یوں کہنے کو کہتے ہیں مفکر ہر بات
سمجھا نہ کوئی آج تلک کیا ہے حیات
ٹوٹی ہوئی دیوار سے در سے شب وروز
ہر مرغ پکارتا ہے ہیہات ہیہات
قرآن
کریم: "کیا انسان پر زمانہ میں ایک وقت ایسا نہیں جب وہ ناقابل تذکرہ شے
تھا؟"(الدھر: 1)
ظاہر اور
باطن علم کے دو رخ ہیں ۔ علم ایک ہے۔ایک رخ میں مادیت غالب ہے جب کہ علم کا
دوسرارخ راہ نمائی کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی شے از خود موجود نہیں ، قاعدے ،
ضابطے اور میکانزم کے تحت قائم ہے اور اس کو قائم رکنے والی ایک ہستی ہے۔ محقق matter کو اصل سمجھتا
ہے، تحقیق کی بنیاد مفروضے پر رکھتا ہے اور پھر مفروضہ نتائج کو حتمی مانتا ہے۔
مادہ یا matter کیا ہے۔ ؟ اصل سے دوری (گریز) ہے۔ دوری پیدا
ہونے سے تغیر واقع ہوتا ہے۔ شے اصل سے قریب ہونا چاہتی ہے۔ قرب کے لئے ایک کے بعد
ایک حالت بدلتی ہے اور بالآخر matterریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔
گریز شروع ہوتے ہی کشش کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ مفکر جب شے کو اصل سے الگ دیکھتا
ہے تو تحقیق متغیر ہوجاتی ہے۔
کم وبیش ہر دانشور نے زندگی کی
تعریف بیان کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی اس دنیا میں پیدائش ، بچپن ، لڑکپن، جوانی
، بڑھاپا اور موت کا نام ہے۔ کیا پیدائش خود بخود یا آدمی کے تابع ہو کر جوانی میں
بدل سکتی ہے۔ ؟ کیا آدمی کو موت پر اختیار ہے۔؟ اگر اختیار ہوتا تو کوئی نہیں مرتا
لیکن مرجاتا ہے۔ جو قوت عدم کو موجود اور موجود کو عدم کررہی ہے، وہ حرکت کا محرک
ہے۔
ہر شے باحواس اور ذی حیات
ہے۔ مفکر کہنے کو تو بات کہہ دیتا ہے مگر حیات و ممات کی تعریف آج تک بیان نہیں
ہوسکی۔ حیات کو سمجھے بغیر حسابِ عمر کا گوشوارہ محض خسارہ ہے جس کی مثال شکستہ
وخستہ عمارت کی ہے۔ آدمی کی ناقدری شناسی اورعمارت کی زبوں حالی دیکھ کر بصیرت
رکھنے والی آنکھ اور لبیک کہنے والی ہر آواز سے ملامت کرتی ہے کہ افسوس صد افسوس
!جس کوتم وقوت کہتے ہووہ الوژن (ناواقفیت) کے علاوہ کچھ نہیں۔