Topics

سلسلہ عظیمیہ


سلسلہ عظیمیہ جذب اور سلوک دونوں روحانی شعبوں پرمحیط ہے۔ اس سلسلے میں روایتی پیری مریدی اور مخصوص لباس اور کوئی وضع قطع نہیں ہے۔ صرف خلوص کے ساتھ طلب روحانیت کا ذوق اور شوق ہی طالب کو سلسلے کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔ سلسلے میں مریدین کو دوست کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے لئے سخت ریاضتوں، چلوں اور مجاہدوں کے بجائے ذکر و اذکار آسان ہیں۔ تعلیم کا محور غار حرا میں عبادت (مراقبہ) ہے۔ تفکر اور خدمت خلق کو اساس قرار دیا گیا ہے۔

سلسلہ عظیمیہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی منظوری سے 1960ء میں قائم ہوا۔

امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ ۱۸۹۸ء قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر بھارت میں پیدا ہوئے۔ والدین نے محمد عظیم نام رکھا۔ والد گرامی کا نام بدیع الدین مہدی شیر دل اور والدہ ماجدہ کا نام سعیدہ بی بی تھا۔ شاعری میں برخیاؔ     تخلص ہے۔

تاریخ وفات ۲۷ جنوری ۱۹۷۹ء ہے۔ مزار شریف شادمان ٹاؤن نارتھ ناظم آباد کراچی میں مرجع خاص و عام ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطریق اویسیہ حسن اخریٰ کے نام سے مخاطب فرمایا۔ عالم تکوین اور عوام و خواص میں قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ پورا نام حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاءؒ ہے۔

حضرت امام حسن عسکریؒ کے خاندان کے سعید فرزند ہیں۔ مرتبۂ قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان عرش میں قلندر بابا اولیاءؒ کے نام سے مشہور ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نظام تکوین کے اعلیٰ منصب صدروالصدور کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس دنیا اور دوسری لاشمار دنیاؤں میں چار تکوینی شعبے کام کر رہے ہیں۔

۱)قانون

 ۲) علوم

 ۳) اجرام سماوی

 ۴) نظامت

ان شعبوں کے ہیڈ چار ابدال ہوتے ہیں۔ نظامت کے عہدہ پر فائز ابدال حق کو صدر الصدور کہتے ہیں۔ صدر الصدور کو Veto Powerحاصل ہوتی ہے۔ ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ اس وقت صدرالصدور ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندر کا مقام عطا کرتا ہے تو اسے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونے کا اختیار دے دیتا ہے۔ اور تکوینی امور کے تحت سارے ذی حیات اس کے تابع فرمان ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ کے یہ نیک بندے غرض، ریا، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب مخلوق ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ہے تو وہ اس کو سنتے ہیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کیلئے مقرر کیا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس حضرات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعہ بولتے ہیں اور میرے ذریعہ چیزیں پکڑتے ہیں۔‘‘

پہلا مدرسہ:

قلندر بابا اولیاءؒ نے قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی اور بلند شہر میں ہائی اسکول تک پڑھا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔

تربیت:

بابا تاج الدین ناگپوریؒ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے نانا ہیں۔ آپ ۹ سال تک رات دن بابا تاج الدین کی خدمت میں حاضر باش رہے۔

دوران تعلیم ایسا دور بھی آیا کہ قلندر بابا اولیاءؒ جذب و مستی اور عالم استغراق کا غلبہ ہو گیا۔ اکثر اوقات خاموش رہتے اور گاہے گاہے گفتگو بھی بے ربط ہو جایا کرتی تھی لیکن جذب و کیفیت کی یہ مدت زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی۔

روزگار:

سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد کے ادارت و صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح اور ترتیب و تدوین کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی تشریف لے آئے اور اردو ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں کام کرتے رہے۔ کچھ رسالوں کی ادارت کے فرائض انجام دیئے۔ کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے۔

بیعت:
۱۹۵۲ ؁ء میں قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ سے بیعت ہوئے۔ حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ نے رات کو تین بجے سامنے بٹھا کر قلندر باباؒ کی پیشانی پر تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہوا، دوسری پھونک میں عالم ملکوت و جبروت اور تیسری پھونک میں عرش معلیٰ کا مشاہدہ ہوا۔


مقام ولایت:

حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتے میں پوری کر کے خلافت عطا فرما دی۔

اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریؒ کی روح پر فتوح نے قلندر بابا اولیاءؒ کی روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمت و نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز کا علم حاصل ہوا۔

اخلاق:
ابتداء ہی سے آپ کی طبیعت میں سادگی اور شخصیت میں وقار تھا۔ پریشانی میں دل جوئی کرنا، دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور دوسرے کے درد کو اپنا درد سمجھنا اور دوسرے شخص کی توقع سے زیادہ اس کا دکھ بانٹنا آپ کی صفت تھی۔

کشف و کرامات:

حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے بہت ساری کرامات صادر ہوئیں ہیں جو کتاب ’’تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ ‘‘ میں شائع ہوئی ہیں۔

تصنیفات:

قلندر بابا اولیاءؒ نے تین کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔

 علم و عرفان کا سمندر :" رباعیات قلندر بابا اولیاءؒ "

اسرار و  رموز کا خزانہ : " لوح و قلم"

کشف و کرامات اور ماورائی علوم کی توجیہات پرمستند کتاب :’’تذکرہ تاج الدین باباؒ ‘‘ رعبایات میں فرماتے ہیں:

اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا

اک شہر تھا شہر سے ویرانہ ہوا

گردُوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم

میں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا



آدم کا کوئی نقش نہیں ہے بیکار

اس خاک کی تخلیق میں جلوے ہیں ہزار

دستہ جو ہے کوزہ کو اٹھانے کے لئے

یہ ساعدسیمیں سے بناتا ہے کمہار


باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں

پانی میں جو مچھلیاں ہیں سب مٹی ہیں

آنکھوں کا فریب ہے یہ ساری دنیا

پھولوں میں جو تتلیاں ہیں سب مٹی ہیں


آنا ہے ترا عالم روحانی سے

حالت تری بہتر نہیں زندانی سے

واقف نہیں میں وہاں کی حالت سے عظیمؔ

واقف ہوں مگر یہاں کی ویرانی سے

 

حضور قلندر بابا اولیاءؒ اپنی کتاب لوح و قلم کے پہلے صفحہ پر لکھتے ہیں:

’’میں یہ کتاب پیغمبر اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے بطریق اویسیہ ملا ہے۔‘‘

کتاب کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے، اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے دی ہے (یعنی اطلاعات کا سورس اللہ تعالیٰ ہیں) ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں صفر سے ملتی جلتی ہے۔ وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں کہ ان کو ناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علوم روحانی کے لئے ہمیں قرآن حکیم سے رجوع کرنا پڑے گا۔

یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں ان میں سے بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے عالم لاہوت، عالم جبروت، عالم ملکوت اور ارض و سماوات کے نقشے بنا کر دیئے ہیں۔

قلندر بابا اولیاءؒ کی سرپرستی میں روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ دسمبر ۱۹۷۸ ؁ء کو منظر عام پر آیا۔ روحانی ڈائجسٹ کے بیشتر ٹائٹل، جزوی تبدیلی کے ساتھ انہی نقشوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مردم شماری کے حساب سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ بڑا المیہ ہے کہ خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جبکہ خواتین و حضرات کی علمی استعداد اور صلاحیتوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سلسلہ عظیمیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کے پھیلانے میں خواتین کو بھرپور شریک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔

سلسلۂ عظیمیہ کی خدمات:

سلسلہ عظیمیہ کی کاوشوں سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماورائی علوم اور روحانی طرز فکر عام ہو رہی ہے۔ امام سلسلہ عظیمیہ نے عوام و خواص کو بتایا ہے کہ ہر شخص روحانی علوم کو باآسانی سیکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہو جانے کے بعد خواتین و حضرات کی زندگی پرسکون ہو جاتی ہے۔

سلسلہ عظیمیہ کی شب و روز جدوجہد سے پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، ڈنمارک، روس، متحدہ عرب امارات میں ’’مراقبہ ہال‘‘ کے نام سے خانقاہی نظام قائم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو روحانی علوم سے آشنا کرنے کے لئے سلسلہ عظیمیہ نے لائبریریوں کا نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ الیکٹرانک ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر علمی، سائنسی، قرآن کریم اور حدیث شریف کے مطابق روحانی علوم کو آڈیو اور ویڈیو میں ریکارڈ کیا ہے۔

تا کہ سائنسی ترقی کے اس دور میں زیادہ سے زیادہ لوگ مستفیض ہوتے رہیں۔ تقریروں اور تحریروں کے ساتھ ساتھ Print Mediaکو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ خانوادۂ سلسلہ عظیمیہ نے اپنے مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ کے مشن کو پھیلانے، عوام و خواص میں اس کی جڑیں مستحکم کرنے کے لئے پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا ہے۔ رسائل و جرائد اور اخبارات میں مسلسل ۳۲ سال سے روحانی علوم کی اشاعت جاری ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘

الحاد، بت پرستی، شرک اور زمین پر فساد ختم کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔ روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے۔

قرآن کریم کی تصدیق کے مطابق رسالت اور نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہو چکی ہے۔ اللہ کے ارشاد کے مطابق دین کی تکمیل ہو چکی ہے لیکن دین کی تکمیل کے بعد بھی تبلیغ و ارشاد اس لئے ضروری ہے کہ دنیا آباد ہے۔ اور اس آبادی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ دنیا قیامت تک قائم رہے گی۔ نبوت کے فیضان کو جاری رکھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث علماء باطن اولیاء اللہ نے دینی اور روحانی مشن کو تا قیامت لوگوں تک پہنچانے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

اور ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ نوع انسانی قرآنی احکامات کو سمجھ کر اللہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کر لے گی اور دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے گی۔

آج کی دنیا سمٹ کر ایک کمرے کے برابر ہو گئی ہے۔ چھ مہینوں کا سفر ایک دن میں اور دنوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ زمان و مکان کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے۔

سائنسی انکشافات:

بظاہر سائنس کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک کوئی بات Visionنہ بنے اور دلائل کے ساتھ اسے ثابت نہ کیا جائے تو وہ بات قابل قبول نہیں ہے۔

اس سے قطع نظر کہ سائنس کا یہ دعویٰ کتنا غلط اور کتنا صحیح ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ نے کوشش کی ہے کہ ذہنی وسعت کے مطابق سائنسی انکشافات کو سامنے رکھ کر خواتین و حضرات کو ایسی تعلیمات دی جائیں جن تعلیمات سے وہ ظاہری دنیا کے ساتھ ساتھ غیب کی دنیا سے نہ صرف آشنا ہو جائیں بلکہ غیب کی دنیا اور غیب کی دنیا میں آباد مخلوقات کا مشاہدہ بھی کر لیں۔

دینی جدوجہد:

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سلسلۂ عظیمیہ نے درس و تدریس کا نظام ترتیب دیا ہے۔ جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ تین سال پر محیط ہے اور دوسرا حصہ بھی تین سال پر محیط ہے۔

طالبات و طلباء یہ چھ سالہ کورس پڑھ کر وہ Knowledgeحاصل کر لیتے ہیں جس نالج کی بنیاد قرآن کریم، احادیث اور غیب ہے۔ چونکہ ایک سازش کے تحت اور فاسد ذہن رکھنے والے لوگوں کے منصوبوں کے مطابق خانقاہی نظام کو متنازعہ فیہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لئے خانقاہی نظام کو سلسلہ عظیمیہ نے ’’مراقبہ ہال‘‘ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔

۲۰۰۳ء تک دنیا میں ۸۰ مراقبہ ہال قائم ہوئے ہیں۔ ان مراقبہ ہالز میں ایسا ماحول Createکیا جاتا ہے جہاں کی فضا سکون و اطمینان کی لہروں کے ارتعاش پر قائم ہے۔ ذکر و اذکار کی محفلیں ہوتی ہیں۔ مراقبے کئے جاتے ہیں۔ نماز، روزہ اور عبادت و ریاضت میں ذہنی یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ کا Aimاللہ کی مخلوق کی خدمت کر کے اپنی ذات کا عرفان اور عرفان الٰہی حاصل کرنا ہے۔ 



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے