تاچند
و کلیسا و کنشت و محراب
تاچند
یہ واعظ کہ جہنم کا عذاب
اے
کاش جہاں پہ روشن ہوتی
استاد
ازل نے کل جو لکھی تھی کتاب
قرآن کریم! اور
تمہارے پروردگا ر سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ
آسمانوں میں اور نہ کوئی چیز چھوٹی ہے یا بڑی مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمکیں ہونگے(62-62: 10)
گرجا گھر ، آتش کدہ
اور مسجد کا وجود یا ان میں اور ان کے ماننے والوں میں اختلاف اور واعظ کے وعظ میں
دوزخ کے عذاب سے ڈرانے کا عمل آخر کب تک جاری رہے گا۔ اے کاش ! ان لوگوں پر قدرت
کے وہ راز کھل جاتے جو اللہ تعالی نے اپنے خاص بندوں کو بتا دئیے ہیں۔ ایسے بندے جن کو نہ کوئی خوف
ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
یہ
رباعی تشریح ہے کہ اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوتا ہے نہ غم۔ جب بندہ اللہ کا دوست
بن جاتا ہے تو اس کے اندر یقین مستحکم ہو جاتا ہے اور جب بندہ اس راز سے واقف ہوتا
ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جائے گا تو وہ غیر جانب دار
ہو کر ہر بات اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کی معرفت سوچتا ہے ۔ وہ ہر نعمت کو استعمال کرتا ہے
شکر کترا ہے لیکن زندگی کا حاصل نہیں سمجھتا۔ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے جسم
پر کپڑے نہیں ہوتے اور آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس وقت بھی اس کا تن
کپڑوں سے آزاد ہوتا ہے۔ دنیا میں ننگا آتا ہے دوسرے آدمی تن ڈھانپتے ہیں اور جب
دنیا سے جاتا ہے تو دوسرے آدمی کفن پہناتے ہیں۔ خالی ہاتھ آتا ہے اور خالی ہاتھ اس
دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے