Topics

قرآنی نظریہ

عربوں سے پہلے یورپ، امریکہ، مصر اور ایشیائی ممالک چین، ہندوستان اور جاپان وغیرہ میں سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ البتہ یونان میں کسی قدر علم موجود تھا۔ علمی تحقیقات اور نئی نئی ایجادات کی طرف رغبت پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ قرآن پاک کے نازل ہونے کے بعد سرزمین عرب جب علم کی روشنی سے منور ہوئی اس وقت مغربی ممالک میں تہذیب و تمدن کا کوئی نشان نہ تھا۔ روس کے لوگ انسانی کھوپڑیوں میں پانی پیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمان صحرا نشینوں کی زندگی بدل دی۔

قرآن کے علم اور قرآن کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چل کر پچاس سال کی مختصر مدت میں مسلمانوں نے آدھے سے زیادہ دنیا فتح کر لی۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں مسلمانوں کے قدموں پر جھک گئیں۔ قرآنی آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے آراستہ کر دیا۔

یونیورسٹیاں:

قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاں یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔

 پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ امت مسلمہ قرآنی تحقیق و تفکر (تصوف) سے دور ہو گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے قرآن کے انوار و حکمت سے خود ساختہ دوری قبول کر لی۔ مسلمانوں نے تفکر کرنا چھوڑ دیا پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم کے ذریعہ معاشی، معاشرتی اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔

تسخیر کائنات جو قرآن کا پورا اور مکمل تیسرا علم ہے اس کی طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالم اسلام اس شعور سے محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے قرآن نے عطا کیا تھا اور جب کوئی قوم تفکر، تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور علیٰ نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے اور قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

روحانیت کے خلاف سازش:

دنیا کے دوسرے معاملات کی طرح منافق اور سازشی لوگوں نے روحانی سلسلوں میں بھی اپنا عمل دخل جاری رکھا اور لوگوں کی توجہ کشف و کرامات کی طرف مبذول کر دی۔ اس طرز فکر کو کچھ اس طرح آگے بڑھایا گیا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ روحانیت کا مطلب کشف و کرامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسری بات جو حقیقت کے برخلاف بیان کی گئی وہ یہ تھی کہ تسخیر کائنات یا روحانی علوم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا بیزار ہو کر جنگل میں جا بیٹھے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان قوم ریسرچ سے محروم ہو گئی اور غیر مسلم اقوام نے علم کائنات میں ترقی کر لی۔ آج کے دور میں ہر آدمی یہ بات جانتا ہے کہ سو سال پہلے جو باتیں کرامات کے زمرے میں بیان کی جاتی تھیں وہ سائنسی نظام کے تحت عام ہو گئی ہیں۔ اب یہ کہنا کہ فلاں بزرگ کو پانچ جگہ یا سات جگہ دیکھا گیا تھا ایک بہت کم وزن بات معلوم ہوتی ہے۔

قرآن کی تعلیمات کو اگر مادی شعور کے دائرے میں رہ کر سمجھا جائے تو قرآن کے معنی اور مفہوم میں شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء کرام قرآنی جیسی عظیم الشان اور لاریب کتاب کے بارے میں اپنے قائم کردہ مفہوم پر متفق نہیں ہیں۔ ہر تفسیر نئے اسلوب اور نئی شرح کی دستاویز ہے۔ قرآن کے الفاظ اس لئے محفوظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔



Ahsan o Tasawuf

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے