خانے
ہیں دماغ کے وہ خالی ہیں سب
چیزیں
جو نظرآتی ہیں جعلی ہیں سب
ہر
لمحہ بدلتا ہے جہاں کا منظر
نظارے
بھی آنکھوں کے خیالی ہیں سب
کائنات اول روز سے ایک میکانزم پر قائم ہے کہ یہاں ہر
شے غیب سے ظاہر ہوتی ہے اور غیب میں چھپ جاتی ہے۔ غیب۔ظاہر۔ غیب اس بات کی نشان
دہی ہے کہ زندگی اس عالم میں نہیں ، دوسرے عالم میں ہے اور وہاں سے یہاں اور یہاں
سے وہاں منتقل ہورہی ہے ۔ فرد نشوونما کے مراحل پر غور نہیں کرتا اس لئے غیب اور
ظاہر ہونے کی حقیقت پردہ میں ہے۔ چھپنے اور ظاہر ہونے کے عمل پر قائم زندگی متوجہ
کرتی ہے کہ فرد کہیں سے مسلسل آرہا ہے اور مظاہرہ کے بعد واپس جارہاہے یعنی وہ اس
دنیا کا مکین نہیں ۔ یہاں صرف اس کا مظاہرہ ہے۔
مظاہرے
کی ابتدا خیال سے ہوتی ہے۔ خیال درجہ بدرجہ گہرا ہونے سے تصویر واضح ہوتی ہے اور
مظاہرے کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔ دنیا کی رونق ایک اطلاع ہے جس کا مظاہرہ غیب ظاہر
غیب پر ہے۔ اس سارے عمل میں دماغ کا کردار اسکرین کا ہے۔ خیال نہ آئے ۔ دماغ کے
خانے خالی ہیں۔
خیال تصویر ہے اور
تصویر اصل کی نقل ہے۔ نقل کو اصل سمجھنا ۔ الوژن ہے جس سے "گمان"نگاہ
بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گمان کی نفی کی ہے اور فرمایا ہے کہ تم
گمان کی وجہ سے پہاڑ کو جامد قیاس کرتے ہو ، پہاڑ جمے ہوئے نہیں بادلوں کی طرح اڑ
رہے ہیں کائنات میں موجود ہر شے اپنی اصل کا تعارف ہے اور تعارف غیب ہے۔ تفکر سے
بندہ واقف ہوجاتاہے کہ چیزیں اپنی اصل کا عکس ہیں۔ مناظر شعور کی بنائی ہوئی مختلف
تصویریں ہیں اور دیکھنے کی یہ طرز مفروضہ ہے اس لئے شعور کے مشاہدات و تجربات
مفروضہ ہیں۔ مادی نگاہ مظاہر میں تغیر دیکھتی ہے۔ آبادی ویرانہ میں اور ویرانہ
آبادی میں بدل جاتا ہے۔ پچاس سال کی عمر میں داخل ہونے والا شخص وہی ہے جو پہلے
ایک دن کا بچہ تھا لیکن تغیر کے سبب شباہت تبدیل ہوگئی اور صرف نام پہچان بن گیا ۔
نام بھی تعارف کے لئے ایک تصویر ہے جس کو سن کر ذہن میں متعلقہ فرد کا عکس بن جاتا
ہے۔ در حقیقت فرد کیاہے اور کون ہے، ہم نہیں جانتے