اک جرعہ مئے ناب ہے ہر دم
میرا
اک جرعہ مئے ناب ہے عالم میرا
مستی و قلندری و گمراہی کیا
اک جرعہ مئے ناب ہے محرم میرا
قرآن کریم: " آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری
قربانی میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا رب ہے۔"
(الانعام: 126)
میرا ہر سانس خالص شراب کے ایک گھونٹ کی مانند ہے۔
اور زیادہ گہرائی میں سوچوں تو میری ساری دنیا ہی خالص شراب کا ایک گھونٹ نظر آتی
ہے۔ جب میری حد اور حدود ایسی ہوں تو میری مستی و قلندری یا گمراہی کا وجود ۔
ناوجود بن جاتا ہے ۔ شراب کا یہی ایک گھونٹ میری زندگی میں پنہاں اسرار کو میرے
اوپر منکشف کرتا ہے۔ چاہے اسےمستی وقلندری میں گزارلوں اور چاہے تو اسے گمراہی میں
ضائع کردوں۔ عارفوں کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف شرابِ معرفت کی لذتوں سے بہرور
ہونا یا ساقی کی مشیت پر سر تسلیم خم کرنا ہے۔ مقام و مرتبہ کی انہیں چاہ نہیں۔ ان
کا ربط ، قربانی ، جینا اور مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ مشیت کو وہ دل و جان
سے تسلیم کرتے ہیں کہ محبوب کی قربت سے بڑھ کر اس کائنات میں کوئی شے نہیں ۔ معرفت
کی شراب کا ایک گھونٹ انہیں ٹائم اور اسپیس کی قید وبند سے آزاد کردیتا ہے۔
ٹائم اور اسپیس کی قید خالق اور
مخلوق کے درمیان دوری ہے۔ بندہ جب اس قید سے نکلتا ہے تو راز مشاہدہ بن جاتا ہے کہ
اللہ مخلوق کی رگ ِ جاں سے زیادہ قریب ہے۔ عارف کی اللہ تعالیٰ سے یہی استدعا ہے
کہ اسے معرفت کا علیٰ درجہ اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی برضا رہنے کی توفیق
عطا ہو جائے۔ زندگی کے محدود عرصے میں اگر اس مقصد کی تکمیل نہ ہو سکی تو سب کچھ رائیگاں ہے۔
مشیت الٰہی جب بندے کی
زندگی بنتی ہے تو وہ " یاردم بہ دم بار بار می آید" کی تفسیر بن جاتا
ہے۔ آرام و آسائش یا پھر تکالیف اس کے لئے بے معنی ہوجاتی ہیں کہ اس کو درپیش
دونوں ہی راستے محبوب کی خواہش کے تحت ہیں ۔وہ تکالف اور راحت میں نہیں ۔محبوب کی
خواہش کی تعمیل میں زندگی بسر کرتا ہے