یہ جانتی ہے کیوں ہیں فرشتے روپوش
یہ جانتی ہے کیا ہے فرشتوں کا ہوش
یہ جانتی ہے ضرور قدرت کا راز
سوسن ہے زباں دراز پھر ہے
خاموش
قرآن
کریم: " وہ جس کو چاہتا ہے حکمت
عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی ، اس کو حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے
وہی سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں۔"(البقرۃ: 269)
انسان کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں۔ ایک دماغ
میں ایسے خانے ہیں جن میں جسمانی آنکھوں
سے نظر آنے والی چیزوں کا ریکارڈ رہتا ہے اور یہ ریکارڈ ساری زندگی میں لمحہ بہ لمحہ
تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ ریکارڈ کی یہ تقسیم ہی واہمہ، خیال، تصور اور احساس بن جاتی
ہے۔ دوسرے دماغ میں ایسے خانے ہیں جن میں کائناتی ریکارڈ موجود ہے جو ظاہر ی آنکھوں
سے نظر نہیں آتا،
جب کوئی بندہ اپنے ارادہ اور اختیار سے توفیق
طلب کرکے اللہ کے رازوں سے واقف ہوجاتا ہے تو غیب کی دنیا میں بسنے والی مخلوق اس
کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اوروہ یہ جان لیتا ہے کہ غیب کی دنیا کے مکین
کس قسم کے حواس میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر باوجود اتنا عظیم علم ہونے کے وہ
کچھ بول نہیں سکتا، کچھ کہہ نہیں سکتا، اس لئے کی ظاہری آنکھوں والے اور مادی دنیا
کو مقصد بنانے والے لوگوں کے شعور میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اسرارورموز کی طاقت
کو برداشت کر سکیں۔
ابدال حق حضور قلندر بابا
اولیاء نے عارف باللہ کو سوسن سے تشبیہ دی ہے۔
سوسن(Lily) آسمانی رنگ کا ایک پھول ہے جس کی ہیئت انسانی زبان جیسی ہوتی ہے