Topics

قبر میں دروازہ

روحانی راستہ کے مسافر ایک صوفی نے کشف القبور کے مراقبہ میں جو دیکھا وہ اس طرح بیان کرتا ہے:

’’ایک پرانی قبر کے سرہانے جب میں نے مراقبہ کیا تو میں نے دیکھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اسپرنگ کی طرح چھوٹے اور بڑے دائرے آنا شروع ہو گئے۔ یہ دائرے نہایت خوش رنگ تھے۔ پھر ایک دم اندھیرا ہو گیا اور خلاء میں روشنی نظر آئی اور ایک بہت بڑی چہار دیواری میں قلعہ کی طرح دروازہ نظر آیا۔میری روح اس دروازے میں داخل ہو گئی۔دروازہ میں داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ یہاں پورا شہر آباد ہے۔ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ دھوبی گھاٹ بھی ہے اور ندی نالے بھی۔ جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور باغات بھی۔ یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں میں رہنے والے آدم زاد بھی ہیں۔ یہاں اس زمانے کے لوگ بھی ہیں جب آدم بے لباس تھا۔ وہ ستر پوشی کے علم سے بے خبر تھا۔

ان میں سے ایک صاحب نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا۔

’’آپ نے اپنے جسم پر کپڑوں کا یہ بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے؟ صورت شکل سے تو آپ ہماری نوع کے فرد نظر آتے ہیں۔‘‘

یہ اس زمانے کے مرے ہوئے لوگوں کی دنیا (اعراف) ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں ستر پوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔

یہ عظیم الشان شہر جس کی آبادی اربوں کھربوں سے متجاوز ہے، لاکھوں کروڑوں سال سے آباد ہے۔ اس شہر میں گھوم کر لاکھوں سال کی تہذیب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو آگ کے استعمال سے واقف نہیں اور ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو پتھر کے زمانے کے لوگ کہے جاتے ہیں۔ اس عظیم الشان شہر میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جس میں آج کی سائنس سے بہت زیادہ ترقی یافتہ قومیں رہتی ہیں۔ جنہوں نے اس ترقی یافتہ زمانے سے زیادہ طاقتور ہوائی جہاز اور میزائل بنائے تھے۔ امتداد زمانہ نے جن کا نام اڑن کھٹولہ وغیرہ رکھ دیا۔ اس شہر میں ایسی دانشور قوم بھی آباد ہے جس نے ایسے فارمولے ایجاد کر لئے تھے جن سے کشش ثقل ختم ہو جاتی ہے اور ہزاروں ٹن چٹانوں کا وزن کشش ثقل ختم کر کے چند کلو گرام ہو جاتا ہے۔ لاکھوں سال پرانے اس شہرمیں ایسی قومیں بھی محو استراحت یا مبتلائے رنج و آلام ہیں جنہوں نے ٹائم اسپیس کو Lessکر دیا تھا اور زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ آسمان پر فرشتے کیا کر رہے ہیں اور زمین پر کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رخ پھیر دیتے تھے اور طوفانوں کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ اسی ماورائی خطہ میں ایسے قدسی نفس لوگ بھی موجود ہیں جو جنت میں اللہ کے مہمان ہیں اور ایسے شقی بھی جن کا مقدر دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔

یہاں کھیت کھلیان بھی ہیں اور بازار بھی۔ ایسے کھیت کھلیان جن میں کھیتی تو ہو سکتی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ 

ایسے بازار ہیں جن میں دکانیں تو ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں۔

ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں اور دکان میں طرح طرح کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان کچھ نہیں ہے۔ یہ شخص اداس اور پریشان نظر آتا ہے۔

میں نے پوچھا۔ ’’بھائی تمہارا کیا حال ہے؟‘‘

بولا:’’میں اس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے پانچ سو سال بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا ہے۔‘‘ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا۔ منافع خوری اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔

برابر کی دکان میں ایک اور آدمی بیٹھا ہوا ہے ، بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے، چہرے پر وحشت اور گھبراہٹ ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کتاب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو بلند آواز سے عدد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’دو اور دو سات، سات اور دو دس، دس اور دس انیس‘‘۔ اس طرح پوری میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اطمینان ہو جائے۔ اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔ ’’دو اور تین پانچ، پانچ اور پانچ سات، سات اور نو بارہ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں تو میزان غلط ہوتی ہے اور جب دیکھتے ہیں کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے ہیں اور سر کو دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دوبارہ میزان کرنے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ میں نے بڑے میاں سے پوچھا۔

’’جناب! آپ کیا کر رہے ہیں۔ کتنی مدت سے آپ اس پریشانی میں مبتلا ہیں؟‘‘

بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور کہا:

’’میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتا سکتا، چاہتا ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہو گئے ہیں کم بخت یہ میزان صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا، بدمعاملگی میرا شعار تھا۔

علماء سو سے تعلق رکھنے والے ان صاحب سے ملئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑبیر کی جھاڑی۔ چلتے ہیں تو داڑھی کو اکٹھا کر کے کمر کے گرد لپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے میں داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ سوال کرنے پر انہوں نے بتایا۔ ’’دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور داڑھی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب برآری کر لیا کرتا تھا۔‘‘

فرشتے کہتے ہیں:

وہ دیکھئے سامنے بستی سے باہر ایک صاحب زور، زور سے آواز لگا رہے ہیں۔ ’’اے لوگو! آؤ میں تمہیں اللہ کی بات سناتا ہوں۔ اے لوگو! آ ؤاور سنو، اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ ’’کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی ادھر آ نکلتی ہے۔

’’ہاں سناؤ! اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔‘‘

ناصح فوراً کہتا ہے۔ ’’بہت دیر سے پیاسا ہوں مجھے پہلے پانی پلاؤ، فرشتے کھولتے ہوئے پانی کا ایک گلاس منہ کو لگا دیتے ہیں۔ ہونٹ جل کر سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب وہ پانی پینے سے انکار کرتا ہے تو فرشتے یہی ابلتا اور کھولتا ہوا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیتے ہیں۔ فرشتے ہنستے ہیں اور بلند آواز سے کہتے ہیں۔ ’’مردود کہتا تھا۔ آؤ اللہ کی بات سناؤں گا۔ دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطور کاروبار استعمال کرتا تھا۔ یہاں بھی یہی کر رہا ہے۔‘‘ جھلسے اور جلے ہوئے منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکلتی ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔

ٹانگوں میں انگارے:

اس عظیم الشان شہر میں ایک تنگ اور تاریک گلی ہے۔ گلی کے اختتام پر کھیت اور جنگل ہیں۔ یہاں ایک مکان بنا ہوا ہے۔ مکان کیا ہے بس چار دیواری ہے۔ اس مکان پر کسی ربر نما چیز کی جالی دار چھت پڑی ہوئی ہے۔ 

دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس مکان میں صرف عورتیں ہیں، چھت اتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔ ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھی ہیں۔ عجیب اور بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ٹانگوں سے اوپر کا حصہ معمول کے مطابق ہے اور ٹانگیں دس فٹ لمبی ہیں۔

اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ان سے پوچھا۔ ’’محترمہ! آپ کیسی ہیں؟ آپ کی ٹانگیں اتنی لمبی کیوں ہیں؟‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ میں دنیائے فانی میں جب کسی کے گھر جاتی تھی، ایک گھر کی بات دوسرے گھر جا کر سناتی تھی اور خوب لگائی بجھائی کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوئے ہیں۔ ہائے میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھائے۔

غیبت:

کشف القبور کے مراقبہ میں، میں نے دیکھا کہ چہرے پر ڈر اور خوف نمایاں، چھپتے چھپاتے دبے پاؤں یہ شخص ہاتھ میں چھری لئے جا رہا ہے۔ اف خدایا! اس نے سامنے کھڑے ہوئے آدمی کی پشت میں چھری گھونپ دی اور بہتے ہوئے خون کو کتے کی طرح زبان سے چاٹنے لگا۔ تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے ہی خون کی قے ہو گئی۔ نحیف اور نزار زندگی سے بیزار کراہتے ہوئے کہا۔ ’’کاش عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ میں آ جاتی کہ غیبت کا انجام یہ ہوتا ہے۔‘‘

یتیموں کا مال:

شکل و صورت میں انسان ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو۔ قد تقریباً 20فٹ، جسم بے انتہا چوڑا، قد کی لمبائی اور جسم کی چوڑائی کی وجہ سے کسی کمرے یا کسی گھر میں رہنا ناممکن۔ بس ایک کام ہے کہ اضطراری حالت میں مکانوں کی چھت پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھوم رہے ہیں۔ بیٹھ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے۔ ایک جگہ قیام کرنا بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اضطراری کیفیت میں اس چھت سے اُس چھت پر اور اُس چھت سے اس چھت پر مسلسل چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کبھی روتے ہیں اور کبھی بے قرار ہو کر اپنا سر پیٹتے ہیں۔

پوچھا: ’’حضرت یہ کس عمل کی پاداش ہے؟ آپ اس قدر غمگین اور پریشان کیوں ہیں؟‘‘

جواب دیا۔ ’’میں نے دنیا میں یتیموں کا حق غصب کر کے بلڈنگیں بنائی تھیں۔ یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں۔ آج ان کے دروازے میرے اوپر بند ہیں۔ لذیذ اور مرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آگ بھر دی ہے۔ ہوا نے میرے جسم کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ گھر میں رہنے کا تصور میرے لئے انہونی بات بن گئی ہے۔ آہ! آہ! یہ آگ مجھے جلا رہی ہے۔ میں جل رہا ہوں۔ میں بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی تمام راہیں ختم ہو گئی ہیں۔

ملک الموت اور ایک عورت کا مکالمہ:

میں نے مراقبہ موت میں دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چہار دیواری ہے۔ چہار دیواری کے اندر صحن ہے۔ صحن میں ایک گھنا درخت ہے۔ غالباً یہ درخت نیم کا ہے۔ اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا ایک عورت کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں لے   جا سکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ’’ہائے‘‘ کہہ کر زور سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر مارے اور زار و قطار رونے لگی۔

میں آگے بڑھا اور پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ آپ اس عورت کو کیوں پریشان کر رہے ہو۔‘‘ ان صاحب نے کہا۔ ’’مجھے غور سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں؟‘‘

میں نے مراقبہ کیا تو مراقبہ میں دیکھا کہ یہ حضرت ملک الموت ہیں۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے مصافحہ کیا۔ جس وقت میں نے ان سے ہاتھ ملائے تو محسوس ہوا کہ پورے جسم میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ کئی جھٹکے بھی لگے ان جھٹکوں کی وجہ سے میں کئی کئی فٹ اوپر اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔

میں نے پوچھا۔ ’’اس عورت کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟‘‘

حضرت عزرائیل علیہ السلام نے کہا:’’یہ صاحب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ عورت ان کی بیوی ہے اور یہ بھی اللہ کی برگزیدہ بندی ہے۔ دنیا میں ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ لیکن مجھے یہ ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے تو روح قبض کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بیقرار ہے۔ لیکن بیگم صاحبہ کا اصرار ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دوں گی تاوقتیکہ ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد ہو۔‘‘

اس احاطہ میں مٹی اور پھونس کے بنے ہوئے ایک کمرے کے اندر ملک الموت میرا ہاتھ پکڑ کر لے گیا۔ وہاں ایک خوبصورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔ سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہوا ہے۔

کہیں کہیں سے سلائی ادھڑی ہوئی ہے اس میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے۔ لمبا قد اور جسم بھرا ہوا ہے، پیشانی کھلتی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن ہیں۔ پیشانی سے سورج کی طرح شعاعیں نکل رہی ہیں۔

حضرت ملک الموت نے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ ’’السلام علیکم یا عبداللہ!‘‘

میں نے بھی ملک الموت کی تقلید میں: ’’السلام علیکم یا عبداللہ۔ کہا۔‘‘

حضرت عبداللہ (غالباً ان کا نام عبداللہ ہی ہو گا) نے ملک الموت سے پوچھا۔

’’ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟‘‘

ملک الموت نے سر جھکا کر عرض کیا:

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ ’’ملک الموت دو زانو ہو کر ان بزرگ کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ بزرگ خوشی خوشی عاجزی کے ساتھ لیٹ گئے۔ جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس برگزیدہ ہستی کی روح پرواز کر گئی۔ 

فرشتہ آسمان میں اڑ گیا۔ اتنا اونچا، اتنا اونچا کہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے