Topics

مخلوقات

مخلوقات کا حلیہ:

کائنات میں تین مخلوقات مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔فرشتے، جنات اور انسان۔ 

دو مخلوق مکلف ہیں اور ایک مخلوق غیر مکلف ہے۔

ہر مخلوق کے افراد لباس پہنتے ہیں۔ ہر مخلوق کے اعضاء ہاتھ اور پیر سب ہیں لیکن خدوخال اور نقوش میں فرق ہے۔

ایک مخلوق کی آنکھ مخروطی ہے، ناک چپٹی اور کھڑی ہے، چہرہ کتابی یا گول ہے۔

دوسری مخلوق کی آنکھیں بادام کی ہیں۔ آنکھ کی پتلی میں گہرے رنگ کے ڈورے ہیں، ستواں ناک کی نوک غائب ہے، چہرہ بیضوی اور سر کشکول کی طرح ہے۔

تیسری مخلوق کی آنکھ مشروم کی طرح گول ہے، ناک گل دستہ کی طرح ہے۔ چہرہ پورے چاند کی طرح گول ہے اور اس مخلوق کا سر سانپ کے سر سے مشابہ ہے۔

ایک مخلوق قد میں بارہ سے سولہ فٹ دراز یا اس سے بھی زیادہ لمبی ہے۔

دوسری مخلوق عنفوان شباب کی عمر میں نظر آتی ہے۔ قد متوازن ہے۔

تیسری مخلوق پانچ سے چھ فٹ کوتاہ یا دراز ہے اور جسم روشنیوں کا مرقع ہے۔

ایک مخلوق کے جسم میں ڈبل برقی رو دوڑتی ہے۔

دوسری مخلوق کے جسم میں اکہری برقی رو دوڑتی ہے۔

تیسری مخلوق ایسی روشنی سے مرکب ہے جسے روشنی نہیں کہا جا سکتا۔

ایک مخلوق کے حواس محدود۔

دوسری مخلوق کے حواس محدودیت میں لامحدود۔

تیسری مخلوق کے حواس لامحدود۔

ایک مخلوق ایک گھنٹے میں تین میل پیدل مسافت طے کرتی ہے۔

دوسری مخلوق ایک گھنٹے میں پیدل ستائیس میل چلتی ہے۔

تیسری مخلوق کی پرواز ایک سو اسی ہزار میل ہے۔

پہلی مخلوق عناصر (مادیت) کے خول میں بند ہے۔

دوسری مخلوق روشنی کے خول میں بند ہے۔

تیسری مخلوق (ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ) روشنی کی رفتار میں قید ہے۔

ایک مخلوق کی بساط زمین، دوسری مخلوق کی بساط خلاء، تیسری مخلوق کی بساط سماوات اور بیت المعمور ہے۔

ایک مخلوق کو کھانے اور پینے کی اشتہاء کو پورا کرنے کے لئے اربعہ عناصر کی ضرورت ہے۔

دوسری مخلوق کی اشتہاء پوری ہونے میں فاسفورس کا عمل دخل ہے۔

تیسری مخلوق میں اشتہاء کا تقاضہ بے رنگ روشنیوں سے پورا ہوتا ہے۔

خلاء:

خلاء ایک تانا بانا ہے اس تانے بانے میں مخلوق نقش ہے۔ جیسے کپڑے پر ایمبرائیڈری(Embriodery) یا قالین پر شیر بُنا ہوا ہوتا ہے۔ خلاء کا دوسرا رخ محض تانا ہے اس پر بھی مخلوق کے خدوخال نقش ہیں۔ خلاء کا تیسرا رخ ایسی لہروں سے مرکب ہے جس میں تانا بانا نظر نہیں آتا۔

تینوں مخلوقات میں لمس کا احساس ہے، خوش ہونے اور ناخوش ہونے کے جذبات ہیں لیکن یہ احساس کہیں بھاری اور کہیں لطیف ہے، جہاں بھاری اور بہت بھاری ہے، وہاں کشش ثقل ہے۔ جہاں ہلکا ہے وہاں کشش ثقل تو ہے لیکن کشش ثقل خلاء کا سفر کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی، جہاں لطافت ہے وہاں کشش ثقل (Gravity) ختم ہو جاتی ہے۔

تینوں مخلوقات میں ہر مخلوق کے اندر لطیف حس موجود ہے صرف درجہ بندی کا فرق ہے۔

ایک مخلوق کے اوپر کثافت کا پردہ زیادہ ہے۔

دوسری مخلوق پر کثافت کا پردہ کم ہے۔

تیسری مخلوق پر کثافت کا پردہ نہیں ہے۔

دونوں مخلوقات تیسری مخلوق کی طرح کثافت کے پردے اور تاریکی کے خول سے خود کو آزاد کر دیں تو وہ اپنے اندر اللہ کا نور دیکھ لیتی ہیں۔

قرآن حکیم میں ہے:

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔ قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے۔ نہ شرقی ہے نہ غربی، قریب ہے کہ روشن ہو جائے اگرچہ آگ نے اسے نہ چھوا ہو، نور علیٰ نور ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کو دکھا دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘۔

(سورۃ نور۔ آیت نمبر۳۵)

روحانی مسافر (سالک) جب راستہ کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے تو اس کے شعور میں ایک جھماکا ہوتا ہے اور اس کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔

تصوف رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اللہ کو پسند ہے۔ اچھا انسان وہی کام کر کے خوش ہوتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے۔

بیس ہزار فرشتے:

ہر آدمی کے ساتھ بیس ہزار فرشتے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہر آدمی اللہ تعالیٰ کا کمپیوٹر ہے جس میں بیس ہزار چپس (Chips) ہیں۔ ایک چپ(Chip) بھی کام نہ کرے تو پورے نظام میں خلل پڑ جاتا ہے۔

دو کھرب سیلز:

انسانی دماغ میں دو کھرب سیلز ہیں اور ہر سیل کسی نہ کسی حس (Sense) کسی نہ کسی عضو، کسی نہ کسی Tissue، کسی نہ کسی شریان اور رگ پٹھوں سے متعلق ہے۔ دو کھرب میں ایک سیل بھی متاثر ہو جاتا ہے تو انسانی جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سانس اور ہوا:

ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور مختلف نالیوں سے گزرتی ہوئی پورے جسم میں داخل ہوتی ہے جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا رہتا ہے اور ان نالیوں کا قطر بتدریج چھوٹا ہو جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں موجود تین ملین تھیلیوں میں ہوا پہنچ جاتی ہے۔ ہم کانوں سے سنتے ہیں، آواز کی لہریں کان میں داخل ہوتی ہیں۔ کان کے پردہ پر بالوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی گونج میں ہم معنی پہناتے ہیں۔

خون کی رفتار:

اللہ تعالیٰ کی صناعی میں انسان جس طرف بھی متوجہ ہوتا اور اللہ کی نشانیوں میں تفکر کرتا ہے اس کے اوپر عجائبات کی دنیا روشن ہو جاتی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں اور شریانوں میں دوڑنے والا خون چوبیس گھنٹے میں پچہتر ہزار میل سفر کرتا ہے۔ آدمی ایک گھنٹے میں تین میل چلتا ہے۔ اگر وہ مسلسل بغیر وقفے کے ۲۶ ہزار ۳۸۰ گھنٹے تک چلتا رہے۔ تب ۷۵ ہزار میل کا سفر پورا ہو گا۔

اللہ نے انسان کے ارادہ و اختیار کے بغیر جسم کو متحرک رکھنے کے لئے دل کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ پھیلنے اور سکڑنے کی صلاحیت سے سارے جسم کو اور جسم کے ایک ایک عضو کو خون فراہم کرتا رہے۔

سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے ہیں۔

جو عالمین کی خدمت کرتا ہے۔

جو عالمین کو رزق دیتا ہے۔

جو عالمین میں آباد مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔

اللہ کی عادت:

تصوف کے طالب علم کو۔۔۔مرشد بتاتا ہے کہ جب بندہ کا اللہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اندر اللہ کی صفات منتقل ہو جاتی ہیں۔ خلق خدا کی خدمت اللہ کا ذاتی وصف ہے جو بندہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے فی الحقیقت اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ کر رہا ہے۔ جتنا زیادہ مخلوق کی خدمت میں انہماک بڑھتا ہے اس ہی مناسبت سے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ کوئی نبی، کوئی صوفی یا ولی ایسا نہیں ہے جس نے نہایت خوشدلی کے ساتھ اللہ کی مخلوق کی خدمت نہ کی ہو۔

صوفی اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے۔

مخلوق کی خدمت اللہ کی پسندیدہ عادت ہے۔۔۔۔۔۔

صوفی بلاامتیاز مذہب و ملت مخلوق سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔

جو بندہ مخلوق سے نفرت کرتا ہے اور تفرقہ ڈالتا ہے وہ اللہ کا دوست نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

اللہ کا دوست خود غرض نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔

اللہ کا دوست خوش رہتا ہے اور وہ سب کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ صوفی تلقین کرتا ہے کہ ایسی باتوں سے اللہ خوش ہوتا ہے جن باتوں میں خلوص نیت ہو، اخوت ہو، ہمدردی ہو، ایثار ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:

’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘

مومن میں ایسی فراست کام کرتی ہے جو نور کی دنیا کا مشاہدہ کرتی ہے۔

جڑی بوٹیاں، پھل، پھول اور پودے بھی مخلوق ہیں۔ جس طرح انسان کی پیدائش مرحلہ وار پراسس سے ہوتی ہے اس طرح نباتات، جمادات کی حیات و ممات بھی مرحلہ وار پراسس پر قائم ہے۔ اللہ نے کائنات میں ہر شئے کو جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ 

یعنی ہر شئے کے دو دو رخ ہیں۔۔۔۔۔۔اور ہر رخ مقداروں (خلیوں) سے مرکب ہے۔ ہر خلیہ کی بیرونی دیوار میں آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن کا عمل دخل ہے۔

ہر شئے کی بنیاد پانی ہے:

ہر شئے کی بنیاد پانی ہے، پانی کے اوپر ہی تخلیق کا دارومدار ہے، پانی نہ ہو تو زمین بے آب و گیاہ بنجر بن جاتی ہے۔ انسان، جنات، پودوں، درختوں اور دوسری تمام مخلوقات کی نشوونما کے لئے نمی، ہوا اور گرمی کا ہونا ضروری ہے۔ فاسفورس، پوٹاشیم اور نائٹروجن نہ ہو تب بھی نشوونما نہیں ہو گی اور یہ سب چیزیں قدرت نے پانی میں جمع کر دی ہیں۔

درختوں میں اگر پتے نہ ہوں تو درختوں کی زندگی مخدوش ہو جاتی ہے۔ ہر پتے میں گیس ہوتی ہے، مسامات ہوتے ہیں، ان مسامات میں کاربن خون کی طرح دوڑتا ہے اور یہی مسامات آکسیجن کو باہر نکالتے ہیں۔

درختوں کی دنیا:

پتوں کی ایک پوری دنیا ہے۔ پتے درخت کو زندہ رکھتے ہیں اور یہی پتے اگر بیمار ہو جائیں تو درخت بیمار ہو جاتا ہے۔ یہی پتے جب زمین پر گرتے ہیں تو زمین کے اوپر نباتات کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں۔ انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی زمین پر کھاد ڈال سکے، بارش برستی ہے، بجلی کڑکتی ہے، بجلی کی کڑک سے اور بارش کی بوندوں سے کھیتوں کو بیش بہا نائٹروجن مہیا ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

’’اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے‘‘

(سورۃ انبیاء۔ آیت نمبر ۳۰)

’’اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا۔ پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گپھے میں سے خوشے ہیں جو بوجھ سے نیچے کو لٹکے ہوئے ہیں اور اس ہی پانی سے ہم نے انگور کے باغ اور زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے ہیں جو کہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہیں۔ ہر ایک کے پھل کو تو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور پھر اس کے پکنے کو دیکھو۔۔۔ان میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں‘‘۔

(سورۃ انعام۔ آیت نمبر۹۹)

’’اور وہی ہے جس نے تمہارے واسطے آسمان سے پانی برسایا۔ جس کو تم پیتے ہو۔ اور اس سے درخت سیراب ہوتے ہیں۔ اور اس پانی سے تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے۔ بیشک اس میں تفکر کرنے کے لئے دلیل ہے‘‘۔

(سورۃ نحل: آیت نمبر۱۰۔۱۱)

’’اور وہ رب ایسا ہے جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے واسطے راستے بنائے۔ اور آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے۔۔۔۔۔۔اس ہی پانی کے ذریعہ سے مختلف اقسام کے نباتات پیدا کئے تا کہ تم خود بھی کھاؤ۔۔۔۔۔۔اور اپنے جانوروں کو بھی کھلاؤ۔ ان چیزوں میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں‘‘۔

(سورۃ طہٰ: آیت نمبر۵۳۔۵۴)

’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔ پھر نطفہ (پانی کی پھٹکی) کو ہم نے جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا‘‘۔

(سورۃ مومنون: آیت نمبر۱۳۔۱۴)

’’پھر اس کی نسل حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کی‘‘۔

(سورۃ السجدہ۔ آیت نمبر۸)

’’کیا ہم نے تم کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا نہیں کیا‘‘۔

(سورۃ المرسلٰت۔ آیت نمبر۲۰)

’’وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا‘‘۔

(سورۃ الطارق۔ آیت نمبر۶)

بارش برسانے کا فارمولا:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اس نے تمہارے لئے پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں‘‘۔

(سورۃ النحل۔ آیت نمبر۱۳)

تصوف کا علم ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز رنگین ہے۔ اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے، ہر چیز دوسری چیز کے لئے ایثار کر رہی ہے، پھولوں میں رنگ و بو، بھنورے اور مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ انجیر کے اندر ایک زوجین چھوٹا سا غنچہ ہوتا ہے، ایک خاص قسم کی بھڑ غنچوں میں انڈے دے جاتی ہے، جب بچے نکلتے ہیں تو نر انجیر مادہ انجیر میں چلے جاتے ہیں۔

بعض بیلیں براہ راست زمین سے غذا حاصل نہیں کرتیں بلکہ دوسرے درختوں کے رس پر پلتی ہیں اور یہ درخت رفتہ رفتہ خشک ہو جاتے ہیں، درختوں کی جڑیں کیونکہ پانی جذب کر لیتی ہیں اس لئے زمین پر دلدل نہیں بنتی، فضا جب درختوں کے سانس سے بھر جاتی ہے تو بادل وزنی ہو کر برسنے لگتے ہیں۔

ریگستان میں اگر بے شما ربانس کھڑے کر دیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف رنگوں سے رنگ دیا جائے تو قانون یہ ہے کہ ریگستان میں بارش برسے گی اور جب تک یہ بانس لگے رہیں گے بارش برستی رہے گی تاآنکہ ریگستان نخلستان اور جنگل میں تبدیل ہو جائے۔

حیوانات کی زندگی کا دارو مدار آکسیجن پر ہے اور نباتات کی زندگی کا انحصار کاربن پر ہے۔ اگر آکسیجن کم ہو جائے تو حیوانات ہلاک ہو جائیں گے اور کاربن کا ذخیرہ نہ رہے تو نباتات فنا ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔یہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے۔۔۔۔۔۔اور ایک ایسا علم ہے جسے انسان کو ودیعت کر دیا گیا ہے۔ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اس کنبہ کا ہر فرد دوسرے فرد سے ہم رشتہ ہے، ہر شئے دوسری شئے کے کام آ رہی ہے۔ ہر شئے خوراک بن کر دوسری شئے کے لئے ایثار کر رہی ہے۔

فطرت کے قوانین:

زمین کے اوپر موجود مخلوقات کی یہ بہت مختصر روئیداد اس لئے لکھی گئی ہے کہ ہمارے اندر تفکر پیدا ہو، ہم یہ دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں اور اس بات پر یقین کریں کہ نظام کائنات میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر چیز دوسری چیز سے ایک مخفی رشتے میں بندھی ہوئی ہے۔ اور یہ مخفی رشتہ ایسا مضبوط رشتہ ہے کہ مخلوق میں سے کوئی ایک فرد بھی اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتا اور نہ اس رشتے کو توڑ سکتا ہے، جب تک کوئی شئے دوسری شئے کے کام آ رہی ہے اس کا وجود ہے ورنہ وہ شئے مٹ جاتی ہے۔ یہ پورا نظام ہے جو زمین میں، پانی کی دنیا میں، فضاء میں، خلاء میں، آسمانوں میں، انسانوں میں اور تمام مخلوقات میں جاری ہے۔

کائناتی سسٹم:

قدرت یہ بھی چاہتی ہے کہ زمین کا کوئی خطہ کوئی حصہ قدرت کے فیض سے محروم نہ رہے۔ انسان درختوں کی خدمت کرتا ہے اور درخت انسانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ انسان حیوانات کی حفاظت کرتا ہے اور حیوانات انسانوں کے کام آتے ہیں۔

ہوا بیجوں کو اپنے دوش پر اٹھا کر دور دراز مقامات تک پہنچاتی ہے۔ دریا، ندیاں، نالے بیجوں اور جڑوں کو زمین کے ہر خطے تک پہنچاتے ہیں۔ یہی قانون قوموں کے عروج و زوال میں بھی نافذ ہے۔ جب کوئی قوم اس سسٹم سے تجاوز کرتی ہے اور ایثار سے کام نہیں لیتی تو قدرت اسے فنا کر دیتی ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

’’اگر تم نے کائناتی سسٹم سے منہ پھیر لیا تو یہ زمین کسی اور کے قبضہ میں دے دی جائے گی‘‘۔

زمین پر صرف وہی قومیں باقی رہتی ہیں جو مظاہر فطرت کے جاری و ساری قانون سے واقف ہیں اور حیرت انگیز تخلیق اور نظام آفرینش کا مطالعہ کرتی ہیں، سب سے بڑا ظلم اور جہالت یہ ہے کہ کسی قوم کو یہ معلوم نہ ہو کہ آسمانی دنیا کا مشاہدہ کئے بغیر کوئی قوم کائناتی سسٹم سے واقف نہیں ہوتی۔

زمین کے خزانوں کو استعمال کئے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہتی، زمین کے خزانوں کے استعمال کا عمل اور طریقہ قرآن میں تفکر (کنسنٹریشن اور مراقبہ) کرنا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کائنات میں تفکر اور اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش کو اپنی اولاد اور امت کے لئے فرض قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں تجھے بنانے والا ہوں انسانوں کے لئے امام‘‘۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’تیری اولاد میں سے ظالم لوگ محروم ہو جائیں گے‘‘

(سورۃ بقرہ۔ آیت نمبر۱۲۴)

صراط مستقیم:

آج کا دور خود غرضی، مصلحت کوشی اور افراتفری کا دور ہے۔ بلاشبہ دین کو قوم کے لئے بھول بھلیاں بنانے والے لوگ ظالم اور سرکش ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے کہ خالق نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ خالق نے زندہ رہنے کے لئے وسائل عطا کئے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اللہ کی حاکمیت ہے۔

جس بندے کا دلی تعلق اللہ سے قائم ہو جاتا ہے۔ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہے اور صراط مستقیم پر گامزن خواتین و حضرات اللہ کے دوست ہیں۔ جنہیں نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔۔۔۔۔۔!

اللہ کی کتاب جو اللہ کے محبوبﷺ پر نازل ہوئی۔ جس میں لاریب، شک نہیں۔ جو کتاب روشن دلیلوں کے ساتھ ہدایت ہے متقی لوگوں کے لئے جس کتاب کا ہر ہر لفظ نور ہے، یہ نور انسان اور خالق کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے۔ یہی نور زمین و آسمان کی کنہ ہے جب کوئی انسان قرآن و حدیث کی روشنی میں تصوف کے طریقہ پر اس نور کو تلاش کرتا ہے تو اللہ اس نور کی ہدایت دیتا ہے جسے چاہے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے