Topics

تخلیقی فارمولے

علم تصوف۔۔۔۔۔۔انکشاف کرتا ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے روشنی کے غلاف میں بند ہے اور روشنی کے غلاف میں مقداریں کام کر رہی ہیں۔ انسان جب مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر کے کسی شئے میں تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر شئے کے اندر چھپی ہوئی قوتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔ موجودہ سائنسی ترقی اسی ضابطہ اور قاعدہ پر قائم ہے۔ سائنس دانوں نے جیسے جیسے تفکر سے کام لیا ان کے اوپر شئے کے اندر کام کرنے والی تخریبی اور تعمیری قوتیں آشکار ہو گئیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس ہوں یا گیس کی صورت میں ہوں سب کی سب ایٹموں سے بنی ہوئی ہیں اور خود ایٹم زیادہ تر ’’خلا‘‘ پر مشتمل ہے۔ بعض اشیاء میں تمام کے تمام ایٹم ایک جیسے ہوتے ہیں ایسی اشیاء کو عناصر کہا جاتا ہے جن میں ہائیڈروجن، کاربن، لوہا، سونا، سیسہ، پلاٹینم اور یورنیئم جیسے قدرتی عناصر ہیں۔ عناصر کے علاوہ مرکبات میں مختلف عناصر کے ایٹم ایک دوسرے میں جذب اور گندھے ہوئے ہیں۔ عناصر کی باہمی پیوستگی سے سالمات بنتے ہیں۔

TOM:

ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’TOM‘‘ ناقابل تقسیم شئے،" کے ہیں۔ یونانی زبان میں ’’ٹوم" "(TOM)" تقسیم کرنے کو کہتے ہیں۔ آریانی زبانوں میں ’’آ‘‘ نفی کا کلمہ ہے۔ ایٹم کا نام دمقراط نامی ایک سائنس دان کا وضع کردہ ہے۔

دمقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں یعنی ایٹموں سے بنی ہے۔ ایٹم کا سائز ایک انچ کا ڈھائی کروڑ حصہ ہوتا ہے یعنی سوئی کی نوک پر لاکھوں ایٹم رکھے جا سکتے ہیں۔ ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے ایٹم بھاری ہوتے ہیں بشمول انسان تمام جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے مرکب ہے۔ روح کے ایٹم باقی تمام اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور لطیف ہوتے ہیں۔ موت کے بارے میں دمقراط کا خیال تھا کہ جب روح کے تمام ایٹم جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں جسم میں روح کا ایک ایٹم بھی باقی نہیں رہتا جو خارج شدہ ایٹموں کو واپس لا سکے۔ اس لئے روح نکل جانے کے بعد آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔

مادہ اور توانائی:

تحقیق اور تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی شئے کے دو روپ ہیں کیونکہ یہ تمام ذرات جو کہ اب تک معلوم کیے گئے ہیں توانائی کی صورت میں سامنے آئے ہیں یعنی ان بنیادی ذرات پر تجربات سے ہی ان کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے آخر کار توانائی ہی حاصل ہوتی ہے۔

مالیکیول ایٹم یا بنیادی ذرات جو اب تک دیکھے نہیں جا سکے ان کے بارے میں اتنی مفصل معلومات کن بنیادوں پر جمع کی گئی ہیں؟

سائنس دان اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ تجربات کے نتائج سے حاصل ہونے والے تاثر یا خصوصی مظاہرہ کی صورت میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایٹم اور اس کے ذرات کیا ہیں۔ مثلاً ٹی وی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ الیکٹران دھار Electron Beamکے بہاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ الیکٹران یا الیکٹران بیم دکھائی نہیں دیتی۔ اس طرح کے تجربات میں ایٹم کو جب کسی بیرونی قوت یا شعاع کے زیر اثر لایا جاتا ہے تو ایٹمی ذرات پر اس کی اثر پذیری کے نتائج ایک اسکرین پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسکرین پر نظر آنے والا یہ Responseروشنی کے دھبہ (Dot) رنگ یا ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس طرح ذرات کی خصوصیات معلوم کر لی جاتی ہیں۔

نور کے غلاف:

احسن الخالقین اللہ کے تفویض کردہ اختیارات کے حامل لوگ۔۔۔کائنات کی تخلیق میں نور کا تعین کرتے ہیں۔ نور اور روشنی کے Flowکو کائنات کی حرکت قرار دیتے ہیں۔ کائنات میں بڑے سے بڑا کرہ۔۔۔یا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ۔۔۔(ایٹم)۔۔۔نور کے غلاف میں بند ہے۔ اور ہر ذرہ اور عناصر کی پوری دنیا۔۔۔مقداروں پر قائم ہے۔ مقداریں الگ الگ ہیں۔ لیکن ہر مقدار دوسری مقدار کے ساتھ آپس میں گندھی ہوئی ہے۔ ایک طرف مقداریں ہم رشتہ ہیں اور دوسری طرف الگ الگ بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

’’یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ا ن کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں یعنی ریسرچ کرتے ہیں۔‘‘

(سورۂ نحل۔ آیت نمبر۱۳)

’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘

(سورۂ نور۔ آیت نمبر۳۵)

چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کوئی چیز ایسی نہیں ہے قرآن میں جس کی وضاحت نہ ہو۔‘‘

(سورۂ سبا۔ آیت نمبر۳)

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیجئے اس کتاب کو اس نے اتارا ہے جو زمین اور آسمانوں کا جاننے والا ہے۔‘‘

(سورۂ فرقان۔ آیت نمبر۶)

یعنی کائنات کا ایک ایک ذرہ حتیٰ کہ اس کا ایک ایک ایٹم اور ایک ایک سالمہ (Molecule) اس کے علم میں ہے۔

معین مقداریں:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر ان تخلیقی فارمولوں سے آگاہ کیا۔‘‘

(سورۂ اعلیٰ۔ آیت نمبر۱ تا ۳)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو معین مقداروں (ایٹم) سے بنایا ہے اور معین مقداریں دراصل اس شئے کے ظاہر اور باطن میں کام کرنے والی صلاحیتیں ہیں جو ایک قانون اور Disciplineکے تحت ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار ہیں۔ بڑے بڑے اجرام سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجزاء الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران اس ذات واحد کی نظروں کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی ذرہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے۔ اس کے علم سے کوئی رتی برابر چیز باہر نہیں۔ وہ چیز آسمانوں میں ہو یا زمین میں اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا اور ان چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘

(سورۂ سبا۔ آیت نمبر۱ تا۷)

ذرات کی تین قسمیں:

سورۂ سبا کی اس آیت میں تین قسم کے ذرات کا بیان ہوا ہے:

۱)رتی برابر ذرہ

۲) اس سے چھوٹا

۳) نسبتاً اس سے چھوٹا

تخلیق میں تین قسم کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ ایک ایٹم دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزاء اور سوئم ایٹم کے مرکبات۔

۱) ’’مثقال ذرہ‘‘ یعنی وہ رتی برابر چیز ہے جس میں وزن پایا جاتا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ رتی چھوٹے سے وزن کا تشخص ہے۔ ذرہ برابر چیز کا مطلب یہ ہوا جس میں کوئی وزن ہو اور معین مقدار یا مقداریں ہوں۔ ایٹم چونکہ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران، پروٹان، نیوٹران موجود ہیں۔ اس لئے اس میں مقدار اور وزن دونوں ہیں۔

۲) اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے نسبتاً چھوٹا الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج ہونے والی الفاء، بیٹا اور گاما شعاعیں۔

۳) اور اس سے بڑا (ایٹم سے بڑا) یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں۔

روشنی کا جال:

قرآن میں تفکر کرنے سے انسان کی نظر میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایٹم کی اکائی میں روشنی کے جال کو دیکھ لیتی ہے۔ ایک صوفی یہ جان لیتا ہے کہ ایٹم کا، ایٹم کے اندرونی اجزاء اور ارض و سماء کا خالق ایک ہے اور پوری کائنات اس کی ملکیت ہے۔ اس نے اس کائناتی سسٹم کو ایک ضابطہ کے ساتھ تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ وجود بخشا ہے۔

مقداروں کا یہ علم وہ لوگ سیکھ لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:

’’اور وہ جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں۔‘‘

(سورۂ عنکبوت۔ آیت نمبر۶۹)

قرآن میں لوہے (دھات) کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

’’اور ہم نے نازل کیا لوہا (اس میں دوسری دھاتیں بھی شامل ہیں جیسے یورینیم وغیرہ) اور اس میں ہم نے انسانوں کے لئے بیشمار طاقت اور فائدے رکھ دیئے ہیں۔‘‘

(سورۂ حدید۔ آیت نمبر۲۵)

مغیبات اکوان:

مرشد کی نگرانی میں تصوف کے اسباق کی تکمیل کرنے والا فرد جب ان مقداروں سے واقف ہو جاتا ہے جو اشیاء کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شئے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے۔ مقداروں کا علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ (Lead) میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں۔

لہروں کا جال:

کائنات چار نہروں یا چار توانائیوں سے فیڈ ہو رہی ہے۔

۱۔ نہر تسوید

۲۔ نہر تجرید

۳۔ نہر تشہید

۴۔ نہر تظہیر

یورینیم اور لیڈ دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے فیڈ ہوتی ہیں۔ لیڈ کے اوپر ایسی لہروں کا غلاف بنا ہوا ہے کہ اگر اسے تلاش کر لیا جائے تو دنیا ایٹم کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے۔ سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔‘‘

(سورۂ جاشیہ۔ آیت نمبر۱۳)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں موجود کسی بھی شئے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شئے کے اندر کام کرنے والی مقداروں کا علم اسے حاصل ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور یہ مقداریں مادیت کی اکائی ہیں۔ مادیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے۔ نور کے اوپر روشنی کا غلاف ہے۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتائی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔ نور اور روشنی مرکب اور مفرد دو لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذرہ بنا ہوا ہے۔ صوفی جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور میں داخل ہو جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ذرہ میں ناقابل بیان طاقت (Energy) اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے۔

موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کر رہے ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادی مفاد کا عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے پریشان اور بے سکونی کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ اگر یہی ترقی اور ایجاد پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہو جائے تو سائنس نوع انسانی کے لئے سکون و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ترقی کا فسوں انسانی نسل کو آتش فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ اگر اس کا مثبت تدارک نہ کیا گیا تو یہ دنیا کسی بھی وقت بھک سے اڑ جائے گی۔ جو چیز وجود میں آ جاتی ہے اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔

صوفی اور سائنٹسٹ:

موجودہ سائنسدان اور صوفی سائنسدان میں یہ فرق ہے کہ سائنٹسٹ کے پیش نظر پہلے اپنا مفاد ہوتا ہے اور صوفی کا علم مخلوق کے لئے وقف ہوتا ہے۔

کائناتی نظام کو سمجھنے کی صلاحیت کو تصوف میں مغیبات اکوان کہتے ہیں۔ مغیبات اکوان کے حامل صوفی خواتین و حضرات کے اندر اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے کے گزرے ہوئے حالات و واقعات اور ہزاروں سال بعد آنے والے حالات و واقعات کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی تفصیلات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے