Topics

باب نمبر۳:افادیت اور خواص

افادیت اور خواص

سورج کی روشنی کے اثرات

جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان روشنی سے متاثر ہوتے ہیں۔ روشنی رنگوں پر قائم ہے۔ ہر مادے سے ایک خاص قسم کی لہریں خارج ہوتی ہیں۔ جب کسی دھات کو دھوپ میں رکھتے ہیں تو اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ کسی دھات پر جلد اثر ہوتا ہے تو کچھ دھاتیں دیر سے اثر قبول کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد سونے (Gold) کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

ہر جاندار کی جان روشنی کے غلاف میں بند ہے۔ روشنی ہماری صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

سورج کی روشنی شعور سے ٹکرا کر سات رنگوں میں بکھر جاتی ہے۔ ہر شخص اپنی افتاد طبیعت کے مطابق رنگوں کو تخریب یا تعمیر میں استعمال کرتا ہے۔ تخریب میں استعمال کرنے سے روشنی میں ایسا زہر پیدا ہو جاتا ہے۔ جو تعمیر کے لئے دیوار بن جاتا ہے اور حیات بخش اثرات تباہ ہو جاتے ہیں۔ سرخ رنگ اور اس سے ملتے جلتے قریب کے رنگ ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ نیلا اور اس سے ملتے جلتے رنگ مسکن ہیں۔ ہر رنگ کے کئی شیڈز (Shades) ہوتے ہیں جو مختلف تموج (Wave Lenghts)سے پیدا ہوتے ہیں۔ روشنی کے زیر اثر کیمیاوی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر روشنی کی ماہیت میں تبدیلی ہو جائے تو کیفیت میں بھی تبدیلی ہو جاتی ہے۔

انسانی تاریخ میں دریافت ہونے والے علاجوں میں رنگوں کے علاج سے شفایابی کا تناسب زیادہ ہے۔ اس علاج سے مریض کے اوپر بار بھی کم پڑتا ہے۔ آپریشن کرنا اگر ناگزیر ہے تو آپریشن سے پہلے یا آپریشن کے بعد رنگوں کے استعمال سے آپریشن میں نمایاں کامیابی ہوتی ہے۔ دل کے امراض دمہ موسمی بخار نمونیہ آشوب چشم اور آنکھوں کے دیگر امراض میں رنگین طریقۂ علاج بہترین ہے۔

منہ بند پھوڑوں (Carbuncles) کا علاج دوسرے طریقوں کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہے۔

ایک عورت جس کا کاربنکل سر کے پچھلے حصہ سے گردن کے نیچے کمر تک پھیلا ہوا تھا۔ دس بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہی۔ مایوس ہو کر اس نے رنگ سے علاج شروع کیا مسکن ادویات کی ضرورت نہیں رہی اور چند ہفتوں میں وہ بالکل ٹھیک ہو گئی۔

جلنے کی صورت میں رنگوں سے علاج ہر معالج کو تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ جلے ہوئے عضو میں سوزش بیس سے تیس منٹ میں ختم ہو جاتی ہے۔

اندھیرے میں رہنے اور کام کرنے والوں میں خون کے سرخ ذرات کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور سورج کی روشنی میں کام کرنے والوں میں یہ ذرات بڑھ جاتے ہیں۔ سال کے تین مہینوں میں سورج کی روشنی کم ہوتی ہے۔ ان میں میعادی بخار انفلوائنزا اور سینہ کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔ سورج کی روشنی میں شامل رنگوں کا اثر عام صحت پر عجیب و غریب ہوتا ہے۔ درد بخار اور ٹھنڈ لگنے کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ ہیموگلوبن (Haemoglobin) اور سرخ ذرات کی تعداد بڑھ جاتی ہے، خون صحت مند ہو جاتا ہے۔ سورج کی روشنی جسم میں سرایت کر کے جراثیم کو مارتی ہے اور درد کو آرام پہنچاتی ہے۔ وٹامن ڈی (Vitamin-D) بنانے میں مدد دیتی ہے جو خون میں کیلشیم کی مقدار کو متوازن رکھتی ہے اور اس طرح بچوں اور بڑوں میں ہڈیوں کی بیماریوں کی روک تھام کرتی ہے۔ سورج کی روشنی زخموں کے مواد کو خارج کرتی ہے جسم میں جذب ہو کر اس کو قدرتی ذرائع سے خارج کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی عمل جوڑوں، پھیپھڑوں اور پیٹ کے جوف میں پانی زیادہ ہونے کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔

سورج کی روشنی قلب اور اعضائے رئیسہ کو تقویت پہنچاتی ہے۔ جسم کی حرارت میں اضافہ کرتی ہے، پسینہ زیادہ آتا ہے اور جسم کی کثافت خارج ہو جاتی ہے۔ سورج کی روشنی اعصابی نظام کو بہتر بنا کر بھوک بڑھاتی ہے۔ ذہنی صلاحیت بہتر کرتی ہے اور اچھی نیند کی ضامن ہے۔

تپ دق کا علاج بھی سورج کی شعاعوں سے ہوتا ہے۔ پہلے روز مریض کے صرف دونوں پیر پانچ منٹ تک دھوپ میں کھلے رکھے جاتے ہیں۔ یہ عمل دن میں دو یا تین بار دہرایا جاتا ہے۔ دوسرے روز دس منٹ پھر ٹانگیں یہاں تک کہ پورا جسم دن بھر میں تین سے چھ گھنٹے تک دھوپ میں کھلا رکھا جاتا ہے۔

ہر چیز کی زیادتی چاہے وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو خرابی پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ سورج کی روشنی کی افادیت بھی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک جسم فرحت اور قوت محسوس کرتا ہے۔

شمسی توانائی میں بالائے بنفشی عنصر ان مقامات میں زیادہ ہوتا ہے جہاں سورج کی روشنی براہ راست زمین پر پہنچے۔ سورج کی روشنی جب زمین تک پہنچتی ہے تو زمین کے ارد گرد اوزون کا غلاف (Ozone Layer) بالائے بنفشی لہروں کو منعکس کر کے ان کو زمین تک پہنچنے سے روک دیتا ہے۔ اوزون کا غلاف اگر ٹھیک ہے تو زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں شامل بالائے بنفشی لہروں میں اعتدال رہتا ہے۔

بالائے بنفشی لہروں کا انعکاس جسم پر زیادہ ہو جائے تو کینسر ہو جاتا ہے۔ بالائے بنفشی لہروں اور انفراریڈ لہروں کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ ایکس ریز اور گاما ریز کا شمار بھی انہی لہروں میں ہوتا ہے جن کو بہت زیادہ احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایکس ریز کے زیادہ استعمال سے ہڈیوں کے اندر سرخ گودا متاثر ہو جاتا ہے، ہڈیاں بھربھری ہو جاتی ہیں۔ ایکس ریز کے زیادہ استعمال سے خون کا کینسر (Leukemia) ہو سکتا ہے۔ ایکس ریز لہروں کی زیادہ مقدار جلد کے نیچے عضلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں یہاں تک کہ زخم بن جاتے ہیں۔ ان زخموں کو بالائے بنفشی لہروں سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

ٹی وی خاص طور پر رنگین ٹی وی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس سے تابکاری (Radio Activity) کا اخراج ہوتا ہے۔ ٹیلی ویژن کم قوت کی ایکسرے مشین کی طرح ہے۔ رنگین ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں سے زیادہ طاقت کی لہریں خارج ہوتی ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ٹی وی اسکرین جتنے انچ ہے، اتنے ہی فٹ فاصلے سے ٹی وی دیکھنا چاہئے۔

قدرتی روشنی بمقابلہ مصنوعی روشنی

سائنسی تحقیق سے یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ نام نہاد ٹھنڈی سفید فلوریسنٹ ٹیوب لائٹ کی گلابی مائل روشنی میں نر پودے تو خوب بڑھے لیکن مادہ پودے مرجھا گئے۔ اس کے برخلاف دن کے مانند سفید بلب نے جو نیلگوں روشنی خارج کرتے ہیں مادہ پودوں کو تو خوب بڑھایا لیکن نر پودوں کو نقصان پہنچایا۔

پودوں کی افزائش بلب کی روشنی میں جاری تو رہتی ہے لیکن پھول اتنی جلدی نہیں نکلتے جتنی قدرتی روشنی میں نکلتے ہیں۔

وہ جانور جو ٹیوب لائٹ میں رکھے گئے ان پر بھی پودوں کی طرح ردعمل ہوا۔ انہیں قدرتی ماحول میں رکھا گیا تو ان کے بچوں میں نر اور مادہ کی تعداد برابر تھی۔ جن جانوروں کو گلابی روشنی میں رکھا گیا پودوں کی طرح سب کے سب نر تھے لیکن نیلگوں روشنی میں رہنے والے جانوروں کے بچے سارے کے سارے مادہ تھے۔

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے زندگی قدرتی روشنی میں پھل پھول رہی ہے۔ سورج کی روشنی سے جسم میں وٹامن ڈی بننے کا عمل جاری ہے۔ روشنی آنکھوں میں داخل ہو کر دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔

پولٹری انڈسٹری والے جانتے ہیں کہ روشنی جو چوزوں کی آنکھوں کے ذریعہ سے ان کے بلغمی غدود (Pitutary Gland) کو تحریک دیتی ہے، سے انڈوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی کام کی بات ہے۔ یہ غدود نہ صرف چوزوں میں بلکہ دوسرے جانوروں اور انسانوں میں بھی ایسا مرکزی کردار ادا کرتا ہے جو جسم کے غدودی نظام میں توازن برقرا رکھتا ہے۔

بڑھاپے میں جسم کے اندر عروق خارج کرنے والے غدود عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ غدود جو بڑھاپے سے متاثر ہوتے ہیں تھائی رائیڈ غدود بلغمی غدود ایڈرنیل غدود اور جنسی غدود ہیں۔ یہ تمام غدود بالائے بنفشی لہروں اور سورج کی روشنی سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

جو اشخاص اس قسم کا علاج کروا چکے ہیں وہ بے شمار فوائد گنواتے ہیں۔ موٹے لوگوں کا موٹاپا ختم ہو گیا اور دبلے پتلے لوگ موٹے ہو گئے۔

سردی کے زمانہ میں روشنی ترچھی پڑتی ہے چنانچہ اس میں زیادہ قوت اور طاقت نہیں ہوتی۔ صرف جاڑے کے زمانے میں ہی روشنی کی قلت نہیں ہوتی بلکہ نوے فیصد (90%) لوگ جو دفتروں کارخانوں میں زندگی گزارتے ہیں وہ بھی روشنی کی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔

زندگی روشنی سے شروع ہوتی ہے، روشنی ہی زندگی کو برقرار رکھتی ہے اور روشنی پر ہی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ روشنی اور رنگوں کا توازن برقرار رہے۔


Color Theraphy

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت لقمان علیہ السلام کے نام

جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی 

 

وَ لَقَدْ اٰ تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ

(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)

اور ہم نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔

اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo 

اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo 

تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo

نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo

(القرآن)