Topics
راہ سلوک پر چلنے والے کے
ذہن میں معرفت کی بنیادوں کا مستحکم و مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔ شیخ اپنے شاگرد
کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کی بنیادیں مستحکم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت
کی بنیاد وحدانیت کا ایمان و ایقان ہے۔ وحدانیت کا مطلب یہ ہے کہ تصور ماسوائے
اللہ کے ہر شئے سے خالی ہو۔ جب تصور میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خیال نہیں آتا
تو ارادے کی قوت اس تصور کو نقطۂ ذات کی گہرائیوں میں پہنچا دیتی ہے۔ نقطۂ ذات کی
انتہائی گہرائی قلب ہے جہاں تصور کا عکس نقش بن جاتا ہے۔ تصور کا ہر نقش اللہ
تعالیٰ کے امرکا ایک خاکہ ہے۔ اس واضح خاکہ پر روح یا امر ربی اللہ تعالیٰ کے حکم
کے مطابق اس کے امر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہی مظاہرے (Display) انسان کی زندگی کی حرکات اس کے کام اس کے اعمال ہیں۔
بہترین زندگی گزارنے کے
لئے ضروری ہے کہ زندگی کی اعلیٰ قدروں کو پہچانا جائے اور ان قوانین فطرت کو جانا
جائے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے امر کا بہترین مظاہرہ کر سکے۔ کائنات کی ہر تخلیق
اور ہر مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے امر کی ایک صورت ہے۔ اور امر ربی کی ہر صورت اپنی
ذات و صفات میں یکتا ہے۔ کائنات کی ہر شئے کی بنیاد وحدانیت کے نقطہ پر قائم ہے۔
یہی نقطہ ہر شئے کی ذات کا نقطہ ہے۔ جیسے ایٹم کا ہر ذرہ ایٹم ہی ہے کچھ اور نہیں
ہو سکتا۔ چنانچہ انسان کے نقطہ ذات کے ذریعہ وحدانیت کے شعور کے دروازے عقل انسانی
پہ کھلتے ہیں۔ مرشد کامل کی نظر کرم سالک کے قلب میں اس دروازے کو کھولنے کا باعث
بن جاتی ہے۔ مرشد کا قرب مرید کے لئے ایسا جام عشق ہے جو آہستہ آہستہ مرید اپنے
میخانہ دل میں انڈیلتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مرید کے میخانے کا ہر جام
شراب شیخ سے لبریز ہو جاتا ہے۔ کعبہ دل کی ہر دیوار پر اسے شیخ کی تصویر آویزاں
دکھائی دیتی ہے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں شیخ کی تصویر نقش ہو جاتی ہے۔ اس کے
حواس پر شیخ کا عشق غلبہ پا لیتا ہے۔ تب اس کا نفس شیخ کے عشق کی تپش سے پگھل کر
ایک نقطہ کے برابر رہ جاتا ہے اور یہ نقطہ شیخ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے اور مرید
فنا فی الشیخ کے درجے میں قدم رکھتا ہے جہاں اس کی ذات محض ایک نظر کی حیثیت سے
باقی رہ جاتی ہے۔ جس کا کام صرف دیکھنا ہے۔ اس کی نظر تصور شیخ کے خاکہ پر ٹھہر
جاتی ہے۔
نظر جب تک اس خاکے کو
دیکھتی رہتی ہے تفکر ایک ہی نقطے پر قائم رہتا ہے۔ بدلتے لمحات ایک ہی لمحہ میں
تبدیل ہو جاتے ہیں۔
وقت کی گردش رک جاتی ہے۔
زندگی کی رفتار تھم جاتی ہے۔
سالک کی نگاہ اس لمحے شیخ
کو رگ جان سے قریب تر دیکھ لیتی ہے۔ اس کی نگاہ اپنے قلب کی انتہائی گہرائی میں
پہنچ جاتی ہے جہاں شیخ کا تصور مجسم بن کر تفکر کے دریچے کھول دیتا ہے اور یہ لمحۂ
حقیقی ابد کی لامتناہی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے۔ شیخ کے تفکر کی رو اس کے قلب میں
بہنے لگتی ہے۔ شیخ کے علوم اس رو کے ذریعہ اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتے ہیں۔ وہ
جان لیتا ہے کہ جب تک نقطہ ذات وحدانیت کے نور سے لبریز نہیں ہو جاتا تب تک ذات کے
نقطے سے کسی شئے کا باہر آنا ممکن نہیں ہے۔ جب سالک کا نقطہ ذات شیخ کی روشنیوں سے
لبریز ہو جاتا ہے تو نور سالک کے لطائف میں ذخیرہ ہو جاتا ہے اور سالک قرب کی
منزلیں طے کر لیتا ہے۔
سوال: تصور شیخ کیوں کیا
جاتا ہے؟ اللہ کا تصور کیوں قائم نہ کیا جائے؟
جواب: آدم جب تک جنت میں
تھے تو دماغ کا وہ حصہ کام کر رہا تھا جو معرفت سے متعلق تھا۔ مگر آدم نے جب
نافرمانی کی تو دماغ کے اس حصہ شعور نے کام کرنا شروع کر دیا جو نافرمانی کی وجہ
سے متحرک ہو گیا تھا۔ اس لئے شعور میں جو بھی خیالات بنتے ہیں وہ ناقص اور کثیف
ہوتے ہیں۔ اس کثیف اور ناقص شعور میں علوم ربانی کی روشنیاں داخل نہیں ہوتیں۔ آدم
سڑی ہوئی مٹی سے تخلیق کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ تمام خامیاں جو سڑی ہوئی مٹی کی
تھیں وہ نسل آدم کو منتقل ہو گئیں۔ یعنی گندگی، غلاظت، تعفن، سڑانڈ اور بدبو
وغیرہ۔
سالک جب ان تمام نقائص کو
پیش نظر رکھ کر تصور شیخ کرتا ہے تو اس کی اپنی تمام کمزوریاں اس کے سامنے ہوتی
ہیں۔ وہ ان تمام خامیوں کو شیخ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ شیخ مرید پر نظر کرم کرتا
ہے۔ اپنی مجلا اور مصفا شخصیت کا عکس مرید کے دل میں منتقل کرتا ہے۔ باطنی طور پر
رگڑ رگڑ کر اتنا صاف کر دیتا ہے کہ مرید کا شعور کمسن بچے کی طرح ہو جاتا ہے۔ پھر
شیخ اپنے سینے سے اپنے علوم منتقل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تصور شیخ اس لئے کیا جاتا
ہے تا کہ شیخ کے علوم مرید میں منتقل ہو جائیں۔
آدمی آنکھیں بند کر کے
اندھیرے میں اپنے استاد یا پیرو مرشد کے تصور میں بیٹھ جاتا ہے۔ تصور شیخ کا صحیح
مفہوم انخلاء ذہنی ہے۔ مرید اپنے شیخ کو ذہن کا مرکز بنا کر اس کے تصور میں ڈوب
جانے کی مشق کرتا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ تصور شیخ کا مطلب
ہرگز یہ نہیں ہے کہ شیخ کی تصویر بنائی جائے یا شیخ کی شکل وصورت کے بارے میں سوچا
جائے کہ شیخ کی داڑھی ایسی ہے یا ان کا لباس ایسا ہوتا ہے یا اس طرح کی اور باتیں
سوچی جائیں۔ دراصل شیخ کو ذہن کا مرکز بنا کر اس میں گم ہو جانا یا کھو جانا ہی
صحیح طریقہ ہے۔
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے
کہ تصور شیخ کیوں کریں اللہ تعالیٰ کا تصور کیوں نہ کریں تا کہ منزل جلد مل جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ ہم نے آدم کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا۔ آدم کو خلیفہ بنانے سے پہلے
نیابت اور خلافت کے تمام علوم سیکھا کر دنیا میں بھیجا گیا تھا تا کہ وہ اللہ کے
بنائے ہوئے قانون کے مطابق دنیا والوں میں اللہ تعالیٰ کے علوم کو پھیلائیں۔ آدم کے
بعد جتنے بھی پیغمبر آئے اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے یہی کہا کہ وہ سب بشر تھے۔
سورۂ الانبیاء کی آٹھویں
آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور نہیں بنائے ہم نے
انبیاء کے ایسے جسم جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ (اس دنیا میں) ہمیشہ رہنے
والے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو
انسانوں کو ہدایت کے لئے بھیجا۔ اس آیت سے پوری طرح وضاحت ہو جاتی ہے کہ انسانوں
کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے انسانوں کو پیغمبر اور خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ جو
لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر چلنے کی بجائے نفس کے غلام بن جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ
سے دور ہو جاتے ہیں اس لئے وہ علوم انہیں منتقل نہیں ہوتے جو اسماء الٰہیہ کے علوم
ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ کا ورثہ اسماء الٰہیہ کے علوم بندوں تک پہنچانے کاکام اللہ
تعالیٰ کے سپرد ہے اور نائب آدم ہے اور آدم انسان ہے، بشر ہے اس کے اندر انسانوں
والی تمام باتیں موجود ہیں اور وہ بشری تقاضے رکھتا ہے ۔ اب جب کہ نبوت کا سلسلہ
ختم ہو گیا ہے پیغمبر آنے بند ہو گئے ہیں تو ہدایت کا کام رسول اللہﷺ کی امت کے
اولیاء اللہ نے انجام دینا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تصور شیخ کی تلقین کی
جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین میں ملے۔ اس زمانے میں چین ایک بڑا متمدن اور ترقی
یافتہ ملک تھا اور علم و دانش کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 1987ء میں مراقبہ ہال (جامعہ
عظیمیہ) کا قیام عمل میں آیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے افتتاحی
تقریر میں فرمایا تھا انشاء اللہ یہاں روحانی کلاسز کا اجراء ہو گا اور یہاں
روحانی علم کی شمع روشن ہو گئی گفتہ و گفتہ اللہ بود کے مصداق مراقبہ ہال لاہور
میں روحانی کلاسز شروع ہو گئیں ہیں کورس کی پہلی کتاب مرشد کریم کے لکھے ہوئے
کتابچوں سے ترتیب دی گئی ہے۔ روحانی کلاس کی پہلی کتاب میں ابتدائی نوعیت کے
روحانی سوال و جواب لکھے گئے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر طالبات اور طلباء ذوق و شوق
سے اس کتاب کو استاد کی نگرانی میں پڑھیں اور تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مراقبہ
بھی کریں تو ان کے علم (Knowledge) میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔