اب
ذکر زمیں و آسماں کیوں کر ہو
یہ عمر ہے کیا اس کا بیاں کیوں کر ہو
جس لمحہ پر آسمان
زمین ٹکڑے ہوں
وہ لمحہ پیچیدہ عیاں کیوں کر ہو
قرآن کریم : اور انہوں نےاللہ کی ویسی قدر نہیں کی جیسا کہ اس
کی قدرکرنے کا حق ہے اور قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوی اور آسمان اس
کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے وہ ان کے شرک سے پاک اور بالا تر ہے۔ (67:39)
ہم جب ماضی میں کئی سال ہوئے اعمال اور زندگی
کے افعال اور کردار کا تجزیہ کرتے ہیں تو وقت کی طنابیں کھینچ جاتی ہیں، احساس
ٹھہر جاتا ہے، سپیس سمٹ جاتی ہے، بچپبن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا ۔ محسوس ہوتا
ہے کہ کل کی بات ہے۔ جیتے رہتے ہیں مگر جینا مرنا ہوتا ہے، اور ہر مر زندگی ہے،
جینے مرنے کی بھول بھلیوں میں ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ عمر کا کتنا حصہ گزر ا
ہے، رات دن کا مشاہدہ ہے کہ عمر کا تعین کوئی یقینی امر نہیں ہے، کوئی پیدا ہوتےہی
مرجاتا ہے اور موت روٹھ جاتی ہے، تو تمنا کرنے سے بھی قریب نہیں آتی ، ہر انسان
زمین، آسمان کا تذکرہ کرتا ہے، اپنی عقل و شعور کے مطابق زمین اور آسمان کے بارے
میں تاثرات بیان کرتا ہے، زمین کو اپنے لیے آرام و آسائش اور راحت کا گہوارہ
سمجھتا ہے، لیکن یہی راحت کا گہوارہ اس کو اپنے اندر سمیٹ کر اس طرح ینست و نابود
کر دیتا ہے کہ نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ جس طرح آج کا انسان ہر لمحہ ٹوٹ رہا ہے،
بکھر رہا ہے، اسی طرح ایک دن زمین و
آسمان بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، اور یہ ایسا پیچیدہ لمحہ ہے کہ جو کسی طرح عیاں
نہیں ہوتا ، ناقابل تذکرہ چھوٹی سی عمر میں یہ پیچیدہ لمحہ (قیامت) عیاں نہیں ہوتا
لیکن اگر انسان اس عمر کو تلاش کرلے جو عمر وقفوں اور لمحوں کی پابند نہیں ہے تو
پیچیدہ لمحات اس کے اوپر ظاہر ہوجاتے ہیں