Topics
جہاں تک مادی وسائل آسائش
اور مادی آرام کا تعلق ہے وہ سکون فراہم نہیں کرتی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ
مادیت آدمی کو سکون فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ۵۰ سال پہلے کے لوگوں کے
پاس مادی وسائل کم تھے لیکن انہیں ہم سے زیادہ سکون حاصل تھا۔ آج کے دور میں مادی
وسائل ہونے کے باوجود ہمیں وہ سکون حاصل نہیں ہے۔ گھر میں ہر چیز موجود ہے، بچے
بھی موجود ہیں، گھر بھی موجود ہے، ٹی وی بھی موجود ہے، گاڑی بھی موجود ہے اور چار
پیسے بھی ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جس گھر میں زیادہ وسائل ہیں وہاں زیادہ
بے سکونی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا تعلق اس بات سے ہے کہ
وہ دنیاوی کاموں میں اور دنیاوی چیزوں میں دلچسپی لیتا لے لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ
جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کی دلچسپی ہر چیز سے ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت سے آدمی
شعوری اعتبار سے کمزور ہو جائے یا باؤلہ ہو جائے تو اس کی بھی دلچسپی کم ہو جاتی
ہے ۔ وہ لوگ جو (Active) نہیں ہوتے منجمد ہوتے ہیں ان کی بھی دنیاوی دلچسپی کم ہوتی ہے۔
قانون دنیا نام ہی دلچسپی کا ہے۔ جب تک آدمی دنیا میں دلچسپی نہیں لیتا، دنیا اس
کے لئے بے کار ہے۔ اب جب تک ہم دنیا میں دلچسپی لیتے ہیں تو اس میں ہماری مصروفیت
بھی زیر بحث آتی ہے۔ جب ہماری مصروفیت زیر بحث آتی ہے تو لامحالہ ہمیں یہ کہنا پڑے
گا کہ ہماری انرجی کچھ نہ کچھ مصروفیت میں خرچ ہوتی ہے مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر
گھر کے آدمی جب مصروف ہوتے ہیں تو ان کے اوپر عجیب قسم کی تھکان ہو جاتی ہے۔ آپ
محنت مزدوری کریں اس میں بھی جسم تھک جاتا ہے چاہے وہ کرسی پر بیٹھ کر محنت مزدوری
ہو، چاہے وہ زمین کھودنے کی مزدوری ہو، چاہے وہ چٹائی بننے کی مزدوری ہو لیکن جب
آپ کسی کام میں دلچسپی لیں گے اور آپ کا جسم حرکت کرے گا۔ بالفاظ دیگر آپ کی انرجی
خرچ ہو گی تو آپ تھکیں گے بھی۔ ذہنی تھکان دور کرنے کا جو ہمارے پاس موثر طریقہ ہے
وہ سونا ہے یا آرام کرنا ہے۔ یکسوئی کے ساتھ لیٹ جائیں، سو جائیں۔ ایک آدمی بہت
زیادہ تھکا ہوا ہے جب وہ سو کر اٹھے گا تو تھکا ہوا نہیں ہو گا۔ انرجی بحال ہو
جاتی ہے یا یہ سمجھ لیں کہ سونے سے بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔ اب یہ طے ہوا کہ جب ہم
دنیا میں کوئی بھی دلچسپی لیتے ہیں یا دنیا کا کوئی بھی کام کرتے ہیں تو ہماری
انرجی خرچ ہوتی ہے یا ہماری طاقت خرچ ہوتی ہے ۔ اس طاقت کو سائنسدان کیلوریز کہتے
ہیں جو انسان کے اندر بنتی ہیں۔ کھانے کی طاقت سے اور پانی پینے سے آکسیجن سے فضا
سے کسی بھی صورت سے، بہرحال انسان کے اندر کیلوریز بنتی ہیں اور جیسے آپ محنت کرتے
ہیں کیلوریز جلتی ہیں یا خرچ ہوتی ہیں اور جتنی زیادہ جلتی ہیں اسی حساب سے آدمی
تھکتا ہے اور کمزور بھی ہوتا ہے۔
مثال: ایک کمرہ ہے اس
کمرے میں ایک چارپائی ہے۔ اس چارپائی پر صاف ستھرا بستر ہے۔ اس کے علاوہ کمرے میں
کچھ نہیں ہے۔ جب آپ کمرہ میں آرام کے لئے جائیں گے تو آپ کے ذہن میں یہی خیال آئے
گا کہ بستر اور تکیہ آرام کے لئے ہے مجھے آرام کر لینا چاہئے۔ مقصد یہ ہوا کہ آپ
کی جو کیلوریز خرچ ہوں گی وہ ایک بسترے، تکیہ اور چارپائی تک محدود رہیں گی۔ یعنی
تین چیزوں کا عکس جب آپ کے دماغ میں داخل ہوا اور دماغ نے اس کے نقوش ابھار کر آپ
کو یہ بتا دیا کہ یہ بستر ہے تو آپ کی انرجی خرچ ہوئی۔
مثلاً ایک چیز کے لئے ایک
کیلوری خرچ ہوئی تو ایک بسترہ، ایک تکیہ، ایک چارپائی اور ایک کمرہ کے لئے چار
کیلوریز خرچ ہوئیں۔
اب اسی کمرے میں ٹی وی
رکھ دیجئے۔ ٹی وی کا مطلب یہ کہ پانچ کیلوریز خرچ ہوئیں۔ اب ٹی وی پروگرام دیکھنا
شروع کر دیجئے۔
اس کا مطلب یہ کہ ٹی وی
کے اندر جتنی بھی تصویریں آئیں گی درخت، پانی، آدمی، گانا بجانا تو ۵۰ چیزوں کا عکس جب آپ کے
دماغ کے اندر گیا اور اس عکس کو دماغ نے قبول کر کے آپ کو یہ بتایا کہ یہ درخت ہے،
پانی ہے، یہ آدمی ہے، یہ گاتا ہے، یہ بجاتا ہے۔ یہ رنگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ
پچاس کیلوریز خرچ ہوئیں یعنی اس کمرے میں جو آپ کے آرام کے لئے آپ نے بنایا۔ اب
جہاں چار کیلوریز خرچ ہونی چاہئے تھیں وہاں ۵۴ کیلوریز خرچ ہوئیں۔ اس
کے بعد وہاں آپ نے ریڈیو بھی رکھ لیا۔ ریڈیو آپ نے چلایا نہیں تو ۵۴ کے بجائے ۵۵ کیلوریز خرچ ہوئیں۔
کمرہ میں آپ نے الماری
بھی سجا دی ہے۔ الماری میں بھی بیس چیزیں رکھیں ہیں مثلاً گڑیا رکھی ہے، کتاب رکھی
ہے، پھولدان رکھا ہے، ایش ٹرے رکھی ہے۔ کچھ بھی رکھا ہے۔ ۲۰ چیزیں رکھی ہیں۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ جب ۲۰
چیزیں آپ کے دماغ میں نقش ہوئیں اس ہی مناسبت سے کیلوریز خرچ ہوئیں۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ ۲۰+۵۵=۷۵
کیلوریز خرچ ہوئیں۔ اس کے بعد فرض کیجئے کہ آپ نے کپڑوں کی الماری کے ساتھ کرسی
بھی رکھی ہوئی ہے تو اس طرح ایک سیکنڈ میں جہاں ۵ کیلوریز خرچ ہونی چاہئے
وہاں ۶۰،۷۰،۸۰
کیلوریز جل گئیں۔ وہ کیلوریز جو ہیں دراصل وہ انرجی ہیں۔ آدمی کے اندر قوت حیات
ہیں وہی آپ کو زندگی عطا کر رہی ہیں۔ اسی بنیاد پر آپ کی زندگی چل رہی ہے۔ جتنی
مادی اشیاء آپ کے ارد گرد جمع ہو جائیں گی اسی مناسبت سے آپ کے اندر کیلوریز زیادہ
جلیں گی اور خرچ ہوں گی۔ جب آپ کا دماغ تھکے گا۔ دماغ تھکنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ
کا دل بھی تھکا۔ ہاتھ بھی تھکے۔ پیر بھی تھکے۔ پوری باڈی جو جسم کا نظام ہے تھک
گیا۔ وہ ڈسٹرب(Disturb)
ہو گیا تو مادی وسائل جتنے آپ اکٹھے کرتے چلے جائیں گے اسی مناسبت سے آپ کے اندر
سے کیلوریز کا ذخیرہ یعنی قوت حیات جل جائیں گی۔ جب آدمی کے اندر سے اس کی قوت
حیات ہی نکل گئی تو سکون کہاں، کیسے ملے گا۔
حضور پاکﷺ (اللہ تعالیٰ
ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے) اگر ہم آپﷺ کی زندگی پر غور
کرتے ہیں تو مکے میں ۴۰۰
سال پہلے نہ ریڈیو ہے، نہ ٹی وی، نہ موٹر سائیکل ہے، نہ جہاز ہے،نہ دھواں ہے، کوئی
چیز ایسی نہیں ہے جو ذہن کو منتشر(Disturb) کرنے والی ہو۔اگر ہے تو اونٹ ہے، اونٹ جب چلتا ہے تو اس کے پیر
کی بھی کوئی آواز نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود مکے کے شہر کا شور، مکے کے شہر کی
روشنی، مکے کے شہر میں اونٹوں کے گلے میں پڑی ہوئی گھنٹیوں کی آواز نے حضور پاکﷺ
کو اس طرف متوجہ کیا کہ مکہ چھوڑ کر میلوں دور غار حرا میں تشریف لے گئے۔ حضور
پاکﷺ غار حرا میں کیوں تشریف لے گئے۔ غار حرا میں نہ کوئی چارپائی تھی یعنی مادی
وسیلہ سے بنی ہوئی کوئی بھی آسائش کا سامان غار حرا میں موجود نہیں تھا۔
سچی بات ہے کہ حضور پاکﷺ
اس اصول سے واقف تھے (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر دین کی تکمیل کرنی تھی) کہ
ڈسٹربنس(Disturbance)
انسان کو سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ جتنا آدمی شور شرابے میں رہے گا اتنا ہی بے
سکون رہے گا۔ اتنا ہی زیادہ بیزار رہے گا۔ یہی بات آج کی سائنس کہتی ہے۔
آج کی مثال! گاؤں والوں
کی صحت اور شہر والوں کی صحت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ گاؤں والے جو اندرون ملک
گاؤں، گوٹھوں میں رہتے ہیں ان کی صحت شہریوں سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں
پر چشمے کم لگتے ہیں۔ شہر میں رہنے والے بچوں کے کم عمر میں چشمے لگ جاتے ہیں۔ بات
کیا ہے؟ وہاں ڈسٹربنس(Disturbance) نہیں ہے۔ شور نہیں ہے ، کیلوریز کا ذخیرہ زیادہ رہتا ہے۔ حضور
پاکﷺ غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ آپﷺ وہاں غور و فکر کرتے تھے۔ بڑی عجیب بات
یہ بھی ہے کہ جہاں ڈسٹربنس(Disturbance) ہوتا ہے، جہاں مادیت کا غلبہ ہوتا ہے، جہاں مادیت انسان کو بیزار
اور پریشان کرتی ہے وہاں سکون نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت ہے اور تھی کہ
توریت شہر میں نازل فرما دیتے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر ۴۰ دن ۴۰ رات قیام کیا۔ کوہ طور
پر بھی کوئی آرام و آسائش کا سامان نہیں تھا۔ ایک پہاڑی ایک عصا تھا، ایک حضرت
موسیٰ علیہ السلام تھے۔ انسانی شعور مادیت میں جتنا زیادہ انہماک کرے گا اسی
مناسبت سے انسان اپنی روح سے دور ہو جائے گا اور جتنا انسان اپنی روح سے دور ہو
جائے گا۔ اسی مناسبت سے انسان بے سکون ہو جائے گا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہماری
پریشانی یہ ہے کہ ہم بے سکون ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مادیت کو ہی سب
کچھ سمجھ لیا ہے۔ مادیت کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے وہ
یہ ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم دنیا کے لئے پیدا کیے گئے ہیں۔
دنیا ہمارے لئے پیدا نہیں کی گئی۔ یعنی ہم دنیا کو نہیں کھا رہے ہیں، دنیا ہمیں
کھا رہی ہے۔ اس لیے کہ ہم نے دنیا کو اپنے اوپر افضل قرار دے دیا ہے۔ جب آپ نے
دنیا کو خود سے افضل قرار دے دیا تو اپنی حیثیت کم کر دی۔ اب آپ کبھی پرسکون نہیں
رہ سکتے۔ صحیح بات یہ ہے کہ دنیا کے لئے ہم نہیں بنائے گئے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ
نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ کیا کوئی ایک بندہ بھی یہ بتا سکتا ہے کہ اس کے پیدا ہونے
کے بعد دنیا بنی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو دنیا کی ہر چیز موجود ہوتی ہے یا بعد
میں پیدا ہوتی ہے؟ آپ کے ابا پیدا ہوئے، آپ کے دادا پیدا ہوئے، پڑدادا پیدا ہوئے،
کوئی ایک آدمی تو ایسا بتا دیں(آدم سے لے کر اب تک) کہ جب وہ پیدا ہوا تو اس کے
بعد دنیا پیدا ہوئی، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے انسان کی خدمت
گزاری کے لئے دنیا پیدا کر دی ہے۔ دنیا ہماری خادم ہے، ہم دنیا کے خادم بن گئے
ہیں۔ معاملہ بالکل الٹ گیا ہے یعنی ہماری زندگی فطرت کے خلاف ہو گئی ہے۔ اور جب
فطرت کے خلاف زندہ رہنا چاہیں گے تو کبھی آپ کو سکون نہیں ملے گا۔ خود اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
’’اطمینان قلب، اللہ
تعالیٰ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
مخلوق اور خالق کے درمیان
ایک رابطہ اور تعلق ہے۔ اس تعلق کو قائم کرنے سے آدمی کو اطمینان قلب حاصل ہوتا
ہے۔ ایک روحانی آدمی اور ایک غیر روحانی آدمی میں یہی فرق ہے۔ غیر روحانی آدمی
دانستہ، نادانستہ یہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ حالانکہ یہ
بات صحیح نہیں ہے بچہ نو(۹) ماہ
ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد ۲ یا ۲/۱/۲سال تک ماں باپ کے
دل میں اللہ تعالیٰ شفقت، محبت اور ممتا ڈال کر بچہ کی نشوونما کراتا ہے، سترہ
اٹھارہ سال تک ماں باپ یا بڑے بھائی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب انسان اٹھارہ انیس سال
کا ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں دنیا کے لئے بنایا گیا ہوں۔ جب ہم فطرت کے اصولوں
کے خلاف بات کریں گے، زندگی گزاریں گے تو ہمیں کسی سمت سے سکون میسر نہیں آ سکتا۔
سکون حاصل کرنے کے لئے
نیلی روشنی کا مراقبہ نہایت مفید عمل ہے اس مراقبہ سے ول پاؤر(Will
Power) میں اضافہ ہو جاتا ہے اور استاد کی نگرانی
میں مسلسل مراقبہ کرنے سے دماغ میں یقین کا پیٹرن کھل جاتا ہے۔ نیلی روشنی کا
مراقبہ کرنے والا بندہ کاروباری خاندانی معاملات اور مستقبل کے بارے میں صحیح
فیصلے کرتا ہے۔
آنکھیں بند کر کے یہ تصور کیا جائے کہ میں آسمان کے نیچے بیٹھا ہوں اور آسمان سے نیلی روشنی نازل ہو کر میرے دماغ میں جمع ہو رہی ہے۔
۱۰۰
بار درود شریف اور ۱۰۰
بار یا حی یا قیوم پڑھ کر بند آنکھوں سے یہ تصور کیا جائے۔’’میں اللہ تعالیٰ کو
دیکھ رہا ہوں یا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔