یہ دیکھ کر حقیقت کی راہ پاتی ہے یا نہیں؟
ملکہ سباؔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ عقلمند ملکہ نے جواب دیا ’’ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہی ہے‘‘ ملکہ سباؔ نے اس کے ساتھ ہی یہ کہا ’’مجھے آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت کا پہلے سے علم ہو چکا ہے اس لئے میں مطیع اور فرماں بردار بن کر حاضر ہوئی ہوں اور اب تخت کا یہ محیر العقول معاملہ تو آپ کی لافانی طاقت کا بے مثال مظاہرہ ہے اس لئے ہم پھر آپ سے فرماں برداری کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات اور انسان انجینئروں سے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا تھا جو آبگینوں کی چمک، قصر کی رفعت اور عجیب و غریب دستکاری کی وجہ سے بے مثال تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لئے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس میں ایک بڑا حوض بنا کر پانی سے بھر دیا گیا تھا۔شفاف آبگینوں اور بلور کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنایا گیا تھا کہ دیکھنے والے کی نگاہ دھوکہ کھا کر یقین کر لیتی تھی کہ صحن میں شفاف پانی بہہ رہا ہے۔
روحانی حواس:
بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں کھانے کے لئے ایک امرود پیش کیا گیا، قاش جب ہونٹوں سے لگی تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ کسی مردے کا گوشت ہے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے امرود کی قاش پھینک دی، حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگوں کو تجسس ہوا کہ امرود کی قاش سے مردہ گوشت کا کیا تعلق ہے۔ دو معزز حضرات مجلس میں سے اٹھے اور فروٹ کی اس دکان پر پہنچے جہاں سے امرود خریدے گئے تھے۔ دکاندار نے سبزی منڈی میں آڑتھی کا پتہ بتایا، آڑتھی نے اس زمیندار کا پتہ بتایا جہاں سے امرود اس کے پاس آئے تھے۔ زمیندار نے بتایا کہ جس باغ کے یہ امرود ہیں وہاں ایک قبرستان تھا، قبرستان میں ہل چلا کر امرود کا باغ لگایا گیا ہے۔
عجیب و غریب سرگزشت:
برصغیر پاک و ہند کے معروف صاحب کمال ایک صوفی بزرگ حضرت غوث علی شاہ پانی پتیؒ نے مندرجہ ذیل واقعہ بیان کیا ہے جو ٹائم اور اسپیس کے بارے میں نہایت حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے۔
ایک شخص شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لباس کے اعتبار سے وہ شاہی عہدے دار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے شاہ صاحبؒ سے کہا۔ حضرت میری سرگزشت اتنی عجیب و غریب ہے کہ کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ خود میری عقل بھی کام نہیں کرتی۔ حیران ہوں کہ کیا کہوں، کس سے کہوں، کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ اب تھک ہار کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
اس شخص نے اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے کہا:
میں لکھنؤ میں رہتا تھا، برسر روزگار تھا۔ حالات اچھے گزر رہے تھے۔ قسمت نے پلٹا کھایا۔ معاشی حالات خراب ہوتے چلے گئے زیادہ وقت بیکاری میں گزرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے بہتر ہے کسی دوسرے شہر میں حصول معاش کی کوشش کی جائے۔ تھوڑا سا زاد راہ ساتھ لیا اور اودے پور کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں رواڑی کے مقام پر قیام کیا۔ اس زمانے میں وہ جگہ ویران تھی صرف ایک سرائے آباد تھی۔ سرائے میں کچھ کسیبیاں رہتی تھیں۔ میں سرائے میں متفکر بیٹھا تھا۔ پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ ایک کسبی آئی۔ کہنے لگی میاں کس فکر میں بیٹھے ہو۔ کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ میں نے کہا ابھی سفر کی تھکان ہے۔ ذرا سستا لوں تھکن دور کرنے پر کھانا کھاؤں گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد آئی اور وہی سوال کیا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا اور وہ چلی گئی۔ تیسری دفعہ آ کر پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا کہ میرے پاس جو کچھ تھا خرچ ہو چکا ہے۔ اب ہتھیار اور گھوڑا بیچنے کی سوچ رہا ہوں۔ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں گئی اور دس روپے لا کر مجھے دیدیئے۔
میں نے جب روپے لینے میں پس و پیش کی تو اس نے کہا میں نے یہ روپے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے ہیں، تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ روپے میں آپ کو قرض حسنہ دے رہی ہوں جب حالات درست ہو جائیں تو واپس کر دینا۔
میں نے روپے لے لئے اور خرچ کرتا ہوا اودے پور پہنچا مجھے اچھی ملازمت مل گئی۔ وہاں اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حالات اچھے ہو گئے۔
گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوان ہو گیا ہے۔ سسرال والے شادی پر اصرار کر رہے ہیں، جلد سے جلد آ کر اس فرض سے سبکدوش ہو جائیے۔
رخصت منظور ہونے پر میں اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ رواڑی پہنچا تو پرانے واقعات کی یاد تازہ ہو گئی۔ سرائے میں جا کر کسبی کے متعلق معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور کچھ لمحوں کی مہمان ہے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے کفن دفن کا سامان کیا، اسے خود قبر میں اتارا اور سرائے میں واپس آ کر سو گیا۔ آدھی رات کے وقت پیسوں کا خیال آیا۔ دیکھا تو جیب میں رکھی ہوئی پانچ ہزار کی ہنڈی غائب تھی، تلاش کیا مگر نہیں ملی خیال آیا کہ ہو نہ ہو دفن کرتے وقت قبر میں گر گئی ہے۔ افتاں و خیزاں قبرستان پہنچا اور ہمت کر کے قبر کھول دیا۔
قبر کے اندر:
قبر کے اندر اترا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ وہاں میت تھی نہ ہنڈی۔ ایک طرف دروازہ نظر آ رہا تھا ہمت کر کے دروازے کے اندر داخل ہوا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ چاروں طرف باغات کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور ہرے بھرے پھل دار درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔ باغ میں ایک طرف عالی شان عمارت بنی ہوئی تھی۔ عمارت کے اندر قدم رکھا تو ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑی۔ وہ شاہانہ لباس پہنے بناؤ سنگھار کئے بیٹھی تھی۔ ارد گرد خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ عورت نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں وہی ہوں جس نے تمہیں دس روپے دیئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو میرا یہ عمل پسند آیا اور اس عمل کو قبول فرما کر مجھے بخش دیا اور بھرپور نعمتوں سے نواز دیا۔ یہ تمہاری ہنڈی ہے جو قبر کے اندر گر گئی تھی۔ ہنڈی لو اور یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔
میں نے کہا یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سیر کرنا چاہتا ہوں۔ حسین و جمیل عورت نے جواب دیا کہ تم قیامت تک بھی گھومتے پھرتے رہو تو یہاں کی سیر نہیں کر سکو گے۔ فوراً واپس چلے جاؤ۔ تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا اس عرصے میں کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ میں نے اس کی ہدایات پر عمل کیا اور قبر سے نکل آیا۔ باہر آ کر دیکھا کہ وہاں سرائے تھی اور نہ ہی پرانی آبادی تھی۔ چاروں طرف شہر پھیلا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں سے سرائے کے بارے میں پوچھا تو سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ بعض لوگوں نے مجھے مخبوط الحواس قرار دیا۔
آخر کار ایک آدمی نے کہا میں تمہیں ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں۔ وہ بہت عمررسیدہ ہیں، شاید وہ کچھ بتا سکیں اس بزرگ نے سارا حال سنا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے دادا بتایا کرتے تھے کہ کسی زمانے میں یہاں ایک سرائے تھی۔ سرائے میں ایک امیر آ کر ٹھہرا تھا اور ایک رات وہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا تھا۔ پھر اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ زمین نگل گئی یا آسمان نے اٹھا لیا۔ میں نے کہا میں ہی وہ امیر ہوں جو سرائے سے غائب ہوا تھا۔ یہ سن کر وہ بزرگ اور حاضرین محفل حیران اور ششدر رہ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
امیر یہ واقعہ سنا کر خاموش ہو گیا اور پھر شاہ عبدالعزیزؒ سے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ میرا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ، دوسرے یہ کہ اس واقعے نے مجھے مفلوج کر دیا ہے۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا۔ تم نے جو کچھ دیکھا ہے صحیح ہے اس عالم اور اس عالم کے وقت کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا۔ ’’اب تم بیت اللہ شریف چلے جاؤ اور باقی زندگی یاد الٰہی میں گزار دو۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے