Topics
کوئی نظام اس ہی وقت نظام
کا درجہ پاتا ہے جب اس کی بنیادیں مستحکم ہوں اور اس نظام کو چلانے والے اس کی
حفاظت میں کمر بستہ رہیں۔ زمین پر آدم و حوا کے وجود کے ابتدائی مرحلہ سے لاکھوں
سال بعد تک معاشرتی نظام قائم ہے۔ جیسے جیسے شعوری ارتقاء ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔معاشرے کی
بنیادیں تو وہی ہیں لیکن ضرورت کے مطابق اصلاح و تجدید ہوتی رہی۔ آدمؑ و حواؑ جنت
سے جب زمین پر آئے تھے اسی وقت سترپوشی کا نظام قائم ہو گیا تھا۔ زمین پر آدمؑ و
حوا کی نسل بڑھی تو زندہ رہنے کے وسائل کی پیداوار اور تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ پھر
یہ معاشرہ ایک عورت اور مرد کی حسن تدبیر سے خاندان، قبائل، قوم اور ملک کی صورت اختیار
کرتا چلا گیا۔
زندہ رہنے اور حیوانات سے
ممتاز ہونے کے لئے آدمؑ نے (اپنے علم سے جو اسے یوم ازل میں منتقل ہو چکا تھا)
قوانین بنائے۔ ہابیل، قابیل دونوں بھائیوں میں سے ایک بھائی نے جب اپنے باپ آدمؑ
کے بنائے ہوئے قانون کو ضد، ہٹ دھرمی اور اپنی انا سے توڑ ڈالا تو زمین پر پہلا
قتل ہوا یعنی قانون توڑنے کا پہلا ردعمل اولاد آدمؑ کے سامنے قتل کی صورت میں ظاہر
ہوا۔
آدمؑ نے اپنے پیغمبرانہ
علم کی روشنی میں انسانی نسل کے لئے جو معاشرتی قوانین ترتیب دیئے وہی دین حق کی
بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر اصلاحی کام شروع ہوا۔۔۔۔۔۔مرد اور عورت دونوں کے حقوق کا
تعین ہوا۔ دونوں کے حقوق و فرائض متعین کر دیئے گئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
ہوشیار اور خود غرض لوگوں نے اس معاشرے میں قدغن لگائی اور اصلاحی معاشرہ تخریبی
معاشرہ بن گیا۔۔۔۔۔۔مرد چونکہ اعصابی طور پر مضبوط تھا اس نے چالاک حکمت عملی کے
تحت زور بازو ہر چیز کو اپنی ملکیت بنا لیا۔ آدمؑ کے بنائے ہوئے قانون کہ
’’مرد و عورت دونوں ایک
دوسرے کے ساتھ اور لباس ہیں اور دونوں اس طرح مساوات کے عمل میں شریک ہیں کہ
ہر کوئی اپنا فرض پورا کرے
اپنا حق حاصل کرے
کسی کے حق پر غاصبانہ
قبضہ نہ کرے
اور اپنا حق نہ چھوڑے۔‘‘
پر عمل نہیں ہو سکا۔
چونکہ معاشرہ مرد اور عورت (دو یونٹ) کے بغیر مکمل ہی ہی نہیں سکتا۔ اس لئے مرد نے
پہلی ضرب عورت پر لگائی اور وہ یہ بھی بھول گیا کہ۔۔۔۔۔۔
’’مرد کی پیدائش اور
تخلیق کے عمل میں مرد کے کردار کے مقابلے میں عورت کا کردار تین حصے زیادہ ہے۔‘‘
جنسی غلبے نے آدم زاد کو
حیوانات سے زیادہ مغلوب کر دیا۔
اور اس طرح۔۔۔۔۔۔
عورت کو گھریلو استعمال
کی ایک چیز سمجھا جانے لگا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہونے لگی۔ مرنے
والے مرد کے مال کے ساتھ عورت وراثت میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ یورپ میں عورت کی وقعت
اس حد تک کم تھی کہ وہ عورت کو انسان تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ہندوستان میں
بیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کر دیا جاتا تھا۔ یعنی خاوند کے ساتھ زندہ جلا دینا
عورت کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہی یورپ جو عورت کو
انسان کا درجہ دینے پر تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
انقلاب فرانس کے بعد اتنا
ضرور نیچے آیا کہ عورت کو مرد کی خادمہ تسلیم کر لیا گیا۔
زمانے کے نشیب و
فراز کے ساتھ زمین پر فساد برپا ہوتا رہا اور آدم کا بیٹا زمین کو اجاڑنے
کے منصوبے بناتا رہا۔۔۔۔۔۔پھر حرص و حوس اور اقتدار کی بھٹی میں ایسے ایسے مہلک
ہتھیار بنائے کہ زمین پر شگوفے کھلنے کی بجائے آگ و خون کا بازار گرم ہو
گیا۔۔۔۔۔۔اقتدار کی خواہش نے لاکھوں مردوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ مرد کم ہو گئے تو
عورتوں کی کثرت سے نئے نئے مسائل سامنے آ ئے۔ عورتیں پاگل ہو کر سرے بازار آ گئیں۔
زمین پر آدم کی نسل کم ہونے لگی تو مرد سر جوڑ کر بیٹھے اور عورت کو ایسی آزادی دی
کہ معاشرہ مزید درہم برہم ہو گیا۔ غیر جانبدار سوچ بتاتی ہے کہ اس میں بھی مرد کی
خود غرضی سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ سب کچھ مرد ہی کیوں کرتے ہیں۔ کیا عورت میں عقل و شعور نہیں ہے۔ کیا
عورت مرد کی ماں نہیں ہے۔ کیا وہ عضو معطل ہے؟
کسی بھی زمانے میں مرد نے
اپنی طاقت، مضبوط اعصاب، شیطنت اور مکر و فریب سے عورت کو اقتدار میں اپنے برابر
نہیں بٹھایا۔ اب جب کہ عورت کو حقوق دینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مساوات کے نام
پر عدم مساوات کی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں مادی چکا چوند میں معاشرے کو
تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے یہ بھی زمین پر آباد پر امن لوگوں کے خلاف ایک سازش
ہے۔
عورت اور مرد معاشرے کے
دو اہم رکن ہیں جس طرح مرد کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح معاشرے
کے اہم ترین رخ عورت کو اگر الگ کر دیا جائے تو سارا کائناتی نظام درہم برہم ہو
جائے گا۔
خالق کائنات نے جو تخلیق
کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔ کائناتی معاشرے کو دو رخوں سے بنایا ہے اور بار
بار پیغمبروں کے ذریعہ اس کی وضاحت کرائی ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ایک ہی بات کو دہرایا ہے کہ
عورت اور مرد دو رخوں کی
تخلیق ہے۔ عورت اور مرد دونوں کے اپنے اپنے فرائض ہیں جب بھی ان فرائض منصبی کو کم
وقعت سمجھا جائے گا معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے گا۔
اسلام اللہ کا قانون ہے۔
اس قانون نے عورت کو مساوی حقوق دیئے ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں عورت کا بھرپور
کردار ہے۔۔۔۔۔۔وراثت میں اسے حصے دار بنایا ہے۔ بالغ عورت کو کسی کے ساتھ نکاح پر
مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ شوہر کے لئے عورت کے حقوق پورے کرنا اسے خوش رکھنا اور اس
پر خرچ کرنا اللہ نے عبادت قرار دیا ہے۔ عورت کے اوپر بھی مرد کے حقوق قائم کئے
ہیں۔ عورت کو معاشرے کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کرنے یعنی اولاد اور نسل
انسانی کی صحیح تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
موجودہ سائنسی اور مادیت
گزیدہ معاشرہ میں عورت کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے حقوق
کی حفاظت کرے۔۔۔۔۔۔اپنی انا کو ٹٹولے اور دیکھے کہ اس کے کاندھوں کو قدرت نے کتنا
طاقتور اور مضبوط بنایا ہے۔
عورت پر لازم ہے کہ وہ
اپنی نسل اور اپنی اولاد۔۔۔۔۔۔بیٹے اور بیٹیوں کو بتائے کہ مادی اقتدار عارضی ہے۔
مادی زندگی قریب کے لباس میں قید ہے۔۔۔۔۔۔محض مادی اقتدار قوموں کے زوال کی علامت
ہے۔ مادی اقتدار کے پجاری اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتے ہیں اور زمین آگ کا دریا
بن جاتی ہے۔ اور اس آگ میں مرد اور عورت دونوں جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔
اے عورت! تو میری ماں ہے۔
تو نے مجھے جنم دیا ہے۔
عدم سے وجود میں لانے کیلئے تو میرے لئے وسیلہ اور ذریعہ بنی ہے۔
تیرے اندر کی آتما، تیری
روح نے میری تخلیق کی ہے۔
اے عورت!
تو میری شناخت ہے تو نہ
ہوتی تو میں بھی نہ ہوتا۔
میری رگوں میں جو خون دوڑ
رہا ہے وہ تیرا ہی خون ہے۔
میری زندگی میں جو انرجی
جل رہی ہے وہ تیری آغوش کے لمس کی گرمی ہے۔ تو نے میرے باپ کو مضبوط اعصاب بخش کر
خوبصورت پیکر بنایا۔
تو میری ایسی ماں ہے جس
نے مجھے بھی باپ کے مقدس مرتبے پر فائز کر دیا۔
اے ماں! آج پھر تیری نسل
کو تیری ضرورت ہے۔
تو اپنے بچوں کے دلوں میں
انسانوں کی محبت بھر دے۔
ایسی تربیت دے کہ نوع انسانی
میں سے نفرت و حقارت کے جذبات سرد پڑ جائیں، ختم ہو جائیں۔
اے ماں! ایسی تعلیم دے کہ
تیری اولاد مادیت کے عفریت سے نجات حاصل کر کے۔۔۔۔۔۔
مادیت کے خالق کی گود کو
اپنا مسکن بنائے۔
اے ماں! ٹھنڈے موسم میں
تو سورج کی تپش ہے۔
گرم لہروں کو ٹھنڈا کرنے
کے لئے تو چاند کی چاندنی ہے۔
تو دن کا اجالا ہے اور
ستاروں بھری رات کی کہکشاں ہے۔
تو اولاد کا سکون ہے۔
اے ماں!
تجھے تیری مامتا کا واسطہ
تو اپنی روحانی قوتوں سے
ہمارا سکون لوٹا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔