کل عمر گذر گئی زمین پر ناشاد
افلاک نے ہر سانس کیا ہے برباد
شاید کہ وہاں خوشی میّسر ہو عظیم
ہے زیرِ زمیں بھی ایک دُنیا آباد
قرآن
کریم:"ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔"(البقرۃ:
156)
ہماری اس رنگ و بو
کی دنیا کی طرح ایک اور دنیا ہے جو مرنے کے بعد روشن ہوتی ہے۔ کتنے بد نصیب ہیں ہم
کہ کبھی اس نادیدہ دنیا کی طرف سفر نہیں کیا۔ خاتم النبیین رسول اللہؐ کے ارشاد
"مرجاؤ مرنے سےپہلے" پر عمل کرکےاگر اس دنیا میں رہتے ہوئے، اُس دنیا سے
روشناسی حاصل کرلیں تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ناشاد و نامراد زندگی کو
مسرت و شادمانی میسر آجائے۔
ہر ذی روح کو اللہ
تعالیٰ نےضرورت کے مطابق عقل عطا کی ہے۔ عقل کے ساتھ ساتھ کسی چیز کا انتخاب کرنے
یا رد کرنے کا بھی محدود دائرے میں اختیار دیا ہے۔اکثر افراد اس طرف توجہ نہیں
کرتے کہ دنیا میں زندگی کا ہر لمحہ فانی ہے اور زندگی کا ہر دوسرا، تیسرا، چوتھا
لمحہ بقا کے پردے میں چھپا ہوا ہے۔ اگر آدمی اپنی ہستی پر تفکر کرے تو جو نتیجہ
برآمد ہوتا ہے، وہ جانتے ہوئے بھی آدمی انجان بنا ہواہے۔ آدمی دنیا میں نہیں
ہوتا لیکن کہیں ہوتا ضرور ہے پھر اسپرم سے
اس کے ظہور کی ابتدا ہوتی ہے اور یہ اسپرم مسلسل ظاہر اور چھپے ہوئے تانے بانے سےبنا
ہوا ہے لیکن قدرت کا یہ عجیب راز ہے کہ تانے بانے پر بنی تصویر تو نظر آتی ہے لیکن
تانا اور بانا دونوں نظروں سے اوجھل ہیں۔
خواتین
وحضرات اس راز کو سمجھنے کے لئے غوروفکر کریں کہ ایک دن کا بچہ جب دوسرے دن میں
داخل ہوتا ہے تو پہلادن اگر غائب نہ ہو تو کیا دوسرے دن کا تذکرہ ہو سکتا ہے؟ آج
کے نقش و نگار، آج کی نرمی، سرخی، کومل پھول کی طرح خوب صورتی ایک سال کے مختصر
عرصے میں اس طرح پردےمیں چھپ جاتی ہے کہ
نظر نہیں آتی اور جب وہی بچہ یا بچی سن شعور کو پہنچتے ہیں تو گزرے ہوئے
زمانے کی صرف یاد باقی رہ جاتی ہے اور بالآخر غیب و شہود۔شہود غیب دونوں آنکھوں سے
اس طرح اوجھل ہوجاتے ہیں کہ اگر تلا ش کیا جائے تو تلاش بسیار کے بعد مٹی کے ذرات
کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا