Topics

زمان اور مکان

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور ہم لوگوں کو مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں۔ اور اللہ ہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘

(سورۃ نور۔ آیت نمبر۳۰)

بڑی سے بڑی بات کو تمثیلی انداز میں بیان کیا جائے تو کم لفظوں میں بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ زمان اور مکان کی الجھی ہوئی گتھی کو طالبات اور طلباء آسانی سے سمجھ لیں۔ 

دو مسافر۔۔۔دودوست۔۔۔دو آدمی۔۔۔سڑک پر چل رہے تھے۔

ایک چھوٹے قد کا تھا اور دوسرا بڑے قد کا تھا۔ بظاہر دونوں کی رفتار ایک تھی لیکن چھوٹے قد کے آدمی کا قدم جب اٹھتا تھا تو فاصلہ کم طے ہوتا تھا اور بڑے قد کے آدمی کا قدم زیادہ فاصلے پر پڑتا تھا۔

دونوں چل رہے تھے۔۔۔چلنے میں قدم آگے اٹھتے تھے۔ سڑک پیچھے صف کی طرح تہہ ہو رہی تھی جیسے کوئی اُلٹی صف لپیٹ رہا ہو۔۔۔چلتے چلتے دونوں نے باتیں شروع کر دیں۔ ایک بول چکا تو دوسرے نے اس کی بات کا جواب دیا۔ دوسرا خاموش ہوا تو پہلے نے جواب دیا۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد انہیں سڑک پر ایک تیسرا آدمی چلتا ہوا نظر آیا۔۔۔وہ اکیلا تھا۔ وہ پیچھے سے آنے والے دو آدمیوں کی گفتگو سن کر ان کے ساتھ آ ملا اور بات چیت میں شریک ہو گیا۔

اب دو سے تین دوست۔۔۔تین مسافر۔۔۔تین آدمی ہو گئے۔

یہ آدمی بھی طویل القامت تھا۔۔۔چھوٹے قد کا آدمی بیچ میں آ گیا اور اِدھر اُدھر دو بڑے قد کے آدمی ساتھ ساتھ چلنے لگے۔۔۔چلتے چلتے سڑک پیچھے رہ گئی اور آنکھوں کے سامنے۔۔۔سامنے کی سڑک پھیلتی گئی۔۔۔جب دو قدم اٹھتے تھے۔۔۔تو تیسرے قدم پر سڑک پیچھے رہ جاتی تھی۔۔۔اور آگے قدم اٹھ رہے تھے۔۔۔اس چلنے میں جیسے جیسے اسپیس (Space) یا سڑک کے حصے پیروں کے نیچے سے نکل رہے تھے۔ اسی مناسبت سے گھڑی کی سوئی بھی گردش کر رہی تھی۔ ایک آدمی نے گھڑی دیکھ کر کہا چلتے ہوئے ہمیں بیس منٹ ہو گئے ہیں۔ 

ہم چلتے ہیں تو زمین ہمیں دھکیلتی ہے:

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدموں کے نیچے سے سرکنے والی سڑک جب گزوں میں یا فرلانگ میں پیروں کے نیچے سے نکل گئی تو بیس منٹ کا وقت بھی گزر گیا۔

تینوں میں سے ایک چھوٹے قد کے آدمی نے سوال کیا۔۔۔دوستو! ہم جب سے چلے ہیں سڑک ہمارے پیروں میں سے نکل رہی ہے۔۔۔ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔سڑک پیچھے جا رہی ہے۔۔۔ہم اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سڑک ہمیں آگے دھکیل رہی ہے؟

دوسرا آدمی بولا۔۔۔۔۔۔دوستو! سڑک اگر ہمیں دھکیل رہی ہے تو ہمیں چلتے ہوئے بیس منٹ گزر گئے ہیں یہ بیس منٹ کا وقت کیا ہے؟

تیسرے آدمی نے کہا۔۔۔میں تو یہ سمجھا ہوں کہ ہمارا ایک قدم جب اٹھتا ہے تو دوسرا قدم سڑک پر ہوتا ہے۔۔۔اب جب دوسرا قدم اٹھتا ہے۔ تیسرا قدم سڑک پر ہوتا ہے اور ان دونوں قدموں کے اٹھنے کے درمیان جو کچھ ہے وہ اسپیس (Space) اور دونوں قدموں کے درمیان اگر سیکنڈ کا Frictionبھی گزرا ہے تو وہ ٹائم Timeہے۔

تینوں مسافر چلتے چلتے رُک گئے۔۔۔اور سڑک کے کنارے ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔۔۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ایک مسافر بولا۔

یارو!۔۔۔ہماری نشست قدرتی طور پر ایسی ہے کہ ہم اسے مثلث کہہ سکتے ہیں۔

کیا مثلث بننا اتفاق ہے؟۔۔۔یا اس کے پیچھے کوئی حکمت ہے؟

کوتاہ قد آدمی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔اوپر دیکھو!۔۔۔۔۔۔درخت گول ہے۔

لگتا ہے کہ مثلث ایک گول دائرے یا چھتری کے نیچے ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ چھتری بھی زمین کے اوپر قائم ہے اور ہم تینوں بھی زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب ہم چل رہے تھے تو زمین پیچھے ہٹ رہی تھی۔ اب ہم بیٹھے ہیں زمین اپنی جگہ پر قائم ہے۔۔۔درخت کی گولائی (چھتری) اور ہمارا مثلث میں بیٹھنا کوئی ہم معنی بات ہے؟

تیسرا آدمی گفتگو میں شریک ہوا۔۔۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔۔۔دوستو!۔۔۔درخت کی گولائی ایک تنے پر قائم ہے اور درخت کا تنا زمین پر قائم ہے۔ کیا زمین درخت کے تنے، پتوں اور شاخوں سے بنی ہوئی گول چھتری میں کوئی پیغام ہے؟

ضرور اس میں کوئی حکمت نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔

تینوں مسافر اس مسئلے کو سلجھانے میں اتنے زیادہ منہمک ہو گئے کہ انہیں وقت کا احساس نہیں رہا۔۔۔جب وقت کا احساس ہوا تو ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔ایک مسافر بولا۔۔۔کہ جب ہم سڑک پر چل رہے تھے۔۔۔چونکہ ہمارے قدم اٹھ رہے تھے۔۔۔اس لئے سڑک پیچھے جا رہی تھی۔ ہم آگے جا رہے تھے۔۔۔قدموں کے یکے بعد دیگرے اٹھنے میں اور زمین پر پڑنے میں جب سڑک کافی پیچھے رہ گئی تو ہم نے دیکھا کہ 20منٹ کا وقت گزر چکا ہے لیکن اب ہم بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔۔۔چل نہیں رہے ہیں تو ایک گھنٹے کا وقت کیسے گزر گیا؟۔۔۔کیا وقت کا تعلق چلنے سے یا وقت چلنے کے بغیر بھی گزرتا ہے۔۔۔نمبر تین مسافر جو راستے میں شریک سفر ہوا تھا۔۔۔اس نے کہا۔۔۔بھائیو!۔۔۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم چل رہے تھے جب بھی وقت گزرا اور جب ہم بیٹھ گئے تب بھی وقت گزرا۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت کی حیثیت ثانوی ہے اور Spaceکو اولیت حاصل ہے۔

یہ ایسا گھمبیر اور مشکل تجزیہ تھا کہ دونوں دوست حیران رہ گئے۔۔۔کہ Spaceجب ہو گی تو حرکت ہو نہ ہو وقت گزرے گا۔ Spaceنہیں ہو گی تو وقت نہیں گزرے گا۔

تینوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔

انسان کی پیدائش بھی Spaceمیں ہوئی۔ رحم مادر Spaceہی تو ہے۔۔۔Spaceمیں جب نطفہ قرار پا جاتا ہے تو وقت بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رحم میں نطفہ قرار نہ پائے اور نو مہینے کے بعد ولادت ہو جائے۔۔۔

ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ زمین Spaceنہ ہو اور کوئی بچہ جوان ہو جائے۔۔۔اور کوئی جوان بوڑھا ہو جائے۔۔۔انسان کی زندگی چاہے ساٹھ سال کی ہو چاہے سو سال کی ہو۔۔۔Spaceہو گی تو وقت ہو گا۔ کوئی آدمی Spaceکے بغیر ساٹھ سال کا یا سو سال کا نہیں ہو سکتا۔۔۔Spaceکا پھیلاؤ یا Spaceکا سمٹنا ہی وقت کا تعین ہے۔

آدم کا سراپا:

آدم و حوا سے جب نافرمانی سرزد ہو گئی تو انہوں نے خود کو برہنہ محسوس کیا۔۔۔یعنی انہیں اپنے جسم پر سے کپڑے اترے ہوئے نظر آئے۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم کا سراپا ایک Spaceہے۔ نافرمانی سے پہلے سراپا کے وہ خدوخال جو ستر میں داخل ہوتے ہیں انہیں نظر نہیں آئے اور جیسے ہی نافرمانی ہوئی آدم کے سراپا کی Spaceتبدیل ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم اعلیٰ Spaceسے ادنیٰSpaceمیں آ گئے اگر آدم کا سراپا نہ ہوتا  تو آدم خود کو برہنہ محسوس نہ کرتے۔۔۔

ایک ہزار سال کا ایک دن:

تینوں میں سے ایک صاحب بولے۔۔۔جب بات آدم اور حوا کی ہے تو ہمیں Time&Spaceکا سراغ اگر ملے گا تو آسمانی کتابوں سے ملے گا۔۔۔اس لئے کہ آسمانی کتابوں نے ہی آدم و حوا کا تعارف کرایا ہے۔

نمبر تین مسافر آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہو کر بولا۔۔۔

دن۔۔۔روشنی۔۔۔اور یوم Spaceہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

* میرا ایک دن پچاس ہزار برس کا ہو گا۔

* میرا ایک دن دس ہزار سال کا ہو گا۔

* اور میرا ایک دن ایک ہزار سال کا ہو گا۔

یعنی دن کی طوالت یا دن چھوٹے بڑے ہونے کا تعلق۔۔۔اس کے پھیلنے یا سمٹنے سے ہے۔

ایک رات ۲۳ سال کے برابر:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔‘‘

جب کہ قرآن پاک 23برس میں پورا ہوا۔۔۔مفہوم یہ ہے کہ ایک رات 23سال کے وقت کی مدت کے برابر ہوئی۔ 

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تیس راتوں کے لئے بلایا اور چالیس راتوں تک کوہِ طور پر رکھا۔ یہاں صرف راتوں کی Spaceکا ذکر ہے جب کہ موسیٰ علیہ السلام چالیس دن اور چالیس راتیں کوہِ طور پر رہے۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن، چالیس راتیں رات کے Spaceمیں رہے۔ رات کے Spaceمیں ٹائم پھیل جاتا ہے۔ دن کے Spaceمیں ٹائم سمٹ جاتا ہے۔

DIMENSION:

ایک صاحب بولے۔۔۔اسی مضمون پر میرے ذہن میں دو مثالیں آئی ہیں۔

دونوں مسافروں نے بیک زبان کہا۔۔۔ضرور بیان کرو۔۔۔

اس نے کہا۔۔۔جب ہم اخبار پڑھتے ہیں تو ہم آنکھوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم اخبار کو آواز سے پڑھتے ہیں۔ یعنی ہم آنکھوں کی Spaceکو استعمال کرتے ہیں اور جب اخبار پڑھتے ہیں تو بولنے کی Spaceاستعمال کرتے ہیں۔ اگر اخبار ہم سے کچھ فاصلے پر ہو تو آنکھوں کی Spaceکو اخبار پر کیڑے مکوڑے نظر آئیں گے اور صحیح نہیں پڑھا جائے گا۔ اگر اخبار اور آدمی کا فاصلہ زیادہ ہو جائے تو حروف کی شکلیں غائب ہو جائیں گی اور اگر چھونے کی صلاحیت سے اخبار دور چلا جائے گا جب کہ چھونا بھی اسی وقت ممکن ہے جب Spaceہو تو اخبار پر کوئی حرف نظر نہیں آئے گا۔ اس بات  سے ثابت ہوا کہ ہر شئے کا وجود اور ہر وجود میں ڈائمنشن اور ہر ڈائمنشن کا قیام Spaceپر ہے۔ 

ہم نام کو بھی Spaceہی کہیں گے۔ اس لئے کہ نام Space

کی شناخت ہے۔۔۔Space۔۔۔جسم۔۔۔ڈائمنشن۔۔۔اگر نہیں ہونگے تو نام نہیں رکھا جائے گا۔ مثلاً ہم تین مسافر ہیں۔ 

ہمارے تین نام ہیں۔۔۔میرا نام محمود ہے۔۔۔تمہارا نام زید ہے۔۔۔اور میرے تیسرے بھائی کا نام ایاز ہے۔۔۔یہ تینوں 

نام Spaceکی نشاندہی کرتے ہیں۔

اور یہ Spaceایک سراپا ہیں۔ ہر سراپا میں سوچنے کے لئے دماغ ہے۔ دیکھنے کے لئے آنکھیں۔۔۔سننے کے لئے کان ہیں۔ 

محسوس کرنے کے لئے دل ہے۔۔۔چھونے کے لئے دوران خون کا عمل ہے۔۔۔سونگھنے کے لئے ناک ہے۔۔۔گرمی سردی محسوس کرنے کے لئے جسم میں مسامات ہیں۔۔۔غم زدہ اور خوش ہونے کے لئے ماحول میں انتشار یا اطمینان ہے۔۔۔ماحول۔۔۔زمین کے تابع ہے۔۔۔زمینSpaceہے۔۔۔Spaceچھوٹی یا بڑی ہوتی رہتی ہے۔

پروانہ کی عمر:

ایک پروانہ چھ گھنٹے میں بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے تمام مراحل طے کر لیتا ہے جب کہ وہیل مچھلی پروانے کے چھ گھنٹے میں پورے ہونے والے ماہ و سال ایک ہزار سال میں پورے کرتی ہے۔۔۔پروانے کی پوری زندگی چھ گھنٹے کی ہوتی ہے اور وہیل مچھلی کی زندگی ایک ہزار سال کی ہوتی ہے۔

ایک سانپ بہت بڑے چوہے کو اس لئے نگل لیتا ہے کہ اسے چوہا چھوٹا نظر آتا ہے اگر چوہا اتنا بڑا نظر آئے جتنا بڑا آدمی کو نظر آتا ہے تو سانپ اسے نگلنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ چوہا سانپ کو اتنا بڑا نظر نہیں آتا جتنا بڑا آدمی کو نظر آتا ہے۔

شیر ہاتھی کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے۔ ہاتھی کا ڈیل ڈول شیر کے مقابلے میں بہت بڑا ہے لیکن ہاتھی شیر سے ڈرتا ہے۔ ہاتھی شیر کو دیکھ کر مقابلہ نہیں کرتا۔ ڈر کر بھاگ جاتا ہے۔

اس تجزیہ کے تحت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آدمی جب اعلیٰSpaceسے نکل کر اسفل Spaceمیں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر خوف طاری ہو جاتا ہے اور یہی وہ خوف ہے جو اس کو اعلیٰSpaceمیں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ اگر آدمی اسفل Spaceکو رد کر دے تو از خود اعلیٰ Spaceمیں داخل ہو جاتا ہے اور اعلیٰSpaceمیں داخل ہونا ہی جنت کی زندگی ہے۔ جنت میں خوف اور غم نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور اسپیس کی حد بندی کے بغیر جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔

قرآن کریم کی اس آیت میں یہ حکمت مخفی ہے کہ خوشی اعلیٰ اسپیس ہے اور ناخوشی اسفل Spaceہے۔ اعلیٰ Spaceحاصل کرنے کے لئے پیغمبروں کا بتایا ہوا طریقہ توکل، بھروسہ، قناعت، استغناء ہے۔۔۔توحید اور رسالت پر ایمان ہے۔

مادے سے بنا ہوا گوشت پوست کا جسم ہمیں نظر آتا ہے لیکن گوشت پوست کا جسم کس بساط پر قائم ہے ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اگر مادہ کی شکست و ریخت کو انتہائی حدوں تک پہنچا دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ تمام مخلوقات اور موجودات کی مادی زندگی ایسے ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ فی الحقیقت لہروں کی مخصوص مقداروں کے ایک جگہ جمع ہو جانے سے مختلف مراحل میں مختلف نوعیں بنتی ہیں۔

آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے:

اس فارمولے کو بیان کرنے سے منشا یہ ہے کہ آدمی کی اصل مادہ نہیں ہے بلکہ آدمی کی اصل لہروں کے تانے سے بُنی ہوئی ایک بساط ہے۔ ایک طرف یہ لہریں انسانی جسم کو مادی جسم میں پیش کرتی ہیں اور دوسری طرف یہ لہریں انسان کو روشنیوں کے جسم سے متعارف کراتی ہیں۔ جب تک کوئی آدمی مادے کے اندر قید رہتا ہے۔ اس وقت تک وہ قید و بند اور صعوبت کی زندگی گزارتا ہے۔ 

اور جب وہ اپنی اصل یعنی روشنی کے جسم سے واقف ہو جاتا ہے تو قید و بند، آلام و مصائب، پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔

اصلی آدمی یعنی روشنی کے آدمی سے واقفیت، زمان و مکان (Time&Space) سے آزاد ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جہاں غیبی علوم منکشف ہوتے ہیں اور اللہ کے عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

علم کی تشریح:

علم کا مطلب ہے جاننا۔ یا کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا، زمین و آسمان میں آباد مخلوق میں سے کوئی ایک مخلوق بھی ایسی نہیں ہے جو علم کے دائرے سے باہر ہو۔۔۔ہر مخلوق وائرس ہو، چیونٹی ہو، شہد کی مکھی ہو، ہرن ہو، نقش و نگار سے مزین خوبصورت پروں والا پرندہ ہو، زیبرا ہو، شیر ہو، ہاتھی ہو یا ہزاروں سال پہلے حجم میں ہاتھی سے بھی بڑی مخلوق ڈائیناسار ہو۔۔۔سب کے اوپر علم محیط ہے یعنی سب کو اپنی زندگی گزارنے اپنی خورد و نوش کا سامان حاصل کرنے اور اس سامان سے استفادہ کرنے کا علم حاصل ہے۔

ہم جب شہد کی مکھی کے رہائشی کمرے اور حفاظتی انتظامات دیکھتے ہیں تو ہمیں مکمل ضابطۂ حیات اور بھرپور ایڈمنسٹریشن نظر آتا ہے۔ یہی صورتحال چیونٹی کی بھی ہے۔

مزدور چیونٹیاں:

قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

’’چیونٹیوں کی ملکہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر اپنی رعایا چیونٹیوں سے کہا کہ تم فوراً اپنے بلوں میں گھس جاؤ ورنہ سلیمان ؑ بادشاہ کے گھوڑوں اور پاپیادہ لوگوں کے قدموں کے نیچے آ کر ہلاک ہو جاؤ گی۔‘‘

مزدور چیونٹیاں غلہ جمع کرتی ہیں اور زمین کی تہہ میں بنے ہوئے الگ الگ خانوں میں ذخیرہ کرتی ہیں، مزدور چیونٹی کے اندر اپنے جسم سے دس گنا زیادہ وزن اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے، انجینئر چیونٹیاں اپنی ملکہ کے لئے شاہی محل تیار کرتی ہیں۔ یہ شاہی محل گیلریوں کے ذریعے ہر طرف سے ملا ہوا ہوتا ہے، انجینئر چیونٹیوں کا بنایا ہوا محل قلعہ کی طرح مضبوط ہوتا ہے تا کہ اس کے اوپر پانی کا کوئی اثر نہ ہو۔ اور شدید گرمی بھی اثر انداز نہیں ہوتی یعنی قلعے کے اندر محل، محل کے اندر گیلریاں، سینٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں، چیونٹیوں میں ایک قسم ایسی ہے جو لہروں میں منتقل ہونے کا علم جانتی ہے، جس طرح کسی ٹی وی سٹیشن پر تصویر لہروں میں منتقل ہو کر ٹی وی اسکرین پر نظر آتی ہے۔ اسی طرح چیونٹیاں لہروں میں منتقل ہو کر دور دراز مقامات پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنٹسٹ چیونٹیاں لاکھوں سال پہلے سے روشنیوں میں تحلیل ہونے کا عمل جانتی ہیں۔

پرندے میں عقل و شعور:

قرآن حکیم میں ملکہ سباؔ کا واقع بڑا دلچسپ ہے اور اس واقعہ میں ایک پرندے کے عقل و شعور کا تذکرہ ہے۔ اس طرح زمین کے اوپر موجود ہر مخلوق علم کی دولت سے مالا مال ہے، کسی میں عقل و شعور زیادہ ہے، کسی میں کم ہے لیکن زمین پر موجود تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار مخلوق اور ان مخلوقات میں کھربوں لاکھوں افراد میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو علم نہ جانتا ہو۔

معاشرتی جانور:

کہا جاتا ہے کہ انسان معاشرتی جانور ہے، معاشرتی جانور سے مراد اگر یہ ہے کہ انسان گروہی سسٹم کا پابند ہے یعنی انسان، انسان کے ساتھ رہتا ہے، بات کرتا ہے، نفرت کرتا ہے، محبت کرتا ہے، ایک انسان جو کچھ کھاتا ہے دوسرا بھی وہی نوش جان کرتا ہے تو یہ طرز تکلم دراصل انسان کی انا پرستی ہے، جب کہ ہر انسان یہ دیکھتا اور جانتا ہے کہ بھیڑ بھی معاشرتی جانور ہے، بھیڑ ہمیشہ بھیڑ کے گلہ میں بیٹھتی ہے۔ بکری ہمیشہ اپنے ریوڑ کے ساتھ رہتی ہے، ہاتھی ہاتھی کے ساتھ رہتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہاتھی بھینس کے ساتھ بیٹھا ہو، بھینس اونٹ کے ساتھ بیٹھی ہوئی نظر آئی ہو۔ یہ سب جانور یا حیوانات ایک دوسرے کی خبر گیری رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ انسان چونکہ احساس برتری کا مریض ہے اس لئے اس نے اپنے گروہ کو معاشرتی جانور کے نام سے متعارف کرایا ہے۔

جانور روتے ہیں:

ایک گائے یا ہرن کا بچہ جب مر جاتا ہے گائے اور ہرن آنسوؤں سے روتے ہیں۔ حیوانات کے گروہ میں جب پیدائش ہوتی ہے تو اس گروہ کے افراد خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑتی ہوئی باآسانی نظر آتی ہے، انسان کہتا ہے  انسان کو فضیلت حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں عقل و شعور زیادہ ہے، اگر حیوانات کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو انسان کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے۔

حیوانات میں چھوٹے چھوٹے حشرات الارض کئی معاملات میں انسان سے کہیں زیادہ ذہین، ہوشیار اور عقل مند ہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہے کہ علم کے حصول میں جب تمام حیوانات بشمول انسان (حیوان ناطق) (جب کہ ہر حیوان بھی حیوان ناطق ہے) کس طرح دوسری مخلوق پر افضل و اشرف ہے۔

یقین کا پیٹرن:

علم یقین کا پیٹرن ہے۔ ایسا پیٹرن جس پر زندگی رواں دواں ہے، حیات و ممات قائم ہے، اور جس پر ترقی و ارتقاء موجود ہے۔

یقین کیا ہے؟

یقین وہ مرکزیت ہے جس میں شک اور ابہام نہیں ہوتا۔ دنیا کے کھربوں افراد میں یقین کا پیٹرن موجود ہے کہ پانی پینے سے پیاس بجھتی ہے، پیاس کا تقاضہ نہ ہو تو پانی معدوم ہو جائے گا، پانی سے پیاس اس لئے بجھتی ہے کہ پانی موجود ہے، یقین ایک ایسا عمل ہے جس کے اوپر ظاہر اور باطن متحرک ہیں۔ یقین علم کے بغیر نہیں ہوتا اور علم یقین کی آبیاری میں مکمل کردار ادا کرتا ہے۔

قرآن حکیم میں یقین اور علم کی پوری طرح وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نور فراست سے نوازا تھا۔ ان کے علم نے یقین کا درجہ حاصل کر لیا تھا کہ بت سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ان کے علم نے انہیں بتا دیا تھا کہ بے جان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے پھر یہی مورتیاں عبادت گاہوں میں سجا دی جاتی ہیں۔ جہاں بادشاہ، بادشاہ کے مصاحب، بڑے بڑے عہدے دار اور عوام پتھر سے تراشی ہوئی ان بے جان مورتیوں کو سجدہ کرتے ہیں اور حاجت روائی کے لئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔

پتھر کی مورتیاں:

ایک روز انہوں نے اپنے والد آذر سے پوچھا:

’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے اور نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘

(سورۃ مریم۔ آیت نمبر۴۲)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے جو کچھ جواب میں کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علم نے اس کی نفی کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر علم کے بعد تفکر اور تفکر کے بعد یقین کا پیٹرن متحرک ہوا تو انہوں نے سوچا کہ:

ہر شئے مقررہ  قاعدے اور ضابطے کے تحت خود بخود کیسے متحرک ہے؟

کون ہے جو روزانہ سورج کو طلوع کرتا ہے؟

کون ہے جو دن کے اجالے کو تاریکی میں بدل دیتا ہے؟

کون ہے جو درختوں کی شاخوں میں سے پھل نمودار کرتا ہے؟

بارش کون برساتا ہے؟

لہلہاتی کھیتیاں کون اگاتا ہے؟

کون ہے وہ ہستی جس کی عمل داری میں کائنات کا ہر فرد اپنے کام میں لگا ہوا ہے، آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا اور کبھی کوئی 

اختلاف واقع نہیں ہوتا۔

نتیجہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لکڑی سے بنائے ہوئے بتوں، پتھر سے بنائی ہوئی مورتیوں اور مٹی چونے سے بنائی ہوئی دوسری چیزوں کو خدا ماننے سے انکار کر دیا۔

’’میں اپنا رخ اس طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

(سورۃ انعام۔ آیت نمبر۷۹)

تاروں بھری رات:

تفکر کی راہوں پر چلتے ہوئے تاروں بھری ایک رات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روشن ستارہ دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، جب وہ روشن ستارہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میں چھپ جانے والے کو معبود نہیں مانتا۔ پھر ٹھنڈی میٹھی رو پہلی چاندنی سے بھرپور چاند کو دیکھا جیسے جیسے طلوع آفتاب کا وقت قریب آیا چاند بھی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاند کے رب ہونے کی بھی نفی کر دی۔ طلوع آفتاب کے بعد سورج بھی زوال پذیر ہونے لگا اور اس پر اتنا زوال غالب آیا کہ وہ نظروں سے مخفی ہو گیا۔

تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم اور علم کے نتیجے میں یقین سے کہا:

’’میرا رب وہ ہے جو نہ کبھی چھپتا ہے اور نہ اسے کبھی زوال ہے۔‘‘

بات بادشاہ نمرود تک پہنچی۔ نمرود خود کو ’’رعایا کا رب‘‘ اور مالک سمجھتا تھا، رعایا یا نمرود کو خدا مانتی تھی اور اس کی پرستش کرتی تھی، شاہی دربار میں سجدہ کرنے کا رواج عام تھا، باطل عقائد کی پیروکار اور باطل عقائد کا پرچار کرنے والے مذہبی پیشواؤں، ارباب اقتدار اور عوام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:

’’تم کائنات کے مالک اور مختار کل اللہ کو چھوڑ کر باطل معبودوں کو پوجتے ہو تم شعور کیوں نہیں استعمال کرتے۔‘‘

شعور کا آئینہ:

کوئی بندہ علم تصوف اور روحانیت سے بھٹک جاتا ہے تو اس کے شعور میں ایسی محدودیت پیدا ہو جاتی ہے کہ شعور بوجھل ہو جاتا ہے۔ شعور کے آئینہ پر شک کی دبیز تہہ جم جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے لیکن کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ سنتا ہے لیکن کچھ نہیں سنتا۔ بے مقصد زندگی اس کا نصب العین بن جاتا ہے۔

انسان کے اندر کمپیوٹر:

انسانی دماغ کو سائنس دان قوت اور توانائی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں، اس میں معلومات اکٹھا کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے، سب سے بڑھ کر یہ جمع شدہ معلومات سے اچھوتی اور نئی نئی ایجادات کرتا ہے، لیکن اگر زندگی کی رو نہ آئے تو آدمی لوہے سے بنے ہوئے ایسے روبوٹ کی طرح ہے جس میں کرنٹ نہ ہو۔

جب آدمی زمین پر نہیں تھا تو ایسے مقام پر تھا جہاں اسے ہر چیز بغیر مشقت کے مل جاتی تھی، اسے محنت مشقت کی عادت نہیں تھی، زمین پر آنے کے بعد اسے مشقت بھری زندگی ملی، انسان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ جنت کی زندگی گزارے، جنت کی زندگی کی خواہش نے اسے بے چین کیا ہوا ہے، یہ بے چینی رنگ لائی اور انسان نے خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکے ایسی مشین ایجاد کر لی جس سے کام لے کر وہ مشقت کی زندگی سے بے نیاز ہو جائے، یہ سب تو ہوا مگر آدمی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ خفیہ صلاحیتوں کا مخزن کیا ہے؟ ان صلاحیتوں کو متحرک کرنے کے لئے کرنٹ کہاں سے آتا ہے؟

پہیہ کی ایجاد کے بعد انسان پر سہولتوں کے حصول کی راہ ہموار ہو گئی اور وہ قدم قدم آگے بڑھتے ہوئے کمپیوٹر ایج میں داخل ہو گیا اب انسان اس حقیقت سے واقف ہو گیا ہے کہ کوئی بھی مشین کرنٹ کے بغیر کام نہیں کرتی۔ انسان جب سے دنیا میں آیا ہے وہ جنت کو زمین پر اتار لینے کے لئے کوشاں ہے۔

جیسے جیسے اس نے تفکر کیا، انسان کے اندر نصب شدہ کمپیوٹر اس کی رہنمائی کرتا رہا نتیجہ میں روبوٹ ایجاد ہو گئے، انسان ایک ہی کام کرتے کرتے اکتا جاتا ہے جب کہ روبوٹ دن رات ایک ہی کام کو دہرا سکتا ہے، روبوٹ انسانوں کے مقابلے میں موسمی تغیرات سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی بیشتر فیکٹریوں میں روبوٹ سے کام لیا جا رہا ہے، ویلڈنگ، پینٹنگ، مولڈنگ اور چیزیں اٹھانے اور رکھنے کا کام کرنے والے صنعتی روبوٹ انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں لیکن اگر سوئچ آن نہ کیا جائے تو یہ حرکت نہیں کرتے، ان کی ہر حرکت کو برقی آلات کے ذریعہ ایک بورڈ کنٹرول پینل سے متعین کیا جاتا ہے، سوئچ آف کر دیا جائے تو کنٹرول پینل سے انفارمیشن کی سپلائی منقطع ہو جاتی ہے اور روبوٹ کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

یہی صورتحال انسان کی بھی ہے، انسان کو زندگی اور زندگی کے تقاضوں کے بارے میں اطلاعات فراہم نہ ہوں تو اس کے اندر کرنٹ کی سپلائی بند ہو جاتی ہے۔

زراعت، تعمیرات، نیوکلیئر پلانٹ، انتہائی حساس اور خطرناک شعبوں کے علاوہ خلائی تحقیق میں بھی روبوٹوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے، اعداد و شمار کا ریکارڈ مرتب کرنے والے روبوٹ سے شروع ہونے والی ریسرچ اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ انسانی دماغ میں موجود صلاحیتوں کا حامل روبوٹ بنانے پر کام ہو رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اور جب تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے اور چنگا کرتا ما ں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا مردے میرے حکم سے۔‘‘

(سورۃ المائدہ۔ آیت نمبر۱۱۰)

سینکڑوں ہزاروں سال کی کاوش کے بعد بھی جس مقام پر سائنٹسٹ نہیں پہنچ سکا۔ مسلمان قرآن میں تفکر کر کے وہ مقام حاصل کر سکتا ہے۔

کرنٹ اور جان:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام مٹی سے چڑیا بناتے تھے اور پھر اس میں پھونک مار دیتے تھے اور مٹی سے بنائی ہوئی چڑیا اڑ کر درخت پر جا کر بیٹھتی تھی، مٹی سے بنی ہوئی چڑیا اور لوہے سے بنے ہوئے روبوٹ میں کیا فرق ہے؟

یہ فرق ہے کہ روبوٹ میں بجلی کرنٹ بن رہی ہے اور چڑیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پھونک ’’جان‘‘ بن رہی ہے۔

حق الیقین:

’’وہ جس کا گزر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی، اس نے کہا بھلا اللہ اس کو اس کے فنا ہو چکنے کے بعد کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ نے اس کو سو سال کی موت دے دی، پھر اس کو اٹھایا، پوچھا کتنی مدت اس حال میں رہے؟ بولا ایک دن یا اس دن کا کچھ حصہ۔۔۔فرمایا تو پورے سو سال اس حال میں رہے، اب تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو۔۔۔ان میں سے کوئی چیز سڑی نہیں ہے اور اپنے گدھے کو دیکھو ہم اس کو کس طرح زندہ کرتے ہیں تا کہ تمہیں اٹھائے جانے پر یقین ہو اور تا کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ کس طرح ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، پس جب اس پر حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی وہ پکار اٹھا میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

(سورۃ بقرہ۔ آیت نمبر۲۵۹)

عالم امر کا مظاہرہ دیکھ کر حضرت عزیزؑ پکار اٹھے:

’’تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ 

ایک ساٹھ سال کا آدمی مر گیا اور دل، گردے، دماغ، آنکھیں سب اعضاء موجود ہیں۔ لیکن کوئی عضو کام نہیں کرتا۔ اس نظام میں سب کی حقیقت ایک جیسی ہے۔ چاہے وہ عالم فاضل ہو یا جاہل ہو، غریب ہو یا امیر ہو۔۔۔جب جسم میں پورے اعضاء موجود ہیں تو آدمی حرکت کیوں نہیں کرتا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جسم کے اندر سسٹم فیوز ہو گیا ہے، فضا میں بجلی ہے، آکسیجن ہے، مگر جسم مردہ ہے۔۔۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسان روشنیوں سے چل رہا ہے، روشنی، روشنی کو کھا رہی ہے۔ روشنی، روشنی سے بات کر رہی ہے۔ لوگ ماں باپ اس وقت بنتے ہیں، جب ان کے اندر روشنی ہوتی ہے۔ روشنی ختم ہو جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔

’’اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے، موتی کی طرح چمکدار اور روشن ہے، برکت والے پیڑ زیتون سے جس کا نہ مشرق ہے، نہ مغرب ہے۔ قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اور اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لئے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘

(سورۃ نور۔ آیت نمبر۳۵)

جب انسان قرآن کے بیان کردہ اس فارمولے سے واقف ہو جائے گا تو اسے بھاری بھر کم لوہے کے بنے ہوئے روبوٹ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اسے سوئچ آن آف نہیں کرنا پڑے گا، اس کی سوچ روبوٹ کا کام کرے گی، وہ جو چاہے گا اللہ کے حکم سے ہو جائے گا۔

فلم اور سینما:

پروجیکٹر سے لہریں نکلتی ہیں جو محسوس ہوتی ہیں اور نظر بھی آتی ہیں لیکن ان لہروں کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں کوئی معنی پیدا نہیں ہوتے، سینما میں بیٹھے ہوئے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پشت کی جانب سے روشنیوں، لہروں یا شعاعوں کی ایک دھار چلی آ رہی ہے اور یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکرا رہی ہیں۔ جب یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جاکر ٹکراتی ہیں تو وہاں ہمیں مختلف صورتیں، مختلف شکلیں اور مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔

ہم ان لہروں کو خیال سے تشبیہہ دے سکتے ہیں اور لہروں کے ٹکرانے کے عمل کو علم سے منسوب کر سکتے ہیں۔ پردے یا اسکرین سے لہروں کے ٹکرانے کے بعد جو صورتیں اور جو رنگ جلوہ گر ہوتے ہیں انہیں معنی و مفہوم کہہ سکتے ہیں۔ تجربہ اور مشاہدہ سے ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ خیال جب تک کسی اسکرین پر ٹکرا کر اپنا مظاہرہ نہ کرے اس وقت تک کسی علم میں معنی اور مفہوم پیدا نہیں ہوتے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے