انسان کا غرور اقتدار و زر ہے
گر یہ بھی نہیں تو مذہب و منبر ہے
دیکھا جو اسے بعد فنا ہونے کے
معلوم ہوا یہ خاک مٹھی بھر ہے
’’بہتات کی حرص نے تمہیں غافل کیا یہاں تک کہ تم نے قبریں
جا دیکھیں۔‘‘ (التکاثر: ا۔۲)
وہ لوگ جنہوں نے ساری زندگی خواہشات کی تکمیل کے لئے سامان ِدنیا جمع کیا ، مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے نا
م بھی فراموش کر دیے۔ جہاں تک دولت کے انبار جمع کرنے سے عزت و توقیر کے حصول کا
تعلق ہے ، یہ خود فریبی ہے ۔ ایسی خود فریبی
جس سے کوئی فردِ واحد انکار نہیں کر سکتا ۔
فراعین ِمصر کے
محلات اورقارون کے خزانے بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں
کی ۔ ترقی یافتہ اقوام اس لئے عذاب میں مبتلا ہیں کہ ترقی کے پیچھے ان کے محدو د
مفادات ہیں ۔ ہر ترقی مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ ہے ۔ یہ وہ قوم ہے جس نے ذاتی
اور مالی منفعت کے لئے خوب صورت دنیا کو
بد ہیئت بنادیا ہے، جگمگ کرتے ستاروں کی
سہانی راتوں کو دھندلا دیا ہے، پرُ خمار اور سحرانگیز نسیم ِصبح میں ایٹمی ایندھن
کا زہر گھول دیا ہے ۔ یہ وہ عروج یافتہ قوم ہے جس نے پھولوں کی مسکراہٹ چھین لی
، اب پرندوں کی روح پرور چہچہاہٹ ایک نغمہ ٔدل سوز بن کر رہ گئی ہے ۔ تحقیق و
تلاش (مادی سائنس)اورٹیکنالوجی نے آدمی کو عدم تحفظ کے گہرے غار میں دھکیل دیا ہے
۔ عدم تحفظ کی حالت میں سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے چاندنی کا حسن اوردھوپ کی خوب
صورتی ماند پڑ گئی ہے ۔ یہ کون نہیں جانتا
کہ ایٹمی تجربات ، ڈیزل و پٹرول کے بخارات اور جیٹ طیاروں کے آتشیں فضلات نے فضا
کو کچھ اس طرح زہر آلود کر دیا ہے کہ آدمی کے اندر جانے والا ہر سانس زہر ناک بن
گیا ہے اور اس زہر ناکی نے آدمی
کو زیر و زبر کر دیاہے۔ ذہن بکھر گیا، دل ہے کہ ہر لمحہ ڈوب جانے کو بضد ہے
۔ ترقی کے پرُ فریب پردوں میں سسکتی ، تڑپتی اور روتی ہوئی قوم نے عافیت اس میں سمجھی
کہ عدم تحفظ کے خوفناک عفریت سے فرار اختیار کیا جائے لیکن اس فرار میں بھی انہیں لالچی اور
خودغرض ’’ جینئس‘‘ ذہن نے شکار کی طرح
دبوچ لیاہے۔
٭٭٭٭
ء)2024 ماہنامہ قلندر
شعور جون(