Topics
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ شیخ
الحدیث مولانا محمد زکریاؒ صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے مرشد حضرت اقدس مولانا
خلیل احمد سہارنپوریؒ صاحب کی ہمرکابی میں دو مرتبہ حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
میں نے ہمیشہ حضرت
کا یہ معمول دیکھا کہ ہندوستان کے لوگ جب کوئی ہدیہ پیش کرتے تو اول تو حضرت بڑے
اصرار سے اس کو یہ کہہ کر واپس کر دیتے تھے کہ یہاں کے لوگ زیادہ مستحق ہیں۔ ان کی
خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ مخصوص لوگوں کا پتہ بھی بتا دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے،
یہاں بازار میں سے چیزیں خریدا کرو، تا کہ یہاں کے لوگوں کی خدمت ہو جائے۔
مولانا زکریا صاحب
فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ کو بہت کم شعر پڑھتے سنا ہے۔ مگر جب مسجد الحرام
میں حاضر ہوتے تھے تو والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھتے تھے:
کہاں ہم اور کہاں یہ نکہتِ گل
نسیم صبح تیری مہربانی
ایک بدو نے خواب
میں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تیز قدموں سے تشریف لے جا رہے ہیں۔ بدو
نے ان سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کہاں تشریف لے جا رہے
ہیں؟‘‘
حضور صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا: ’’خلیل احمد ہندی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کی نماز جنازہ
میں جا رہا ہوں۔‘‘
یہ بدو مدینہ
منورہ میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی نماز جنازہ میں شریک ہوا۔ اور اس
نے وہاں موجود لوگوں کو اپنا خواب سنایا۔
شیخ اکبر کہتے ہیں
کہ ’’میں جمعہ کی نماز کے بعد طواف کر رہا تھا۔ دیکھا !کہ ایک شخص طواف کر رہا ہے
لیکن وہ کسی سے ٹکراتا نہیں ہے۔ میں نے سمجھ لیا یہ روح ہے۔ جب وہ شخص قریب آیا تو
میں نے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا۔ ہم نے آپس میں چند باتیں کیں۔ ’’یہ
شخص شیخ احمد سیوطیؒ کی روح تھی۔‘‘
حضرت بایزیدؒ فرماتے
ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ حج کے وقت گھر دیکھا۔ دوسری مرتبہ گھر کو بھی دیکھا اور
گھر والے کو بھی دیکھا۔ تیسری مرتبہ جب حج کے لئے گیا تو گھر کو نہیں دیکھا صرف
گھر والے کو دیکھا۔
حضرت عبداللہ بن
مبارکؒ کا معمول تھا کہ وہ ایک سال حج کیا کرتے تھے اور ایک سال جہاد کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ میں
پانچ سو اشرفیاں لے کر حج کے ارادے سے چلا اور کوفہ میں جہاں اونٹ فروخت ہوتے ہیں،
پہنچا تا کہ اونٹ خرید لوں۔ وہاں میں نے دیکھا کہ کوڑے پر ایک بطخ مری پڑی ہے۔ اور
ایک عورت اس کے پر نوچ رہی ہے۔ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے پوچھا۔ کیا کر
رہی ہو؟ اس نے جواب دیا۔ جس کام سے تمہیں واسطہ نہیں اس کی تحقیق کیوں کرتے ہو؟
میں نے اصرار کیا تو اس نے بتایا میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ میرے چار بچے ہیں۔ آج
چوتھا دن ہے۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا۔ ایسی حالت میں مردار حلال ہے۔ یہ بات سن کر
مجھے شرم آ گئی۔ میں نے پانچ سو اشرفیاں اس کی گود میں ڈال دیں اور حج کا ارادہ
ملتوی کر دیا۔
جب لوگ حج کر کے
آئے تو حاجیوں نے بتایا کہ فلاں فلاں جگہ تم سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں حیرت میں تھا
کہ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں- رات کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی۔ حضور
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ عبداللہ تعجب نہ کر تو نے ایک مصیبت زدہ کی مدد کی
ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ تیری طرف سے ایک فرشتہ مقرر کر دے جو
تیری طرف سے حج کرے۔
شیخ حضرت یعقوب
بصریؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حرم شریف میں کئی دن تک بھوکا رہا، زم زم پیتا
رہا۔ جب ضعف زیادہ ہو گیا تو میں باہر نکلا ایک سڑا ہوا شلجم میں نے اٹھا لیا۔
خیال آیا کہ کئی دن تک بھوکا رہا اور سڑا ہوا شلجم ملا۔ میں نے پھینک دیا اور مسجد
الحرام میں آ کر بیٹھ گیا۔
اتنے میں ایک شخص
آیا اس نے بتایا کہ ہم دس دن تک سمندر میں موت و زیست میں مبتلا رہے ہیں۔ ہماری
کشتی ڈوبنے لگی تھی۔ تو ہم میں سے ہر شخص نے الگ الگ منت مانی۔ میں نے یہ نذر کی
تھی کہ اگر میں زندہ سلامت پہنچ جاؤں تو یہ تھیلی اس شخص کو دونگا۔ مسجد الحرام
میں جس شخص پر میری پہلی نظر پڑے گی۔ میں نے تھیلی لے کر کھولی تو اس میں سفید
مصری، خشک روٹی، چھلے ہوئے بادام اور شکر پارے تھے۔ میں نے ہر ایک میں سے ایک ایک
مٹھی لے لی باقی اس شخص کو واپس کر دی۔
حضرت ابوالحسن
سراجؒ کہتے ہیں کہ میں طواف کر رہا تھا کہ میری نظر ایک حسین عورت پر پڑی۔ جس کا
چہرہ چاند کی طرح تھا۔ میں نے کہا۔ سبحان اللہ ایسی حسین عورت میں نے پہلے کبھی
نہیں دیکھی۔ معلوم ہوتا ہے اس کو کوئی غم نہیں ہے۔ اس نے میری بات سن کر کہا۔
واللہ! غموں میں جکڑی ہوئی ہوں۔ میرا دل فکروں اور آفتوں میں ہے۔ کوئی میرا ہمدرد
نہیں ہے۔
میرے خاوند نے
قربانی میں ایک بکری ذبح کی۔ میرے دو بچے کھیل رہے تھے اور ایک دودھ پیتا بچہ میری
گود میں تھا۔ میں گوشت پکانے کے لئے اٹھی تو ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے دوسرے
سے کہا۔ میں تمہیں بتاؤں کہ ابا نے بکری کیسے ذبح کی تھی؟ اس نے دوسرے بھائی کو
بکری کی طرح ذبح کر دیا پھر ڈر کر بھاگ گیا اور ایک پہاڑ پر چڑھ گیا۔ وہاں ایک
بھیڑیئے نے اسے کھا لیا۔
باپ اس کی تلاش
میں نکلا اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے پیاس کی شدت سے مر گیا۔ میں دودھ پیتے بچے کو چھوڑ
کر دروازے تک گئی کہ شاید خاوند کا کچھ پتہ مل جائے۔ تو وہ بچہ چولہے کے پاس چلا
گیا۔ چولہے پر ہانڈی پک رہی تھی۔ بچے نے ہانڈی پر ہاتھ مارا۔ اس کا پورا جسم جل
گیا۔ میری بڑی لڑکی جو خاوند کے گھر تھی اس کو جب اس سارے قصے کی خبر ملی تو وہ بے
ہوش ہو کر زمین پر گری اور مر گئی۔ مقدر نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔
میں نے پوچھا اتنی
زیادہ مصیبتوں کے بعد تجھے صبر کیسے آیا؟ اس خوبصورت خاتون نے تین شعر پڑھے۔
میں نے صبر کیا
کیونکہ صبر بہترین اعتماد ہے اس لئے بے صبری سے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا
تھا۔ میں نے ایسی مصیبتوں پر صبر کیا کہ اگر وہ پہاڑوں پر گریں تو پہاڑ ریزہ ریزہ
ہو جائے۔ میں نے اپنے آنسوؤں کو پی لیا اور میری آنکھیں خشک ہو گئیں۔ اب آنسو میرے
دل پر گرتے ہیں۔ صبر کے ان آنسوؤں نے میرے دل کو مجلا کر دیا ہے اور اب اللہ میرے
ساتھ ہے اس نے مجھے خوف اور غم سے آزاد کر دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن
صالحؒ لوگوں سے بھاگ کر ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھرتے رہتے تھے مگر مکہ مکرمہ
میں کافی عرصہ تک قیام کیا۔ سہیل بن عبداللہ نے پوچھا اس شہر میں آپ نے کافی عرصے
قیام کیا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے ایسا کوئی شہر نہیں دیکھا جس میں اس شہر سے
زیادہ برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہوں۔ اس شہر میں صبح و شام فرشتے اترتے ہیں۔
فرشتے مختلف
صورتوں میں بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ تمہیں خدا کی قسم کچھ
دیکھے ہوئے عجائبات اور سناؤ۔ فرمایا، کوئی ولی کامل ایسا نہیں ہے جو ہر جمعہ کی
شب یہاں نہ آتا ہو۔
حضرت جنید بغدادیؒ
فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تنہا حج کے لئے گیا۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران
میرا معمول تھا کہ جب رات زیادہ ہو جاتی تو طواف کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان
لڑکی کو دیکھا۔ وہ طواف کر رہی تھی اور اشعار پڑھ رہی تھی۔
’’میں نے عشق کو
بہت چھپایا مگر وہ نہیں چھپ سکا۔ اب تو کھلم کھلا میرے پاس ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ جب
شوق بڑھتا ہے تو اس کے ذکر سے دل بے چین ہو جاتا ہے اور اگر میں اپنے محبوب سے
قریب ہونا چاہتی ہوں تو وہ مجھ سے قریب ہو جاتا ہے۔ اور وہ ظاہر ہوتا ہے تو میں اس
میں فنا ہو جاتی ہوں اور پھر اسی کے لئے زندہ ہو جاتی ہوں۔ اور وہ مجھے کامیاب
کرتا ہے حتیٰ کہ میں مست و بے خود ہو جاتی ہوں۔‘‘
میں نے اس سے کہا
تو ایسی بابرکت جگہ ایسے شعر پڑھتی ہے۔ وہ لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی اور بولی
جنید! اس کے عشق میں بھاگی پھر رہی ہوں اور اسی کی محبت نے مجھے حیران اور پریشان
کر رکھا ہے۔ اس کے بعد لڑکی نے پوچھا۔ جنید! تم اللہ کا طواف کرتے ہو یا بیت اللہ
کا؟ میں نے جواب دیا۔ میں تو بیت اللہ کا طواف کرتا ہوں۔
آسمان کی طرف منہ
کر کے اس نے کہا۔ سبحان اللہ آپ کی بھی کیا شان ہے۔ پتھر کی مانند بے شعور مخلوق
پتھروں کا طواف کرتی ہے اور شعور والے گھر والے کا طواف کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے
عشق و محبت میں سچے ہوتے تو ان کی اپنی صفات غائب ہو جاتیں۔ اور اللہ کی صفات ان
میں بیدار ہو جاتیں۔ حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں کہ فرط غم سے میں غش کھا کر گر گیا اور
جب ہوش آیا تو وہ خاتون جا چکی تھی۔
خواجہ معین الدین
چشتیؒ فرماتے ہیں کہ حاجی جسم کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں لیکن صوفی
(عارف) جب طواف کرتا ہے تو اس کا دل اور روح بھی طواف کرتی ہے۔
فرمایا۔ ایک مدت
تک میں خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتا رہا اور اب خانہ کعبہ کی تجلیات سے بہرہ مند
ہوتا ہوں۔
حضرت ابراہیمؒ
فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں پیاس سے اس قدر بے چین ہوا کہ چلتے چلتے پیاس کی
شدت سے بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ کسی نے میرے منہ پر پانی ڈالا۔ میں نے آنکھیں کھولی
تو دیکھا ایک نہایت خوبصورت آدمی گھوڑے پر سوار ہے۔ اس نے مجھے پانی پلایا اور کہا
کہ میرے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو جاؤ۔
تھوڑی دیر چلے تھے
اس نے مجھ سے پوچھا۔ یہ کون سی آبادی ہے؟ میں نے کہا یہ مدینہ منورہ آ گیاہے۔ کہنے
لگا، اتر جاؤ اور روضہ اقدس پر حاضر ہو تو یہ عرض کر دینا کہ آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کے بھائی خضر نے سلام کہا ہے۔
شیخ ابوالخیر
اقطعؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ طیبہ حاضر ہوا اور پانچ دن ایسے گزر گئے کہ
کھانے کو کچھ نہ ملا۔ کوئی چیز چکھنے کی نوبت نہ آئی۔ قبر اطہر پر حاضر ہوا اور حضور اقدس صلی
اللہ علیہ و سلم اور حضرات شیخین پر سلام عرض کر کے منبر شریف کے پیچھے جا کر سو
گیا۔ میں نے خواب دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں۔ دائیں جانب حضرت
ابوبکرصدیقؓ، بائیں جانب حضرت عمر فاروقؓ ہیں اور حضرت علیؓ سامنے ہیں۔ حضرت علیؓ
نے فرمایا۔ دیکھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے ہیں۔ میں اٹھا تو آپ
صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ایک روٹی مرحمت فرمائی۔ میں نے آدھی کھائی اور جب
میری آنکھ کھلی تو آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔
احمد رضا خان
بریلویؒ دوران حج مدینہ منورہ حاضر ہوئے اس وقت دل میں یہ تمنا ابھری کہ کاش مجھے
بیداری میں محبوب رب العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہو
جائے۔
مواجہ شریف میں
کھڑے ہو کر دیر تک درود پڑھتے رہےاور نعت پڑھی جس کا مطلع یہ ہے:
وہ سوئے لالہ زار
پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار
پھرتے ہیں
آنکھیں بند کر کے
با ادب انتظار میں کھڑے ہو گئے قسمت جاگ اٹھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے