Topics

تصوف اور معترضین

ایک طبقہ اعتراض کرتا ہے کہ تصوف کا اسلام میں کوئی ’’کردار‘‘ نہیں ہے اسے اسلام میں زبردستی داخل کر دیا گیا ہے۔ ایک اور طبقہ یہ کہتا ہے کہ تصوف یا روحانی مکتبۂ فکر ’’افیون‘‘ ہے۔ ان علوم کو سیکھ کر آدمی مفلوج ہو جاتا ہے۔ صوفی دنیاوی نعمتوں سے اس لئے فرار حاصل کرتا ہے کہ دنیا میں موجود تلخ حقیقتوں کا مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی کم ہمتی، سستی، کاہلی اور بزدلی کی وجہ سے وہ گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔

یہ بحث ہزاروں سال سے جاری ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصوف بدھ مت سے ماخوذ ہے۔ ان لوگوں کا دنیا سے قطع تعلق درحقیقت گوتم بدھ کی تقلید ہے، بدھا صاحب نے تخت و تاج چھوڑ کر فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح مسلمان صوفیاء نے بھی دنیاوی لذتوں، آسائشوں اور راحت و آرام ترک کر کے جنگلوں اور غاروں کو اپنا مسکن بنا لیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صوفی حضرات بے عملی کی سنہری زنجیروں میں خود کو گرفتار کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے آلام و مصائب سے ڈر کر فرار حاصل کر لیتے ہیں۔

کہنے والوں نے بہت کچھ کہا اور سننے والوں نے معترضین کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات بھی دیئے اور اس طرح تصوف کو ایک الجھا ہوا مسئلہ بنا دیا گیا۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اہل تصوف ہر زمانے میں موجود رہے اور انہوں نے روحانی علوم کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ اپنے شاگردوں میں یہ علوم تحریر کے ذریعے، مکتوبات کے ذریعہ کتابوں کے ذریعہ اور علم سینہ کے ذریعے منتقل کرتے رہے۔

.اعتراضات:

ہم نے تاریخ کا جس حد تک مطالعہ کیا ہے۔ ہمیں تصوف کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں ملا جو قابل توجہ ہو۔ جتنے اعتراضات ہیں سب فروعی اور منطقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ:

۱) جن علماء نے اشراقین کی پیروی کی اور اسلامی احکامات کو اشراقی اصولوں پر ترتیب دیا۔ تصوف اسی کا ثمر ہے۔(الفقر فخری)

۲) علم اصول کے ماہرین کے نظریات کو تصوف کہتے ہیں۔(الفقر فخری)

۳) تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں ادیان و مذاہب سے اپنے مفیدِمطلب، اعمال و عقائد کو اخذ کر کے ایک عجیب و غریب مجموعہ تیار کیا گیا اور اس کا نام تصوف رکھ دیا گیا۔(الفقر فخری)

۴) چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں جب تصوف نے ہمہ گیر عظمت حاصل کر لی تو اس میں دھیان و گیان کے قدیم اصول داخل کر دیئے گئے۔(الفقر فخری)

۵) دسویں صدی ہجری میں اور اس کے بعد تصوف کو ایک طلسم ہوشرباء بنا دیا گیا۔(الفقر فخری)

۶) تصوف، رہبانیت کا درس دیتا ہے۔ اس میں دنیا بیزار لوگ شامل ہوتے ہیں۔

۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اصحاب صفہ کے سوا تصوف کی مزید تشریح نہیں ملتی۔

یہ ایسے اعتراضات ہیں جو صاحب فہم اور عقل و شعور رکھنے والے فرد کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔

قیاسی علوم:

قرآن حکیم اور احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مخلوق کو خدا سے متعارف کرانے کیلئے مخلوق کے سامنے اپنی رونمائی کی۔ یہ واقعہ ازل میں روحوں کے ساتھ ہوا۔ روح نے جب مادی جسم کو اپنا مسکن بنایا اور مادی جسم نے دنیاوی دلچسپیوں کو مقصد حیات بنا لیا تو دو علوم سامنے آئے۔

۱) قیاسی علوم ۲) حقیقی علوم

۱) قیاسی علم کی تعریف یہ ہے کہ اس میں یقنی کوئی بات نہ ہو۔ علم کی ہر شق قیاس پر یا فکشن پر قائم ہو۔

۲) حقیقی علم کی تعریف یہ ہے کہ اس میں انسانی قیاس شامل نہ ہو۔ علم کے ہر شعبہ پر حقیقت واردہ کا غلبہ ہو۔

علم کے بارے میں مستشرقین کی بحث ہو، علم اصول کے نظریات ہوں، ادیان مذاہب سے اپنے مفید مطلب اعمال و عقائد کی تشریح ہو، سب قیاسات پر مبنی ہے۔

ہر انسان دونوں علوم سیکھ سکتا ہے۔ ایک علم قیاسی ہے اور دوسرا علم غیر قیاسی یعنی حقیقی ہے۔ غیر قیاسی علوم باطنی علوم ہیں۔ ان باطنی علوم کو تصوف کہتے ہیں۔ یہ بحث کہ تصوف صوف سے ماخوذ ہے۔ صوف اونی کپڑے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اونی کپڑے کا لباس انبیاء کرام نے، ان کے شاگردوں اور فقراء نے زیادہ پہنا ہے اس لئے انہیں صوفی پکارا جاتا ہے۔ یہ تصوف کی صحیح تعریف نہیں ہے۔

منافقانہ طرز عمل:

یہ کہنا کہ اصحاب صفہ کا ایک گروہ تھا اور انہوں نے دنیا ترک کر کے صرف اسلام کی تبلیغ کے لئے خود کو وقف کر دیا تھا اس لئے جو بندہ ترک دنیا کر کے تبلیغ کیلئے خود کو وقف کر دے وہ صوفی ہے۔

یہ بات حقیقت کے منافی ہے۔ اس لئے کہ اصحاب صفہ جب شادی کر لیتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دین کا کام ان کے سپرد اس طرح فرماتے تھے کہ وہ اپنے بیوی بچوں، خاندان، معاشرے اور پڑوس کے حقوق پورے کر کے دین کا فریضہ انجام دیں۔

یہ اعتراض کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے اور اہل تصوف رہبانیت اختیار کر لیتے ہیں۔ تصوف کے خلاف منافقانہ طرز عمل اور سازش ہے۔ جن لوگوں نے بذعم خود اپنے آپ کو نمایاں کرنے یا انا کے خول میں بند ہو کر اپنی پذیرائی کو عام کرنے کے لئے لفظ ’’صوفی‘‘ اور تصوف کے مادۂ اشتقاق میں ٹوہ لگائی ہے ان کے پاس بھی کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جس سے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔

صوفی کا لفظ نہ عربی ہے نہ اسلامی ہے۔ بلکہ یہ ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کا مادہ ’’سوف‘‘ ہے۔ یونانی زبان میں سوف کے معنی ’’حکمت‘‘ ہے۔

تارک الدنیا:

دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کے عربی میں ترجمے ہوئے تو اشراقی حکماء نے سوف کا ترجمہ ’’حکیم‘‘ کر دیا۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ سوفی۔۔۔۔۔۔سے ’’صوفی‘‘ ہو گیا۔

یہ روایت بھی ہے کہ غوث بن مُرّ نے خود کو خانۂ کعبہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اس کا مشہور نام ’’صوفہ‘‘ تھا۔

جن لوگوں نے خود کو غوث بن مُرّ سے منسوب کیا وہ صوفیاء کہلائے۔ غوث بن مُرّ کو صوفہ اس لئے کہتے تھے کہ اس کی ماں کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی۔ صوفہ کی ماں نے منت مانی تھی کہ اگر اس کی اولاد زندہ رہی تو وہ اس کے سر پر اون لگا کر کعبہ شریف کیلئے وقف کر دے گی۔ چنانچہ اس نے منت پوری کی اور غوث بن مُرّ کا مشہور نام صوفہ زبان زد عام ہو گیا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ ’’صوفانہ‘‘ سے مشتق ہے جو کہ ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے۔ چونکہ صوفی لوگ صحرا کی گھاس پات کھا کر گزارا کرتے تھے۔ اس لئے وہ صوفہ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ بعض لوگوں نے تو لفظ صوفی کی تشریح میں غضب ہی کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نام ’’سینٹ صُوفیہ‘‘ گرجا کے رہنے والے راہبوں کی وجہ سے ہے اور جو اپنے آپ کو تارک الدنیا کہتے تھے اور یہ نام وہاں سے نکل کر مسلمان درویشوں میں رائج ہو گیا۔

غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر افسوس ہے کہ کسی نے اس کا مفہوم یہ نہیں سمجھا کہ لفظ صوفی کا تعلق ظاہری اور باطنی صفائی سے بھی ہو سکتا ہے۔ یا وہ لوگ جو کدورت، بغض و عناد، نفرت اور فساد سے پاک صاف ہو جاتے ہیں ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔

الحمداللہ! یہ بات قابل شکر ہے کہ باوجود مخالفت کے مخالفین نے بھی تصوف اور صوفی کا کوئی تاریک پہلو پیش نہیں کیا۔

تھیاسوفی:

یونانی لفظ تھیاسوفی کا ترجمہ ’’حکمت خدا‘‘ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے صوفی کا اطلاق اس شخص پر کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کا طلب گار ہو۔

یونانی لفظ کے مطابق سوفیا دراصل وہ بزرگ تھے جنہوں نے دوسرے مشاغل ترک کر کے اپنی زندگی Researchمیں اور کائنات میں، خالق کائنات کی حکمت کی تلاش کرنے میں صرف کر دی۔

اور یہ ایسی بات نہیں جس میں ترک دنیا کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ اس لئے کہ جب کوئی سائنسدان ریسرچ کرتا ہے تو وہ بھی دنیا کے دوسرے مشاغل سے یکسو ہو جاتا ہے۔

اسلام میں تفرقے:

طوائف الملوکی کے زمانے میں ایران کے ذہین طبقہ نے حکمت خدا کی طرف رجوع کیا۔ ان بزرگوں نے نفس انسانی کا کھوج لگانے کی جدوجہد کی۔ زمانے میں رائج نا انصافی اور استعمار کے خلاف عدم تعاون کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جاہ پسند اور دنیا پرست لوگوں نے صوفیاء کو ہمیشہ ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ مگر صوفیاء کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کی پیش رفت میں کسی مخالفت، مخاصمت اور تشدد کی پرواہ نہیں کی۔ انہیں دانشوروں کے علاوہ سلاطین کے تشدد اور بے رخی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔۔۔انشاء اللہ صوفیاء کی یہ جماعت اللہ اور اللہ کے رسول کے توحیدی مشن کو پھیلانے میں تاقیامت عزم اور حوصلہ کے ساتھ خدمت دین میں مصروف رہے گی۔

ہمیں اس بات کا ارمان ہے کہ۔۔۔۔۔۔کاش ہمارے علماء اسلام میں ناقابل فہم تفرقوں پر بھی توجہ دیں تا کہ اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ختم ہو جائے۔


’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ متحد ہو کر پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ کے پلیٹ فارم پر امت مسلمہ جمع ہو جائے۔ امت مسلمہ کی اجتماعیت سے ہی۔۔۔۔۔۔مبلغین پوری نوع انسانی کو عقیدۂ توحید پر قائم رہنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔

حقوق اللہ:

اعتراض کیا جاتا ہے کہ صوفی کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں رائج نہیں تھا اس لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ صحابۂ کرام کے زمانہ میں اہل حدیث، اہل قرآن، دیو بندی، بریلوی، وہابی، شیعہ، سنی وغیرہ کے الفاظ بھی رائج نہیں تھے۔ حکیم الامت، علامہ، مولانا، مولوی کے الفاظ کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ کسی نے مولائیت یا مولویت کے الفاظ کا اشتقاق کیوں تلاش نہیں کیا۔ کیا صحابہ کرامؓ کے زمانے میں کوئی بزرگ مولوی ابوہریرہؓ، مولانا معاض بن جبلؓ یا ملا ابن مسعود یا علامہ ابن عباس، حکیم الامت ابن عمر، مولانا ابوبکر، مفتی عثمان غنی کے نام سے مشہور تھے؟ (الفقر فخری)

بحث و مباحثہ کا سارا زور لفظ ’’صوفی‘‘ کیوں ہے؟۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ صوفی یہ کہتا ہے کہ قال کے ساتھ حال ضروری ہے۔ ظاہر کے ساتھ باطن ضروری ہے۔ ظاہر کے ساتھ اگر باطن نہیں ہو گا تو عبادت کو قبولیت کا مژدہ نہیں ملے گا۔ 

اگر اسلام کے ساتھ ایمان نہیں ہو گا تو اسلام کی تکمیل نہیں ہو گی۔ نماز میں اگر حضور نہیں ہو گا تو نماز معراج المومنین نہیں بنے گی۔ حقوق اللہ پورے نہیں کئے جائیں گے تو شرک سے نجات نہیں ملے گی۔ اللہ وحدہ لاشریک کو دیکھ کر اس کا عرفان حاصل نہیں کیا جائے گا تو تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔

صوفی کا پیغام یہ ہے کہ:

’’ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے ،

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے ،

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے ،

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے ‘‘



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے