علم لاعلمی

علم لاعلمی

Rubayat | April 2021


معلوم نہیں کہاں سے آانا ہے میرا

معلوم نہیں کہاں پہ جانا ہے میرا

یہ علم کہ کچھ علم نہیں ہے مجھ کو

کیاعلم کہ کھونا ہے کہ پانا ہے میرا

 

قرآن کریم :           میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میں میری بندگی کریں۔۔(الذاریٰت: 56)

یہ نہیں معلوم کہ میں کہاں سے آیا ہوں، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ میری منزل کہاں ہے؟ ایسا علم جس کو نہ تو کھو جانے کا علم ہو اور نہ کچھ پا لینے کا علم ہوعلم نہیں ہے۔ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا یہ حال ہے تو ہم  حقیقت کے سمندر میں کس طرح غوطہ زن ہو سکتے ہیں، حقیقی علم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ ہمیں کس نے پیدا کیا ہے، اس دنیا میں پیدائش سے پہلے ہم کہاں تھے اور مرنے کے بعد کون سے عالم چلے جاتے ہیں اور اس عالم میں زندگی کن طرزوں پر قائم ہے؟

زندگی کا قیام خیال پر ہے اور خیال دماغ کی اسکرین پر عکس بنتا ہے۔ عکس کا منعکس ہونا، زمین سمیت دیگر سیاروں میں زندگی ہے۔ خیال اطلاع ہے۔ کوئی کام اطلاع کے بغیر نہیں ہوتا ۔ زندگی خیال میں پنہاں ہے اور موت کی اطلاع بھی خیال ہے۔ جب تک آدمی اطلاع کی حقیقت سے ناواقف ہے ، نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے کیوں کہ حیات ، اطلاع کےساتھ نزول کرتی ہےاور اطلاع کے ساتھ صعود کرتی ہے۔ مقصد کی تکمیل نہ ہو، سفر بے معنی ہوجاتا ہے۔ زندگی بے کار باتوں میں گزرجائےتو پچھتاوا مقدر بن جاتا ہے۔

خالق کائنات اللہ نے جن و انس کو اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ اللہ کے نیک بندے رب کی معرفت کےلئے کائنات میں نشانیوں پر غورکرتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ حیات کیا ہے، ہر لمحہ کس طرح مظہر بنتا ہے اور لمحات کو غیب ظاہر کرنے والا کون ہے۔ بالآخر وہ حقیقت کے سمندر میں اتر جاتے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں


More in Rubayat